شام تنہائی .قسط :37

سنو لڑکی آ۔...،اکھڑ لہجے میں بولا
رما میرا نام رما ہے ...،،اس نے وضاحت کی ...
تو مجھے کیوں بتاتی ہو ...مجھے تمھارے نام سے کیا مطلب ...،،
تم کیوں آ جاتی ہو ...،،ہر دوسرے دن یہاں ....،،سلمان اکھڑا ...
مانا کہ تم بہت خوبصورت ہو .
handsom ہو ....
مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم یوں اکڑ دکھاؤ .....،،رما بولی
ویسے اس کا نام کیا تھا ...،،وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اعتماد سے بولی ....
کہیں اس کا نام میرے نام سے ملتا جلتا تو نہیں جو یوں غصہ دکھا رہے ہو ...،،
کس کا نام ...،،سلمان نے استسفار کیا ....
وہی جس نے تھیں بے نام کر دیا ہے ...،،
نعمان کی آنکھوں کو چمک ماند پڑ گئی ....
دفع ہی جاؤ ...،،یہاں سے ...،،نفرت ہے مجھے تم سب لڑکیوں سے ...،،تم سب ایک جیسی ہوتی ہو ...،،
دھوکے باز ...،،
مکار ...،،
نعمان رنج کے عالم میں چلتا ہوا چارپائی پہ آ کر لیٹ گیا۔...اس نے اپنی آنکھوں پہ بازو رکھ لیا ...
دنیا میں تمام لوگ ایک جسے نہیں ہوتے ..،،ہر انسان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ...،،ایک لڑکی کے غلط ہونے سے سب تو غلط نہیں ہو گئیں ...،،
نعمان نے بازو آنکھوں سے ہتا کر پاس کھڑی لڑکی کو دیکھا ..
نہیں یقین ...
تو آزما کر دیکھ لو ..…۔،،
اور ویسے بھی ضروری نہیں کے محبّت ایک بار ہی ہو ...،،
سلمان اسے حیرانی سے دیکھنے لگا ...
وہ بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہی تھی ...
اس کی آنکھوں کی چمک سے سلمان خوف زدہ ہو گیا ...سلمان کو اس کی آنکھوں میں اپنا عکس صاف دکھائی دے رہا تھا ...
محبت اور بے وفائی صرف ایک بار ہی ہوتی ہے ...جو بار بار ہو جائے ...وہ کب محبت ہوتی ہے ...سلمان مسکراتے ہوے طنزیہ بولا
...
محبت دو بار تین بار یا چار بار نہیں ہوتی ...،،
یہ تو سراسر توہین ہے محبت کی اور سب محبت کرنے والوں کی ...،،
محبّت صرف محبت ہوتی ہے ....،،
اور محبّت کو بار بار گالی نہیں دی جاتی ...،،
وہ رما کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ...
وو یوں ہی اپنی چارپائی پہ لیٹا ہوا تھا ...پھر وہ اٹھا اور اٹھ کر رما کے بہت پاس سے گزرتا ہوا کمرے سے باہر جانے لگا ...
اور اگر کوئی بے وفائی کر جاۓ ....،،پھر تو محبت دوسری بار کی جا سکتی ہے ....،،رما یوں ہی منہ دوسری طرف کیے کھڑی بولی تھی ....
چلتے سلمان کے قدم کمرے کی دہلیز پہ تھم گئے ...
اس نے بمشکل بہت عرصے بعد آتے آتے قہقھے کو روکا ...
سلمان نے رخ موڑ کر رما کی طرف دیکھا ...رما نے بھی جواب نہ پا کر اس کی طرف دیکھا ...
وہ مسکرا رہا تھا ...
کیا ہوا ...،،
ہنس کیوں رہے ہو ....،،
کوئی محبت کا مذاق اوراے ...،،تو ہنسی تو اے گی ...،،
میں نے ایسا کیا کہہ دیا ...،،وہ حیرانی سے بولی ...
جب محبت ایک بار ہو تو بے وفائی بھی صرف ایک بار ہی ہوتی ہے ....،،
جب کوئی بے وفائی کرتا ہے .تو اس کی دی گئی بے وفائی کو قبول کرنا پڑتا ہے ...،،دل کو بہلانے کے لئے دوسری محبت نہیں کی جاتی ...،،..،،تو ضروری نہیں ہوتا کہ اس سے محبت ختم ہو جائے ...،،اور پھر کسی دوسری محبت کی طرف منہ موڑ لیا جائے ...،،جسے میں اب تمھارے سامنے کھڑا ہوں .. ،سلمان اسے گھورتے ہوے بولا ... .،،
تو پھر کیوں کھڑے ہو میرے سامنے ...،،
وہ بھی اسے گھورتے ہوے بولی ...
یہ بتانے کے لئے کہ اگر میں تمھارے سامنے کھڑا ہوں ...،،تو یہ مت سمجھو ک مجھے تم سے دوسری محبت ہو گئی ہے ...،،
بلکہ ...،،
یہ بتانے کے لئے ...،،کہ تم محبت کی میم سے بھی واقف نہیں ہو ...،،
تو پھر تم کیوں مجنوں بننے پھرتے ہو ...،،ارے پھرتے بھی کہاں ہو ....،،اس کمرے میں قید ہو ...،،
اب قبول کرو اس کی بے وفائی کو ...،،
یا پھر ...،،
وہ کچھ لمھے کو خاموش ہو گئی ...
یا پھر کیا،،سلمان نے سرگوشی نما آواز میں پوچھا ...
یا پھر کر لو پھر سے محبت ...،،
محبت پہ محبت کبھی نہیں ہوتی ...،،اور بے وفائی پہ بے وفائی نہیں ہوتی ...،،اور تم بھی ایسا مت کرنا ...سلمان اٹل لہجے میں بولا
کیوں کہ محبت پہ محبت کرنا ...،،کسی بے وفا کے ایک بار بے وفائی کرنے سے بھی زیادہ برا ہے ...،،
کسی بے وفا کو تو معاف کیا جا سکتا ہے ....،یا پھر شائد نہیں کیا جا سکتا ...،،
ہاں مگر ...،،محبت پہ محبت کرنے والے کو کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا ...،،...
سیدھی دفہ تین سو دو لگتی ہے ...،،
سلمان رما کے کان کے قریب منہ کر کے بولا ...رما اس کی محبت کی اس شدت پہ حیران رہ گئی ...
رما آپی ...،،رما آپی ..،،جلدی او...،،اماں بلا رہی ہے .....
شرمندگی سے نظریں چراتی رما کمرے کے دروازے سے باہر نکل گئی ...،،اور سلمان پانی سے لبریز آنکھیں لئے وہیں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ...
دیوار بہت گرم تھی ...مگر اس کے اندر کی تپش اس سے کہیں زیادہ تھی ..

..…۔.......................
ستارہ بائی چیک بک ہاتھ لئے میں کھڑی تھی ... پیچھے سے
ایک لڑکی ائی اور اس نے ستارہ بائی کے کان میں کچھ کہا ...
ستارہ بائی کے چہرے کی رنگت ماند پڑ گئی ...
آپ تشریف رکھئے زمان صاحب ....،،میں ابھی حاضر ہوئی ...،،ستارہ بائی مسکراتے ہوے زمان صاحب سے بولی ...
مگر ..،ملک زمان کو انہونی ۔کا احساس ہوا ...
ارے آپ تشریف تو رکھئے میں بس دو منٹ میں حاضر ہوئی .بائی نے چہرے چہرے پہ مسکراہٹ سجاتے ہوے کہا
… اور آرزو کا ہاتھ پکڑ کر اندر ۔کی لے گئی .. ستارہ بائی نے کمرے میں آ کر دبئی سے
آنے والی امپورٹنٹ کال سنی ...
فون پہ ملنے والی دھمکی سن کر ستارہ بائی کے رونگٹے کھڑے ہو گئے .وہ پسینہ پسینہ ہو رہی تھی
پانی ...،،پانی ...،،
پاس کھڑی لڑکی نے کمرے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پہ پر بیل کو
محفل کو وائنڈ اپ کر دو ...،،
ملک زمان کو اس کا یہ چیک واپس کر دو ...،،ستارہ بائی کے حلق سے آواز نکلنا مشکل ہو رہی تھی ...
اب اسے آرزو کو دبئی بھیجنا تھا ..
آرزو کو اس کے کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا ...
یہ اس کوٹھے پہ آرزو کی آخری رات تھی ...
وہ اٹھی اس نے کمرے کے دروازے کو پکڑ کر کھولنا چاہا مگر وہ باہر سے لاک تھا ...رات کے تین بجے کا وقت تھا ...وہ زمین پہ گھٹنوں میں سر دے بیٹھی تھی ...
جب اسے کمرے کا لاک آھستہ سے کھلنے کی آواز ائی ...آرزو نے سر اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا .... چند لمحے گزر گئے مگر کوئی اندر نہ آیا ...وہ اٹھی اور اس نے دروازہ کھولنا چاہا تو دروازہ کھلا پڑا تھا ...
حیران سی کمرے کے دروازے میں کھڑی تھی ...
پھر اس نے کمرے کے دروازے سے باہر جھانکا ...وہاں کوئی موجود نہیں تھا ...کوٹھے پہ اب خاموشی تھی ....تو وقت سب آرام فرما رہے تھے ...
وہ باہر نکلی ...اور اسے سمجھ نہ ائی وہ کس طرف جاۓ ...پھر اس نے ایک سمت چلنا شروع کر دیا ..
کچھ دیر بعد اسے اپنے پیچھے شور سنائی دیا ...
کچھ لوگ اسے کی سمت بھاگ رہے تھے....
آرزو گھبرا اٹھی ...اس سے قدم اٹھانا مشکل ہو گیا ...
جاری ہے ...
hira
About the Author: hira Read More Articles by hira: 53 Articles with 59605 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.