برتری اورسولوفلائیٹ!

 آزاد کشمیر کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی واضح برتری نے سیاسی تالاب میں ایک لہر سی پیدا کردی ہے۔ پاکستان میں پانامہ لیکس کا شور کچھ دنوں سے بہت سراٹھا رہا تھا، اسی دوران وزیراعظم نواز شریف دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر لندن گئے تو ان کے بارے میں رائے عامہ تقسیم ہوگئی، معاملہ کسی حد تک ٹھنڈا ہوگیا ، وزیراعظم کی واپسی کا انتظار ہونے لگا، تحریکیں چلانے کے اعلانات ہونے لگے۔ مگر یہ سب کچھ شاید آزاد کشمیر کے الیکشن کے بعد ہونا تھا، کہ اس کے نتائج نے حالات بدل دیئے۔ سیٹوں میں کامیابی کا تناسب اتنا کہ کوئی ن لیگ کے عشرِ عشیر بھی نہیں۔ اس الیکشن کو کیا نام دیا جائے گا، آیا مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں اس قدر اضافہ ہوگیا ہے، وہاں کے عوام نے دوسری جماعتوں کو یکسر نظر انداز کردیا ہے، اُن کی تمام تر امیدیں ن لیگ سے ہی وابستہ ہیں؟ کچھ تو ہے، جمہوریت میں الیکشن کے نتائج ہی فیصلہ کن ہوتے ہیں، اپوزیشن کی تحریکوں اور اعتراضات اپنی جگہ، مگر جب عوام ہی فیصلہ کردیں تو پھر اپوزیشن کو انہی کی سننی چاہیے اور اخباری بیانات، ہنگامہ آرائی اور دیگر منصوبہ بندیوں کی بجائے عوام کی رائے اپنے حق میں تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جو لوگ اُن کے ساتھ کھڑے ہیں، انہیں مطمئن رکھیں اور دیگر کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں، تب ہی جا کر کوئی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ فی الحال کشمیر کے الیکشن کے بعد اپوزیشن کو اپنی کمزوریوں کو دیکھنا چاہیے۔ دوسری طرف یہ بھی اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کشمیر اور پاکستان کے دیگر علاقوں کے ماحول اور مزاج میں فرق ہے، اسی الیکشن میں لاہور والی نشست سے ن لیگ کی ناکامی پی ٹی آئی کے لئے امید کی ایک کرن ہے، دیکھیں اب آئندہ کے لئے دونوں جماعتیں کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہیں۔

تحریک انصاف کو اگرچہ کشمیر کے الیکشن میں قابلِ ذکر ووٹ نہیں مل سکے، تاہم اس نے الیکشن سے قبل ہی پاکستان بھر میں تحریک چلانے اور وزیراعظم کے خلاف پانامہ لیکس کے حوالے سے مہم چلانے کا اعلان کر رکھا تھا۔ جمہوریت میں ہر کسی کو اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ہوتی ہے، احتجاج بھی اس کا حق ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا یہ حُسن اپنی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر رہتا ہے۔ عمران خان نے دھرنوں کو روایت بنایا تو مخالفین نے اس عمل کو ایک چِڑ بنانے کی کوشش کی۔ تمام سیاسی جماعتیں ہی اپنے اپنے دائرے کے اندر اپنی حیثیت میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، مگر پی ٹی آئی اس معاملہ میں زیادہ فعال معلوم ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عمران خان اکثر اپنی تحریکوں اور کوششوں کو سولو فلائیٹ کے ذریعے ہی کامرانی کی منازل تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں، اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے رابطہ سے قبل ہی وہ یہ فرض کرلیتے ہیں کہ اگرکسی نے ان کا ساتھ نہ دیا تو وہ اکیلے ہی نکل کھڑے ہونگے، یوں وہ کسی کو ساتھ لیئے بغیر ہی اپنے مفروضے پر عمل کرتے ہوئے تنہا ہی نکل پڑتے ہیں۔ انہوں نے کبھی خیبر پختونخواہ میں اپنی اتحادی جماعت ، جماعت اسلامی سے بھی کم ہی مشاورت کی ہے۔

حکومت کے خلاف تحریک چلانا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی، مگر تحریک ہمیشہ کسی منزل کے حصول کے لئے برپا کی جاتی ہے، تحریک کو جاندار بنانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ جماعتوں کو شامل کیا جائے، مگر تحریک انصاف کے بارے میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں تحفظات کا شکار ہیں کہ یہ پارٹی سولو فلائیٹ کی قائل ہے، دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے سے ہمیشہ کتراتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کامیابیاں سمیٹنے کی بجائے اسے تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں میں بالکل آزاد ہے، مگر کسی بڑے مقصد کے لئے دوسروں کو ساتھ ملانا پڑتا ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی کہا ہے کہ’’․․ عمران خان کی سولو فلائیٹ سے اپوزیشن کو نقصان پہنچ رہا ہے، حکومت کے خلاف ان کی تحریک اس بار بھی ناکام ہوگی․․‘‘۔اپوزیشن کی ایک نمایاں جماعت اگر اپنی الگ اور تنہا اڑان پر مُصّر ہے تو یقینا دوسری جماعتیں ’ون نکاتی ایجنڈا‘ ہونے کے باوجود اسے آپس کے اتحاد کے لئے قائل نہیں کرسکتیں، اپوزیشن کا یوں بکھر کر رہ جانا حکومت کے فائدے میں ہے، اوپر سے آزاد کشمیر کے الیکشن میں کامیابی بھی حکومت کی خوش قسمتی کی دلیل ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427036 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.