وہ کھانا کہاں سے آیا تھا؟

محترم قارئین السلامُ علیکم
یہ جون 2004 کی بات ہے چند دوستوں نے جو کہ شعبہ تعلیم سے منسلک ہیں میرے پاس تشریف لائے کہ اقبال بھائی ہماری موسم گرما کی تعطیلات شروع ہوچُکی ہیں جس میں کُچھ دوستوں کا پروگرام تھا کہ اِن چھٹیوں کا فائدہ اُٹھاتے ہُوئے کیوں نہ سیر و تفریح کا پروگرام تشکیل دِیا جائے لیکن اَب تمام دوست اِس بات پر مُتفق ہوچُکے ہیں کہ کیوں نہ اِن چھٹیوں کا فائدہ اُٹھاتے ہُوئے مدنی قافِلہ میں سفر کیا جائے اِس طرح ایک تو حُکم قُرآن کی تعمیل بھی ہوجائے گی کہ بھلائی کا پیغام اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں تُک پہنچانے کی سعادت حاصل ہوجائے گی نیز سیر ضمناً ہوجائے گی۔

میں نے اُنکی خِدمت میں عرض کیا دوستو تجویز تو بُہت اچھی ہے لیکن اگر آپ لوگ سیر کرنے کو غیر اِسلامی عمل سمجھ رہے ہیں تو آپکی اِطلاع کیلئے عرض کئے دیتا ہُوں کہ سیر کا حُکم تو قُرآِ پاک میں موجود ہے (وسِیرُ فِی الاْرضِ، ترجمہ اور زمین کی سیر کرو) اب رہی یہ بات کے اِس سیر کے آداب کے کیا تقاضے ہیں تُو اِس بِحث کو پھر کبھی کیلئے اُٹھا رکھتے ہیں۔

فی الحال تُو مجھے یہ جاننے میں دِلچسپی ہے کہ آخر آپ لوگ مجھے کیوں اپنے پروگرام سے آگاہ کرنے کیلئے تشریف لائے ہیں تب وہ کہنے لگے لو بتاؤ یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے بھئی ہم سبھی یہ چاہتے ہیں کہ آپ بھی اِس روحانی سفر میں ہمارے ساتھ رہیں۔

جوں ہی وہ دوست اپنی بات کہہ کر خاموش ہُوا تو ایک دوسرے دوست نے مذاقاً کہا اور اگر آپ نے کوئی بہانے بازی کی تُو ہم سب بھی نہیں جائیں گے اور یہ گُناہ بھی آپ کے سر رہے گا۔ میں اُن دِنوں گوشہ نشینی کی زندگی گُزار رہا تھا نہ کوئی خاص مصروفیت تھی نہ ہی کوئی اسقدر کاروبار وسیع تھا کہ کوئی معقول بہانہ کرسکتا سُو حامی بھرلی۔

اور یوں جون کے وسط تک ہم مدنی قافلے میں روانگی کیلئے حیدرآباد شہر میں حسن علی آفندی کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ جا پُہنچے وہاں جا کر ہمیں معلوم ہُوا کہ ہمارا قافِلہ راولپِنڈی بھیجا جارہا ہے اور ہمارے قافِلے کی تشکیل وہیں جا کر ہوگی راولپنڈی کا نام سُنتے ہی ہمیں لگا کہ ہمیں پھر دَس برس پہلے کی طرح اسلام آباد کے جنگل نُما شہر میں بھیج دِیا جائے گا سو میں نے اِرادہ کرلیا کہ جیسے ہی امیر قافِلہ کا اعلان ہوگا میں اُن سے صاف صاف کہہ دونگا چاہے کسی قریبی گاؤں دیہات میں بھیج دو لیکن میں اسلام آباد نہیں جاؤں گا اب کوئی اسلام آباد کا رہایشی بھائی یہ نہ سمجھ لے کہ ہمیں خُدانخواستہ اسلام آباد والوں سے کوئی دُشمنی ہے بلکہ ہماری بے رغبتی کی وجہ کُچھ ایسی تلخ یادیں ہیں کہ مجھے اِسلام آباد کے نام سے ہی اُس وقت اِلرجی محسوس ہوتی تھی، تھی سے مُراد یہ ہے کہ اب میں خود اِسلام آباد جانا چاہتا ہوں کہ وہاں سید محمد افضل کی اَمی رہتی ہیں اور میں ایک مرتبہ اُنکی قدم بوسی کی خُواہش اپنے دِل میں پاتا ہوں۔

ویسے اِسلام آباد کا ذکر آہی گیا ہے تو میں اسلام آباد کی یاد سے جُڑا ایک واقعہ آپکو سُناتا چلوں کہ 1994 میں ہمارے قافلہ امیر کے پاس ایک نوجوان آیا یہ نوجوان درس وتدریس کی ہر محفل میں شمولیت بڑی پابندی کیساتھ کیا کرتا تھا اور قافلہ والوں سے بڑی مُحبت کیساتھ پیش آیا کرتا تھا، اُس دِن وہ بڑی لجاجت کیساتھ امیر قافَلہ سے درخواست کر رہا تھا کہ جناب کل جمعرات کی رات کا کھانا آپ تمام لوگ ہمارے گھر پہ کھائیں امیر قافلہ پہلے تو راضی نہیں ہُوئے لیکن کافی پَس و پیش کے بعد حامی بھر لی تمام شُرکائے قافلہ کے کھانے پکانے کی ذمہ داری مجھ فقیر کے حصے میں آئی تھی اگلے دِن صبح کے ناشتے کیساتھ ہی دوپہر کی سبزی بھی پکانے کے بعد میں نے برتن وغیرہ صاف کر کے رکھ دیئے دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوکر ہم سب ہی درس و تدریس میں مشغول ہوگئے مغرب کی نماز پڑھ کر ہمیں اجتماع میں جانا تھا لیکن مغرب سے پہلے تک وہ نوجوان نہیں آیا بعد مغرب ہمیں اُس نوجوان نے یہ خبر آکر سُنائی کہ میری بڑی باجی نہیں مان رہیں وہ کہتی ہیں کہ اگر کسی مولوی کو گھر لائے تو تُمہارے ساتھ اُن مولویوں کی بھی ٹانگیں توڑ دونگی میں آپ لوگوں سے بے حد شرمندہ ہوں کہ آپ لوگوں کو اپنے گھر نہیں لیجاسکتا، امیر قافِلہ نے اُس نوجوان کو تسلی دی کہ کوئی بات نہیں آپ نے تو خلوص کیساتھ دعوت دی تھی اور آپکو اس نیت کا ثواب ضرور ملے گا، یہ سُن کر وہ نوجوان تو چلا گیا اور امیر قافِلہ نے مجھے بُلا کر کہا کہ کھانا بنانے کا وقت تو ہمارے پاس ہے نہیں لہٰذا آپ جائیں اور دیکھیں کوئی ہوٹل اگر کُھلا ہو تو اِہل قافِلہ کو کھانا کِھلا دیں اُس وقت ہمارا قافِلہ ٹمبر مارکیٹ کی ایک زیر تعمیر مسجد میں ٹِہرا ہُوا تھا اور مجھے معلوم تھا کہ مغرب کے بعد ہوٹل بند ہوجانے کی وجہ سے کھانا نہیں مِل سکے گا مگر اِہل قافِلہ کی دِل جوئی کی خاطر مسجد سے باہر نکل آیا دور دور تک کہیں کھانا نہیں مِلا تو مسجد واپس آگیا۔

مسجد میں دَاخل ہوتے ہُوئے میری نظر ایک لفافے پر پڑی جس پر لِکھا تھا، قافِلہ والوں کیلئے، میں نے وہ پیکٹ اُٹھایا اور امیرِ قافِلہ کو بتایا کہ جناب کھانا تو نہیں مِلا البتہ یہ پیکٹ دروازے کیساتھ رَکھا مِلا ہے امیر قافِلہ کے حُکم پر جب میں نے وہ پیکٹ کھولا تو اُس میں راجہ بازار کے ایک مشہور ہوٹل کے گَتے کے ڈبہ بند تین پیکٹ نِکلے جن میں بریانی، کباب، اور بروسٹ، تھے لیکن یہ کھانا اِتنا کم تھا کہ تین افراد کا بَمُشکل پیٹ بھر سکتا تھا ہمیں لگا کہ وہی نوجوان شرمندگی کی وجہ سے یہ کھانا رکھ گیا ہے اور چُونکہ کھانا تھوڑا ہے اس لئے شرمندگی کے باعث چِٹ لگا کر چلا گیا اور سامنے نہیں آیا ہم گیارہ افراد اُس کھانے کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھ گئے لیکن یہ کیسا کھانا تھا کہ تین افراد کا کھانا جو کہ بُہت لذیز بھی تھا خَتم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا یہاں تک کہ سب نے سیر ہوکر بلکہ یوں کہیے کہ ڈٹ کر کھایا اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اللہ کا شُکر ادا کرتے ہوئے اجتماع گاہ کیلئے اسلام آباد کے مدنی مرکز کیلئے روانہ ہوگئے۔

دوسرے دِن ہمارے قافلہ کا کُوچ آبپارہ مارکیٹ سے نزد ایک مسجد کے لئے تھا کہ وہی نوجوان قافِلہ کی روانگی سے قبل آدھمکا اور ہم سے دوبارہ معذرت کرنے لگا امیر قافِلہ نے کہا کہ ماشاءَاللہ اسقدر زبردست کھانا آپ نے ہمیں کھلایا اگرچہ کھانا کم تھا لیکن قافِلہ کی برکت سے سب نے پیٹ بھر کر کھا لیا تھا اب معذرت کیوں کر رہے ہیں وہ نوجوان حیرت سے کہنے لگا لیکن میں نے تو آپ لوگوں کو کوئی کھانا نہیں کِھلایا بلکہ میں نے خُود بھی احتجاجاً کل رات کھانا گھر پر نہیں کھایا میرے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ آپکو کِسی معمولی ہوٹل میں ہی کھانا کھلا سکتا۔

امیرِ قافِلہ نے اُس نوجوان سے دریافت کیا تو کل آپ کھانے کے پیکٹ مسجد میں رکھ کر نہیں گئے تھے؟ اس نوجوان نے کہا کہ آپ مجھ سے قسم لے لیں میں کچھ بھی رکھ کر نہیں گیا، اُس نوجوان کے جانے کے بعد ہم سب آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے اگر کھانا اِس نوجوان نے نہیں کِھلایا تو آخر ہمیں کھِلایا کس نے اور ہمارا وہ میزبان ہمارے سامنے بھی کیوں نہیں آیا۔

تبھی امیرِ قافِلہ نے نہایت ٹِہرے ہوئے لہجے میں ہمیں مُخاطب کرتے ہوئے کہا دوستوں! ہمیں کھانا یقیناً اُسی رَبَّ العالمین نے کِھلایا ہے جسکے گھر ہم مہمان ٹِہرے تھے جسکے دین کی خدمت کا جذبہ لیکر ہم اپنے گھروں سے نِکلے تھے دوستوں! حضرتِ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کا فرمان ہے، مفہوم، جو اللہ کے کاموں میں لگ جاتا ہے اللہ کریم اُسکے کاموں میں لگ جاتا ہے اور محترم قارئین ایسا ہمارے ساتھ ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ ہُوا دوسری مرتبہ بڑی بہن کا کردار ایک امی جان نے نِبھایا اور اُس دِن اِتِفاق سے ہمارے پاس دِن کا بچا ہُوا سالن موجود تھا صرف روٹی تنور سے لانی پڑی تھی لیکن مُحترم قارئین کرام یہ وہ وجہ ہر گز نہیں تھی جسکے سبب ہمیں اسلام آباد پسند نہیں تھا بلکہ اِسلام آباد کی وہ خاموشی تھی جو مغرب کی نماز کے بعد سے ہی اسلام آباد کی سڑکوں پر اپنا راج کرلیتی تھی۔ جبکہ میرا تعلق اُس شہر سے ہے جہاں رات کے دو بجے تک بھی توے کی کھٹ کھٹ سُنائی دیتی ہے ہمارے شہر کی پلوشن فضا میں ایک پتنگے کو زندہ نہیں رہنے دیتی جبکہ اسلام آباد کی ہریالی نہ صرف اُنہیں جنم دیتی ہے بلکہ وزیرستان کی طرح اُن حشراتُ الارض کو پناہ بھی فراہم کرتی ہے۔

محترم قارئین یہ تو ضمنی بات تھی جو درمیان میں آگئی میری دِلچسپی حیدرآباد مرکز میں مُتوقع امیر قافلہ میں تھی اور جب امیر قافِلہ کا اعلان کیا گیا تو میری خُوشی کی اِنتہا نہ رہی امیر قافِلہ جناب محمد ندیم عطاری بھائی کو بنایا گیا تھا جو کہ میرے بُہت پُرانے دوست بھی تھے اور اب کافی عرصہ سے کوٹری شہر میں خِدمات اِنجام دے رہے تھے میری اُن سے قریباً پندرہ برس بعد مُلاقات ہورہی تھی۔ بہرحال قصہ مُختصر یہ کہ اسلام آباد والوں کی خُوش نصیبی تھی کہ پِنڈی پُہنچ کر قُرعہ مانسہرہ سے ناران تک کے نام نِکلا ہم سبھی مانسہرہ کیلئے روانہ ہوگئے اور یوں اسلام آباد والے میرے نِکمے وَجود سے محفوظ ہوگئے۔

مانسہرہ سے ناران تک کا سفر بھی نہایت یادگار سفر ہے جِسے بُھلانا بھی ناممکن ہے ہو سکتا ہے آج پھر کسی کو میرا کالم پڑھ کر نیند آرہی ہو لہٰذا اگلا سفر آئندہ پیش کرونگا۔۔ اللہ حافظ
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1054489 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More