شکر ہے--میری جاب بچ گئی

میں پروفیشن کے لحاظ سے استاد اور ایچ آر پرسن ھوں- کئ متعلقہ واقعات کے بعد محسوس کیا کہ ان مو ضو عات پر بھی بات کی جائے جن کی وجہ سے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کو لوگ اچھا نہیں سمجھتے۔
احمد والدین کا اکلوتا بیٹا تھا ۔ متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے کے باجود والدین نے اُسے اچھے اداروں سے تعلیم دلوائی۔اِس اُمید کے ساتھ کہ بیٹا بڑا ہوکر اچھاپڑھ لکھ کر اچھی نوکری کرے گا ۔ اور گھر کے حالات بدل جائیں گے۔ احمد نے بھی ماں باپ کی امیدوں اور خواہشات کی خوب لاج رکھی اور نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کرتا گیا ۔ اس نے لاہور کی ایک مشہور پرائیویٹ یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا اور 3.8 سی جی پی اے کے ساتھ کلاس میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ احمد کے گھر اور خاندان والوں کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ احمد کے والد تو پھولے نہیں سما رہے تھے دعوتوں پر دعوتیں چل رہی تھیں۔ پورے محلے میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں ۔ننیال اور ددیال والے مبارک بادکے پیغامات بھجوا رہے تھے۔ احمد کو Facebook پر Statusاپلوڈ کرنے پر 500 سے زائد لائیکس ملے ۔ یو ں محسوس ہو رہا تھا کہ گھر کی کایا ہی پلٹ گئی ہے۔

اب تمام لوگو ں کی نظر احمد کے کئیرئیر پر مرکوز تھیں۔ احمد بھی پرجوش تھا کہ کسی اچھی ملٹی نیشنل کمپنی کو جوائن کروں گااور جم کر کام کروں گا،خوب پیسے بناؤں گا ، گھر بناؤں گا،ماں باپ کو راحت ملے گی اور بہت کچھ۔۔۔۔

احمد نے ایک اچھی سی ’CV‘ تیارکی اور مختلف گورنمنٹ اور مشہور پرائیویٹ اداروں میں اپلائی کرنے لگا۔ کئی ماہ انتظار کیا لیکن کہیں سے کوئی کال نہ آئی ۔امیدوں کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہوتادیکھ کر احمد نے فیصلہ کیا کہ کسی لوکل کمپنی میں ہی اپلائی کیا جائے۔ ۲ماہ انتظار کے بعد بلاآخر ایک کمپنی سے انٹرویو کی کال آئی ۔ احمد کی مایوسی ایک بار پھر امید میں بدل گئی ۔انٹرویو دیا اور سلیکشن ہو گئی۔ لیکن تنخواہ صرف پندرہ ہزار۔

دوست احباب ، اساتذہ اور والدین کے مشورے کے بعد اس نے آفر کو قبول کر لیا۔کمپنی میں جوائنگ دے دی ۔اور یئنٹیشن(Orientation ) کے بعد اُسے ’سیلز آفیسر‘کی سیٹ سونپ دی گئی ۔ کچھ ماہ تو ٹھیک گزر ے۔ لیکن پھر مینجمنٹ کے تیور بدلنے لگے۔پریشر بڑھنے لگا ۔سیلز نہ ہونے پر سب سے زیادہ نزلہ جونئیر سٹاف پر گرتا۔ منیجر صاحب اتنا پریشرائز کرتے کہ احمد گھر آ کر بھی ٹینشن میں رہتا۔ گھر والوں نے بھی اس کی ٹینشن کو بھانپ لیا تھا۔ پوچھنے پر بھی احمدگھر والوں سے کافی چیز یں چھپاتارہا ۔ صرف اسلیے کہ اگر میں نے جاب چھوڑ دی تو گھر والوں کومالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایک روز احمد کے ابا کی طبعیت خراب ہو گئی ۔احمد نے چھٹی کے لیے منیجر صاحب کو کال کی۔ منیجر صاحب تو چھٹی کانام سن کر ہی آگ بھگولا ہو گئے ۔
’’کیا تم نوکری کرناچاہتے ہوکہ نہیں ‘‘ ؟
’’سیلز میں تم زیرو ہو ۔کوئی کام کا ج کر لیا کرو فارغ بیٹھ کر تنخواہ لینا تم لوگوں کا وتیرہ بن چکا ہے‘‘
’’یہ تمھارے بہانے اور نہیں چلیں گے‘‘
’’بہتر ہے گھر بیٹھو اور ماں باپ اور گھر والوں کی خدمت مدارت کرو‘‘
’’اگر نوکری کرنی ہے تو 12 بجے سے پہلے آفس پہنچو۔۔۔‘‘
یہ کہتے ہوئے منیجر نے کال ڈراپ کر دی ۔
احمد کو تو گویا سانپ سونگھ گیا ۔ اور وہ اپنا سر پیچھے دیوار پر لگا کر گہری سوچ میں پڑ گیا‘‘
’’بیٹا تمہارے ابو کی طبیعت بگڑ رہی ہے ۔ جلدی سے ہسپتال لے کر چلو‘‘
والدہ کی آواز نے اسکے رونگھٹے کھڑے کر دیے۔۔
احمد نے بائیک نکالی اور ابو کوبیٹھا کر قریب ترین گورنمنٹ ہسپتال میں چلا گیا ۔ ICU میں ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور دوائی دے دی ۔ ابو کچھ بہتر محسوس ہو رہے تھے ۔سوچا کہ اگر آفس نہ گیا تو منیجرکمپنی سے نکال دیں گے۔ کزن کو فون کیا کہ تم ابو کے پاس آجاؤ میں آفس جارہاہوں۔
احمد نے ابا کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دبایا،ماتھے کا بوسہ لیا اور آفس کے لیے تیزی سے نکل گیا ۔ سارے راستے منیجر کی تلخ باتیں اس نے کان میں گونجتی رہیں۔دل ڈوب رہا تھا۔ ٹھنڈے پسینے آرہے تھے۔ دل کی دھڑکن تیز تھی ۔اسی گھبراہٹ میں وہ کئی بار ٹکراتے ٹکراتے بچا ۔ لیکن 12 بجے سے پہلے آفس پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔
اُدھر ہسپتال میں پڑے والد کو دل کا شدید اٹیک ہوا ۔ ڈاکٹرز نے فوری ضروری ادویات منگوانے کے لیے فیملی اٹینڈنٹ کو کال کی ۔ مگر وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ احمد کا کزن بھی شدید ٹریفک بلاکیج کے باعث ابھی تک نہیں پہنچ پایا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے احمد کے والد کی طبعیت مزید بگڑگئی ۔ہسپتال میں موجود عام ادویات دی گئیں ۔ لیکن بے سود۔۔
اتنے میں احمد کاکزن فرقان ،ICU میں داخل ہوا ۔ڈاکٹرز نے ہلکی سر زش کے بعد ادویات کی لسٹ فرقان کے ہاتھ میں تھما دی ۔فرقان بھی انکل کی حالت دیکھ کر گھبرا گیا اور بغیر وقت ضائع کیے فوراََ میڈیکل سٹور کی طرف بھاگ گیا۔۔۔۔۔
اتنے میں احمد کے ابا نے ایک گہری سانس لی اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔
فرقان کچھ دیر بعد دوائیوں کا پیکٹ تھامے وارڈ میں داخل ہوا۔ لیکن انکل کے منہ پر کپڑا اور اِن کے گرد ڈاکٹرز کا ہجوم دیکھ کر سمجھ گیا کہ انکل اب دنیا میں نہیں رہے ۔
چیختے چلاتے فرقان نے بڑے حوصلے سے احمد کو اطلاع دی کہ انکل انتقال کر گئے ہیں۔ احمد کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اپنا ماتھا ٹیبل کے کنارے رکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ڈیپارٹمنٹ کے تما م لوگ اسکے گرد جمع ہو گئے ۔اور منیجر صاحب نے سر پر ہاتھ رکھ کر دلاسہ دیتے ہوئے رونے کی وجہ پوچھی ؟
کافی دیر رونے کے بعد احمد صرف یہ ہی کہہ پایا۔
سر شکریہ ۔۔۔۔ ’’ آپکی وجہ سے میری نوکری تو بچ گی ۔ لیکن میرے اباآہمیشہ کے لیے میرے سے دور چلے گئے ‘‘۔
Zafar Ullah Zahid
About the Author: Zafar Ullah Zahid Read More Articles by Zafar Ullah Zahid: 3 Articles with 3538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.