ایک ہی حل استصواب رائے

بھارتی ظلم کی وجہ سے آج کا کشمیر لہو، لہو ہو چکا ہے ہر طرف لاشوں کے انبار ہیں جو پکار، پکار کر عالمی برادری اور خاص طور پر اقوام متحدہ سے کہہ رہے ہیں کہ کیا کشمیریوں کو کوئی حق نہیں کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر سکیں کہ ان کو کس کے ساتھ جانا ہے کیا ان پر یہ ظلم اور جبر ہمیشہ رہے گا کیا ان کی قربانیاں مشرقی تیمور اور دیگر عیسائی خطوں میں چلنے والے تحریوکوں سے کم ہیں یا ان کو مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے بھارتی ظلم اور جبر کی یہ کہانی کھبی تو انجام تک پہنچے گی بھارت کی طرف سے اٹھائے جانے والے ظلم کے خلاف دنیا بھر کے مسلمان اپنا اختجاج ریکارڈ کرواتے رہتے ہیں اسی طرح گزشتہ دنوں پاکستان میں سمیت دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و بربریت کے خلاف یوم سیاہ منایا گیا یہ دن منانے کا مقصد یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ایک بار پھر یہ باور کیا جائے کہ پاکستان کے عوام ان کی جائز اور قانونی جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے مقدمے کو عالمی سطح پر اجاگر کرتے رہیں گے یوم سیاہ کے ذریعے عالمی برادری کو بھی مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم پر متوجہ کرنے کی ضرورت ہے اور عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ کشمیریوں پر مظالم بند کروانے کے سلسلے میں اپنے اثر و رسوخ کو بروئے کار لائے مسئلہ کشمیر کو حق خود ارادیت کی بنیاد پر حل کرنے کے سلسلے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمدباقی ہے اس اظہار سے یہ مسئلہ ابھی تک اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے لیکن اس پر کوئی پیش رفت بھارتی لابی ہونے نہیں دے رہی اقوام متحدہ کو ان قراردادوں پر عملدرآمد کے سلسلے میں نئے سرے سے کوششیں کرنی ہوں گی ورنہ دوسری صورت میں ا س کا کردار ایک تما شائی سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا عالمی امریکہ سمیت مغربی دنیا اور اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کی سنگینی کا احساس ہے اس لئے ان کی طرف سے زور دیا جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں مگر بھارت جس نے کشمیر پر طاقت کے زور پر قبضہ جما رکھا ہے مذاکرات سے گریزاں ہے کئی بار اس نے عالمی برادری کے دباؤ کے تحت مذاکرات کا آغاز کیا لیکن انہیں محض وقت گزاری کیلئے استعمال کیا چنانچہ ان کے نتیجے میں مسئلہ کے حل کی جانب معمولی سی بھی پیش رفت نہ ہو سکی جبکہ بعض مغربی ممالک جن میں برطانیہ ،جرمنی اور امریکہ سمیت بعض ممالک نے تنازعہ کے حل کے سلسلے میں ثالثی کی بھی پیشکش کی لیکن بھارت نے ثالثی قبول کرنے سے انکار کردیا مذاکرات سے گریز اور ثالثی سے انکار کرنے والا بھارت بدستور طاقت کے استعمال کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ طاقت اور تشدد کے استعمال سے وہ کشمیریوں کی آواز کو خاموش کرا سکے گا لیکن چھ دہائیوں سے زائد عرصے سے اس کی یہ پالیسی ناکام رہی جس کے نتیجے میں یہ مسئلہ عالمی سطح پر اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے بھارت کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ طاقت کے استعمال کی اس کی پالیسی مکمل طور سے ناکام ہو چکی ہے بلکہ اس پالیسی نے تو پوری دنیا کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کی جانب متوجہ کیا ہے بھارت کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ مذاکرات کے ذریعے اس تنازعہ کو حل کرنے کے معاملے میں سنجیدگی اختیار کرے یہ خطے کے امن کیلئے مفید ہے اس صورت میں ہی دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم ہو سکتے ہیں اور ان کے درمیان اچھی ہمسائیگی قائم ہو سکتی ہے۔دوسری طرف کشمیری حریت کانفرنس کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر میں قیام امن سے متعلقہ چار نکاتی فارمولا پیش کر دیا ہے انہوں نے عالمی ادارہ اور سربراہان مملکت کو خطوط ارسال کئے ہیں ان خطوط میں عالمی برادری سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بھارت کو کشمیر سے متعلق فوجی پالیسی تبدیل کرنے پر آمادہ کریں چار نکاتی فارمولا کے نکات میں شامل ہے کہ جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور اس کے باشندوں کا حق خود ارادیت تسلیم کیا جائے آبادی والے علاقوں سے فوجی انخلاء عوام کش فوجی قوانین کا خاتمہ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی نظر بندی کے کلچر کا خاتمہ اور مسئلہ کشمیر سے جڑے تمام سیاسی مکاتب فکر خاص طور پر حق حود ارادیت کے حامی سیاسی رہنماؤں کو سیاسی سرگرمیوں کی آزادی اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے مبصرین کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے۔ بھارت کو یہ صداقت تسلیم کرنی چاہیے کہ طاقت کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی اس کی حکمت عملی سراسر ناکام ہو چکی ہے چھ دہائیوں سے وہ مسلسل کشمیریوں کے خلاف طاقت اور تشدد کے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے ان ہتھکنڈوں نے اسے عالمی سطح پر بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے بہت سے سوالوں کے سامنے لاکھڑا کیا ہے جبکہ طاقت اور تشدد سے تنازعے کو عالمی سطح پر زیادہ اجاگر کیا ہے چنانچہ دنیا اس طرف متوجہ ہوئی اور عالمی برادری اب یہ کہتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہیے عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل نے بھی خطے میں پائیدار امن کیلئے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا ہے طاقت کے استعمال کی بھارتی پالیسی نے تحریک حریت کو کیا کمزور کرنا تھا اس نے مسئلہ کشمیر کو دنیا پر زیادہ شدت سے آشکار کیا ہے خطے کے امن اور دونوں ملکوں کے عوام کی خوشحالی کا یہ تقاضا ہے کہ اس تنازعہ کو حل کرنے میں سنجیدگی اختیار کی جائے۔پاکستان اپنی طرف سے کوشش کر رہا ہے لیکن شاید بھارت یہ کھبی نہیں چاہے گا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کشمیر میں اگر غیر جانبدارنہ استصواب رائے کرایا گیا تو ان کا فیصلہ کیا ہو گا اس لئے وہ بزور طاقت کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے دوسری طرف خود بھارت اپنے اندر چلنے والی علیحدگی کی تحریکوں سے اس قدر پریشان ہے کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی ہے اور وہ اس کمزوری کو چھپانے کے لئے کشمیر میں ظلم جبر کی ایسی ایسی کہانیاں برقم کر رہا ہے جن کا حساب برحال اس کو دینا ہی ہو گا۔ کشمیر میں امن کی ایک ہی صورت ہے جس میں کشمیریوں کو ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے اس کے لئے عالمی برادری اور اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کریں تو شاید یہ مسئلہ بہت جلد حل ہو سکتا ہے ۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 206133 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More