ایدھی ازم اور ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی !

ہماری روایت ہے کہ ہم زندہ انسانوں کی قدر نہیں کرتے اورمُردوں کو پوجنے کی حد تک چلے جاتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی صاحب نے اپنی اٹھاسی سالہ زندگی میں سے پچپن سال سے زائد خدمتِ خلق میں گزار دیے۔ خدمتِ خلق کی ایسی ایسی داستانیں رقم کیں کہ جدید دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن بحثیت قوم ہم ان کو زندگی میں وہ عزت اور مقام نہیں دے سکے جس کے وہ حق دار تھے اور اب بعد از وفات ان کے عظیم کارناموں کے گُن گا رہے ہیں۔ سڑکیں اور عمارتیں ان کے نام سے منسوب کر رہے ہیں۔سرکاری اعزازات کے ساتھ انکی تدفین کر کے فخر محسوس کر رہے ہیں۔ جبکہ وفات سے قبل جب وہ بیمار تھے اور سوشل میڈیا پر لوگ ان کے بیرون ملک علاج کا مطالبہ کر رہے تھے تب کسی سرکاری شخصیت نے یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ اس عظیم انسان کا زندہ رہنا ضروری ہے اور ہمارے میڈیا نے بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ ہمارا یہی رویہ تمام قومی ہیرو ز کے ساتھ ہوتا ہے۔ عبدالستار ایدھی نے طبقاتی اور مذہبی تقسیم سے بالا تر ہو کر انسانیت کی جو خدمت کی ہے اس کو میں ایدھی ازم کا نام دیتا ہوں۔ ایدھی مرحوم کی زندگی کو سامنے رکھ کر ہم ایدھی ازم کی تعریف یوں کر سکتے ہیں کہ یہ وہ جذبہ ہے جس میں اپنے ذاتی تشخص کو مٹا کر، تمام دنیاوی آسائشوں اور لذتوں سے لاتعلق ہو کر، سادگی کا پیمبری لبادہ اوڑھ کر ، تمام طبقاتی، مذہبی، لسانی، گروہی اور علاقائی تقسیم سے بالا تر ہو کرانسانیت کی بے لوث خدمت کی جائے۔ ایدھی ازم ایک نیا رویہ ہے۔ ایدھی ازم کے اصولوں پرعمل پر ایک اور شخصیت ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ہیں۔ عبدالستار ایدھی کے بعد اگر کوئی شخصیت پاکستان میں خدمت خلق کر رہی ہے تو وہ ڈاکٹر ادیب رضوی ہی ہیں۔وہ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے بانی اور چئیرمین ہیں۔ سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن جسے لوگ SIUTکے نام سے جانتے ہیں نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان میں واحد مثالی ادارہ ہے جو گُردوں کی بیماریوں میں مبتلا غریب مریضوں کا سہارا ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی طرح SIUT کا نصب العین بھی طبقاتی و مذہبی تقسیم سے بالا تر ہو کر انسانی خدمت ہے۔

پچھلی چار دہائیوں کے دوران ڈاکٹر ادیب اور ان کی ٹیم نے لاکھوں لوگوں کا مفت علاج کرکے ایدھی ازم کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ بدانتظامی اور بے کار طرزِ حکمرانی کے درمیان ایک ایسا ادارہ بنایا جہاں امیر غریب ، مرد عورت، ہندو مسلم، شیعہ سنی کی کوئی تفریق نہیں۔ جہاں انسان کا علاج خیرات کے طور پر نہیں عزتِ نفس کے ساتھ اس کا حق سمجھ کر کیا جاتا ہے ۔ یوں ایس آئی یو ٹی نے عملاً ثابت کیا کہ اگر خدمتِ خلق کا جذبہ ہو، محنت کی لگن ہو تو وسائل نہ ہونے کے باوجود آپ خدمتِ خلق کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ چالیس سال پہلے قائم ہونے والا 8 بیڈ کا وارڈ ڈاکٹر ادیب حسن رضوی کے بغیر آج اتنا بڑا ہسپتال نہ بن پاتا۔ادیب حسن رضوی صرف 17 سال کے تھے جب انہیں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنی پڑی ۔ فیملی کے بغیر انہیں مختلف ہاسٹلز میں رہنا پڑا۔ انہیں لوگوں کا درد دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی۔ کئی بار عورتوں کو اپنے زیورات اتار کر علاج کے لیے ہسپتال کو دیتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے اپنے مقصد کا تعین کر لیا۔ میڈیکل ڈگری حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر رضوی لندن چلے گئے اور تقریبا دس سال سرجری کی فیلو شپ حاصل کرنے میں صرف کیے ۔ 1971 میں واپس کراچی آ کر اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوئے تو زمینی حقائق دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ہیلتھ کئیر مہیا کرنا اتنا آسان کام نہیں ۔ اس وقت ان کے پاس ایک اور راستہ بھی تھا جو یہ تھا کہ آپ ایک پرائیویٹ ہسپتال تعمیر کرتے اور دن کے وقت سرکاری ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دیتے لیکن یہ طریقہ ان کی شخصیت کے برعکس تھا۔ انہوں نے کچھ دوستوں اور جاننے والوں سے چندہ اکٹھا کیا اور کچھ ساتھی ڈاکٹر ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے ۔ کچھ استعمال شدہ مشینیں بھی لندن سے منگوا لی گئیں۔ اتنی جان فشانی سے کام شروع کیا کہ عوام نے بہت جلد ان کی نیک نیتی کو پرکھ لیا اور امداد دینا شروع کر دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہسپتال کو نئے آلات سے مزین کیا گیا ۔ انہوں نے کبھی کسی ادارے یا حکومت کی امداد کا انتظار نہیں کیا بلکہ جیسے جیسے مریضوں کی ضروریات سامنے آتی اسی لحاظ سے آلات بھی منگوا لیے جاتے ۔ ہسپتال کی توسیع کے لیے ڈاکٹر صاحب نے لندن اور امریکہ کا دورہ کیا اور 1980 میں واپس آکر مزید ڈاکٹرز ، نرسز اور ٹیکنیشنز بھرتی کیے ۔ انہوں نے ہستپال کی چھت پر کچھ جانور رکھوائے تا کہ ان پر تجربات کیے جا سکیں۔ حکومت سے اجازت کے بغیر یہ پراجیکٹ چلتا رہا۔

آج SIUT پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیا میں گردوں کے علاج کے حوالے سے ایک مستند ادارہ مانا جاتا ہے ۔ پاکستان کے اکثر سرکاری ہسپتالوں کے برعکس جو بات اس ادارے کو خاص بناتی ہے وہ ہر خاص و عام کے لیے علاج کی یکساں سہولیات ہیں۔ یہاں آنے والے ایسے مریضوں کا علاج بھی پوری ذمہ داری، محبت اور شفقت سے کیا جاتا ہے ، جو مالی مشکلات کے باعث اپنا معیاری علاج کروانے سے قاصر ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اس بات پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اس کے لیے چار دہائیوں سے زائد عرصے سے کوشاں بھی ہیں کہ مفت علاج ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔ ایس آئی یو ٹی میں گردے کی پیوندکاری کے ہر سال قریب پانچ سو پچپن آپریشن ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس کے دوران 30 لاکھ مریضوں کا او پی ڈی میں علاج ہوا جب کہ آٹھ لاکھ 25 ہزار مریض مختلف شعبوں میں علاج کے لیے داخل کیے گئے ۔ اس وقت روزانہ سات سو پچاس کے قریب مریضوں کا ڈائیلیسز کیا جاتا ہے جبکہ اسی ادارے میں اب تک سات لاکھ سے زیادہ مختلف نوعیت کے آپریشن ہوئے ۔ ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کی ٹیم نے پاکستان میں گردوں کا پہلا ٹرانسپلانٹ 1985ء میں کیا تھا اور اس وقت سے اب تک ایس آئی یو ٹی میں گردوں کے پانچ ہزار سے زائد مفت ٹرانسپلانٹ ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر ادیب حسن رضوی اور عبدالستار ایدھی جیسے انسانیت کا درد رکھنے والے فرشتہ صفت انسانوں کے بارے میں ہی الطاف حسین حالی نے کہا تھا کہ؛
فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

ایدھی اور ڈاکٹر ادیب رضوی بننے کے لئے اپنی زندگی انسانی خدمت پر صرف کرنا پڑتی ہے ۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں، انسانی خدمت پر یقین رکھنے والا ہی جانتا ہے کہ اس کام میں کتنا لطف و سرور اور سکون ہے۔ ایدھی اور ڈاکٹر ادیب رضوی کی زندگی ہمارے لئے مشعل ِ راہ ہے۔ معاشرتی، طبقاتی،نسلی، لسانی، علاقائی،مذہبی اور فرقی بنیادوں پر تقسیم میرے ملک میں آج ایدھی ازم کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ آئیے ہم سب مل کر ان عظیم ہستیوں کے نقش پر چلیں او ر ایک دوسرے کی انسانی مدد اور خدمت کرکے دنیا اور آخرت دونوں کو سنوار لیں۔
Sajid Habib Memon
About the Author: Sajid Habib Memon Read More Articles by Sajid Habib Memon: 19 Articles with 19871 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.