منشیات اور ہماری زندگی

 معاشرے کے اندر پائی جانے والی برائیوں میں سے سب سے تیز ، خطرناک اور باآسان برائی منشیات کا استعمال ہے، ایک دور تھا کہ معاشرے کے اندر بیٹا والدین کے سامنے بیٹھ نہیں سکتا تھا، بال تک نہیں کٹوا سکتا تھا، پھر ایک ایسا دور آیا کہ اولاد والدین سے چھپ کر منشیات کا استعمال کرنے لگے اور والدین کو اگر اس بارے میں معلوم ہوتا تو وہ اپنی اولاد کو سزا دیا کرتے تھے اور ایک آج کا جدید ترین دور آگیا ہے کہ والدین اور بچے اکھٹے مل بیٹھ کر منشیات کا استعمال کرتے ہیں، ایک دوسرے سے مانگ کر اور شیئر کر کے منشیات کا استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اس نشے کی لت میں عورتیں بھی شامل ہیں اور وہ عورتیں جو یا تو بہت امیر ہیں یا پھر وہ جو ناجائز دھندہ کرتی ہیں۔ نئی نسل منشیات کا استعمال ایک دوسر ے پر سبقت حاصل کرنے اور بطور فیشن کے استعمال کر کے اپنے آپ کو ہیرو سمجھتے ہوئے کرتے ہیں۔

کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ آخر کا ر کیا وجہ ہے کہ نشہ کا استعمال یہ جانتے ہوئے بھی کہ نقصان دہ عمل ہے پھر بھی کیوں کیا جاتا ہے۔۔۔؟؟؟سروے ، تبصروں اور تجزیات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ نشے کی طر ف رحجان مختلف وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے، اور لوگ نشہ کو ذہنی سکون سمجھ کر استعمال کرتے ہیں ۔ معاشرے کے اندر زندگی سے مایوسی اور نشے کے عادی وہی لوگ ہوتے ہیں جو حالات سے مایوس ہو، شدید عدم تحفظ کا شکار ہو، ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑا ہو، دولت کی غیر منصفانہ بند ر بانٹ سے متاثر ہوا ہو،انتہائی غربت کا مارا ہو، دوست بد کی صحبت کی ہو، عشق و محبت میں بے وفائی کا سامنا کیا ہو، اپنے مقاصد میں ناکامی ہوئی ہو، زمانے کی تپش نے جلایا ہو، اپنوں نے عین وقت پر دغا بازی کی ہو، ہر طرف ہر کوئی مطلب کا پجاری پایا ہواور جن لوگوں کو اپنا خون بھی پلایا ہو ان کی بے رُخی دیکھی ہو۔

نشے کے عاد ی یہ لوگ شہر کی سٹرکوں ، فٹ پاتھوں، گلی کوچوں، بس اڈوں، ہوٹلوں اور ہر اس جگہ پر جہاں یہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں وہیں اپنی محفل سجا تے ہوئے وہیں ہیرون اور چرس کا استعمال شروع کر دیتے ہیں، اور بعض پلوں کے نیچے اور لاری اڈوں میں ان کی پوری پوری کالونیاں آباد ہوتی ہیں اور تشویش کی بات تو یہ ہے کہ یہ نشے کے عادی لوگ ہر عام و خاص کو نظر آرہے ہوتے ہیں کہ وہ کس طرح ماحول و فضا دونوں کو نا قابل ِ تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں مگر نہیں نظر آتے تو ہماری پولیس کو ۔۔۔اور اگر پولیس کو نظر آ بھی جائیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ان عادی نشویوں کا کرے کیا۔۔۔؟؟؟ایسے لوگ معاشرے کے اندر زندہ لاش کی مانند ہوتے ہیں ان کو زندگی دینے کی ضرورت ہوتی ہے زندگی کی سمجھ فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔بعض شہروں میں منشیات کے تدارک کے سلسلہ میں سنٹرز کا قیام قابل ستائش ہے مگر یہ علاج بھی تو ان ہی لوگوں کا ہو سکتا ہے جن کی جیب میں موٹی رقم ہو گی جو غریب و مفلس ہو گا وہ تو نشہ ہی کرتا رہے گا مگر ادھر تو محو حیرت و حیرانگی کی بات یہ ہے کہ سوشل ویلفئیر کے ادراے، تنظیمیں اور انسانیت کی خدمت کی دعویدار این جی اوز ان زندہ لاشوں کا مرنے سے قبل علاج کیوں نہیں کرواتی ۔۔۔؟؟؟ وہ کیوں ترک منشیات کے علاج معالجے کی طرف ان کو راغب کرنے کی ذمہ داریاں نبھاتے۔
ہمارے مقدس دین ، دین ِ اسلام میں نشہ آور اشیاء کے استعمال سے سخت ممانعت کی گئی ، مقد س کتاب قرآن مجید کی سورۃ البقرہ میں نشہ کو حرام قرا ر دیکر ، زنا چوری ، جوئے ، صنم پرستی اور شرک جیسے گناہوں کو گناہ ِ کبیرہ میں شامل کیا گیااوراحادیث نبوی ﷺ میں بھی نشہ کی ممانت ملتی ہے فرمایا گیا کہ :ـ" نشہ خمر ہے اور ہر خمر حرام ہے ۔"، چلیں چھوڑیں ساری باتوں کو ۔۔۔ایک منٹ کے لیے یہ سوچتے ہیں کہ جس منہ سے ہم نماز پڑھتے ہیں ، کلمہ پڑھتے ہیں ، رب پاک اﷲ العزوجل کا اسم گرامی لیتے ہیں، دوجہاں کے سرکار ، سرکار ِ مدینہ ﷺ پر درود و سلام پڑھتے ہیں پھر اس منہ سے نشے کو لگانا کہاں کا عشق نبوی ﷺ اور کہاں کی مسلمانی ۔۔۔؟؟؟ اپنے آپ کو پاک کریں ہم مسلمان ہیں اور ہمارے مذہب میں پاکی کو پسند کیا گیا ہے، ان ناپاک اشیاء کو اپنے پاس تک نہ آنے دے اگرچہ کہ وہ نسوار یا ایک عام سگریٹ ، یا پھر پان و سپاری ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔کیونکہ نشہ۔۔۔ نشہ ہے۔۔۔چاہے وہ کسی بھی چیز کا ہو۔۔۔ اور نشے کی ممانعت کی گئی ہے لازماََ نہیں کہ شراب، چرس ، ہیرون کا استعمال ہی نشے کی زمرے میں آتا ہے، اور یاد رکھیں کہ ہمیشہ چھوٹی لکٹریاں جلتی ہیں تو تب بڑی لکٹریوں کا آگ لگتی ہے ، بالکل اسی طرح چھوٹے نشے سے بڑے نشے کی لت پڑتی ہے ، اس لیے ہمیشہ اپنے ارد گرِد اپنے دوست احباب و رشتہ دار جس کوبھی کسی بھی قسم کے مہلک نشے میں مبتلا دیکھیں تو اس کو دور رہنے کی تلقین کریں کیونکہ یہ ہمارا فرض بنتا ہے۔
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 181386 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More