لاحول ولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں خود سے پیدا نہیں ہوا‘ میری تخلیق میں اللہ کی مرضی اور رضا شامل تھی۔ اس سے بڑھ کر بات یہ کہ وہ ہی میرا تخلیق کار ہے۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میں کون ہوں‘ اس نے مجھے شناخت دی۔ نوری و ناری مخلوق کو‘ میں نے نہیں کہا کہ مجھے سجدہ کرو۔ یہ بھی اللہ‘ جو میرا خالق ہے‘ نے حکم دیا۔ سب االلہ کی مرضی سے چلتا ہے‘ عزازیل خوب جانتا تھا۔ میں کی گرفت میں آ گیا۔ میں کی گرفت بڑی بری ہوتی ہے۔ اس کی پکڑ میں آیا‘ اپنے آپے میں نہیں رہ پاتا۔ حکم کی تعمیل نہ کرکے‘ سب کچھ کھو بیٹھا۔ اسے اپنی شناخت تک یاد نہ رہی۔ شناخت یاد میں آ جاتی‘ تو توبہ کے دروازے پر ضرور آتا۔

عجب الٹی کھوپڑی کا مالک ہے۔ میرا اور اس کا‘ سرے سے کوئی مسلہ ہی نہیں‘ لیکن تنگ مجھے کرتا ہے۔ آج صبح میں مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہا تھا کہ ایک قاتل حسینہ کے روپ میں‘ میرے سامنے آ گیا۔ میری طرف بڑی رومان خیز مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا۔ سچی بات تو یہ ہے‘ کہ میں قطعا بھول گیا‘ کہ نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہا ہوں۔ اس نے رفتار کم کر دی اور میں اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ مجھے یہ بھی یاد نہ رہا‘ کام پر بھی جانا ہے۔ اس مسکراہٹ میں مقناطیسی قوت تھی۔

میں تو خود کو بھول ہی گیا تھا‘ میرے اندر بیٹھے شخص نے کہا: کتے‘ یہ کیا کررہے ہو۔ ہڈی دیکھی اور پیچھے پیچھے چل دیے ہو۔ لعنت ہے تمہارے دوہرے رویے پر‘ مسجد میں نماز پڑھتے ہو اور ایک مسکان پر مر مٹے ہو‘ تم کیسے بندے ہو۔

اس آواز نے‘ مجھے شرم سے پانی پانی کر دیا اور میں نے دل ہی دل میں‘ لاحول ولا پڑی۔ پھر کیا تھا‘ اس نے میری طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور دوسری گلی میں داخل ہو گیا۔ اگر الله احسان نہ کرتا‘ تو میں مارا گیا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میری نماز تو فسق ہو گئی ہے‘ میں جہاں کھڑا تھا‘ وہیں سجدہ ریز ہو گیا۔ میں نے لوگوں اور زمین پر پڑی گندگی کی پرواہ نہ کی۔ یہ اس گندگی سے بڑھ کر نہ تھی‘ جو میرے اندر گھس آئی تھی۔

دفتر میں میرا اور اس کا ٹاکرا ہوتا رہتا ہے۔ سائل بن کر‘ نیلے پیلے اور سرخ نوٹوں کے ساتھ آتا رہتا ہے۔ ظالم مجھے بکاؤ مال سمجھتا ہے۔ میں طوائف نہیں ہوں‘ جو اس کے بہکاوے میں آ جاؤں گا۔ اس کی کمینگی کی حد تو دیکھیں‘ یہ ہی کوئی چھے سات دن پہلے کی بات ہے۔ میں ابھی دفتر سے لوٹا ہی تھا‘ کہ گھر پر آ گیا۔ میں نے بیٹھک میں بٹھایا۔ ٹھنڈا پانی پیش کیا۔ اس نے نوٹ وکھائے کہ ناحق کرنے کے لیے‘ میرا موڈ بنے۔ مجھے بڑا تاؤ آیا اور میرا چہرا غصے سے سرخ ہو گیا۔ گمان تھا کہ اندر خبر نہیں ہوئی‘ شازیہ کو چھپ چھپ کر باتیں سننے کا ٹھرک ہے۔ اسے حقیقت کا علم ہو گیا تھا۔ خیر‘ میں نے جی میں لا حول ولا پڑی‘ اس نے کھا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھا اور اٹھ کر چلا گیا۔ وہ تو چلا گیا‘ ہنستی مسکراتی شازیہ دہکتا انگارہ بن گئی۔ میرے ساتھ جو ہوا‘ مت پوچھیے‘ وہ بھی سچی تھی کہ میں نے آتے نوٹوں کو دھتکارا تھا۔

بڑا ڈھیٹ ہے‘ خواہ مخواہ میرے ساتھ پنگا لیتا رہتا ہے۔ میں ناک کی سیدھ پر جا رہا ہوں‘ جانے دے۔ میں کوئی بہت بڑا آدمی نہیں ہوں‘ مجھ سے اسے کیا مل سکتا۔ کسی بڑے آدمی کے پاس جائے۔ اسے معلوم ہے‘ کسی بڑے آدمی کے پاس گیا تو وہ ناسیں سیک دے گا۔ میں ہوں کیا‘ کچھ بھی نہیں‘ یہ جانتے ہوئے بھی میرے آس پاس میں اقامت کئے ہوئے ہے۔

دفتر کی نوکری میں ایسے حادثے‘ روز کا معمول تھا۔ جھگڑے سے میری بڑی جان جاتی ہے۔ شیطان سے ہر روز کی لڑائی سے تنگ آ کر‘‘ میں نے دفتر کی نوکری ہی چھوڑ دی۔ مجھے فرار ہی میں عافیت نظر آئی۔ گھر میں بھی کم آمدنی پر ہر روز جھگڑا ہوتا تھا۔ پوری تنخواہ ہتھیلی پر رکھ دیتا تھا۔ روز کا خرچہ شازیہ سے لے کر جاتا تھا۔ جب بھی بس کا کرایہ وغیرہ مانگتا‘ بڑی لہ پہا کرتی‘ میں سب برداشت کر جاتا۔ تنخواہ میں سے کچھ رکھتا تو مجرم ٹھہرتا۔ تنخواہ کے علاوہ کدھر سے لاتا۔ جب کہ وہ اوروں کی مثالیں دیتی۔

میں نے لاء کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی تھی۔ سوچا وکالت کرتا ہوں۔ اس طرح بےگناہ لوگوں کی مدد بھی کر سکوں گا اور دال روٹی بھی چلتی رہے گی۔ میدان عمل میں قدم رکھا تو معاملہ ہی برعکس نکلا۔ کچری میں جا کر معلوم ہوا‘ کمائی چوروں‘ قاتلوں‘ اور دو نمبر لوگوں کی مدد کرنے سے ممکن تھی۔ ان کو بےگناہ اور بےگناہوں کو گناہ گار ثابت کرکے‘ لمے نوٹ کمائے جا سکتے تھے۔ یہاں کے طور طریقے‘ دفتر کے طور طریقوں کے بھی پیو نکلے۔ چند ہی دنوں میں‘ میرا دل وہاں سے بھی کھٹا ہو گیا۔ لگتا تھا‘ انصاف گاہ میں تو اس نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ قدم قدم پر میری اس سے ملاقات ہوتی۔ مجھے دیکھ کر قہقہے لگاتا‘ سرعام میرا مذاق اڑاتا۔

علاقے کی مسجد میں‘ میری ملاقات حاجی عمر سے ہوئی۔ پنج وقتے تھے اور شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھتے تھے۔ بڑے اصول پرست سمجھے جاتے تھے۔ ان کا لاکھوں کا کاروبار تھا۔ حساب کتاب کے معاملے میں‘ میں بھی معروف تھا۔ سوچا‘ یہاں ٹھیک رہے گا۔ میں ان کے کھاتے میں منشی کی سیٹ پر تعینات ہو گیا۔

چند دن گزرنے کے بعد معلوم ہوا‘ یہاں بھی‘ شیطان مہاراج کا سکہ چلتا ہے۔ بڑی حیرت ہوئی کہ حاجی صاحب کا ظاہر کتنا صاف ستھرا ہے اور باطن غلاظتوں سے لبریز ہے۔ وہاں بھی دہائی کا گھپلا تھا۔ کارکنوں کے ساتھ جو ہو رہا تھا‘ وہ تو ہو رہا تھا‘ لیکن حساب کتاب کے دو کھاتے تھے‘ ایک سرکار کو دیکھانے کے لیے‘ دوسرا اصلی کھاتہ جو دفتر میں نہیں رکھا جاتا تھا۔ سرکاری کھاتے میں گھاٹے کے سوا کچھ نہ تھا۔

بجلی کے لیے بھی‘ بجلی اہل کار کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ یہاں حرام اور حرام کے سوا کچھ نہ تھا۔ دفتر میں‘ تنخواہ تو کم از کم حلال تھی۔ یہاں سے ملنے والی تنخواہ سرے سے شفاف نہ تھی۔ یہ معاملہ تو پہلے سے بھی کہیں بڑھ کر تھا۔رکھتے تھے۔ بڑے اصول پرست سمجھے جاتے تھے۔ ان کا لاکھوں کا کاروبار تھا۔ حساب کتاب کے معاملے میں بھی معروف تھا۔ سوچا‘ یہاں ٹھیک رہے گا۔ میں ان کے کھاتے میں منشی کی سیٹ پر تعینات ہو گیا۔

وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہاں بھی دہائی کا گھپلا ہے۔ کارکنوں کے ساتھ ہو رہا تھا‘ وہ تو ہو رہا تھا لیکن حساب کتاب کے دو کھاتے تھے‘ ایک سرکار کو دیکھانے کے لیے‘ دوسرا اصلی کھاتہ جو دفتر میں نہیں رکھا جاتا تھا۔ سرکاری کھاتے میں گھاٹے کے سوا کچھ نہ تھا۔ بجلی کے لیے بھی‘ ایک بجلی اہل کار کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ یہاں حرام اور حرام کے سوا کچھ نہ تھا۔ دفتر میں‘ تنخواہ تو کم از کم حلال تھی۔ یہاں سے ملنے والی تنخواہ سرے سے شفاف نہ تھی۔ یہ معاملہ تو پہلے سے بھی کہیں بڑھ کر تھا۔

میں نے وہ ملازمت چھوڑ کر‘ کاروبار کرنے کی ٹھان لی۔ علاقے میں‘ لوگوں کو دودھ کی بڑی پریشانی تھی۔ سوچا‘ دودھ کا کاروبار برا نہیں۔ میں خود جا کر دودھ لاتا۔ میرے سامنے گوالا دودھ دھوتا۔ اس کے باوجود دودھ پتلا ہوتا۔ یہ تسلی تھی کہ وہ پانی نہیں ڈالتا‘ کیوں کہ وہ میرے سامنے دودھ دھوتا تھا۔ ہاں البتہ آخر میں‘ ہنگال کے طور پر تین پاؤ کے قریب‘ یہ دودھ نما پانی ڈال دیتا۔ دو دن تو میں چپ رہا‘ تیسرے دن مجھ سے رہا نہ گیا۔ منع کرنے پر کہنے لگا: یہاں سے تو دودھ ایسا ہی ملے گا‘ نہیں وارہ کھاتا تو کوئی اور بندوبست کر لو۔ اس نے بڑی بدتمیزی سے جواب دیا۔۔ میں نے بھی کہا: چلو ٹھیک ہے‘ بندوبست کر لوں گا۔ بعد میں پتا چلا وہ برتن میں پہلے ہی پانی ڈال لیتا تھا۔ دو چار اور لوگوں سے واسطہ رہا‘ وہاں بھی یہ ہی کچھ تھا۔ کوئی شعبہ تو چھوڑ دیتا‘ ظالم نے ہر شعبے میں ٹانگ پھنسائی ہوئی تھی۔

خیال گزرا‘ کیوں نہ صحافت اختیار کر لوں۔ وہاں قدم رکھا تو بہت ہی مایوسی ہوئی۔ جتنا اچھا پیشہ ہے‘ اتنا ہی آلودہ ہے۔ صحافت‘ صحافت کم‘ بلیک میلنگ زیادہ نکلی۔ پراپرٹی ڈیلنگ کا کام بھی راس نہ آیا‘ کیوں کہ وہ بھی کثافتوں سے لبریز نکلا۔ اس میں جھوٹی قسمیں اور چکنی چوپڑی باتیں‘ پہلی سیڑھی تھی۔

شازیہ میری ان حرکتوں سے اکتا کر بچے لے کر‘ اپنے بھائی کے ہاں چلی گئی۔ یہ حیران کن بات تھی۔ ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا تھا‘ جس دن میں یا گھر کے لوگ‘ بھوکے سوئے ہوں گے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کی مخلوق بھوکی سوئے۔ وہ اس کی بھوک کو خوب خوب جانتا ہے اور رزق فراہم کرنے میں‘ کسی قسم کے تساہل کا شکار نہیں ہوتا۔

رزق حلال کی تلاش میرا فطری حق تھا۔ ہر موڑ اور ہر گھاٹ پر شیطان سے ملاقات رہی۔ اس کا اپنا رستہ تھا‘ میرا اپنا رستہ تھا۔ میں حلال کھانا چاہتا تھا‘ وہ مجھے حرام کھانے کی دعوت دے رہا تھا۔ وہ بڑا ضدی نکلا‘ اسے کیا معلوم‘ کہ میں ہر مشکل میں‘ اللہ کی مدد طلب کر لیتا ہوں۔ میری ایک بار پڑھی لاحول ولاقوة الا بالله‘ اس کے میدان سے قدم اکھیڑ دیتی تھی۔ جو بھی سہی‘ شیطان جو مرضی کر لے‘ جتنا مرضی زور لگا لے‘ میرا الله مدد طلب کرنے والوں کی‘ میدان عمل میں کنڈ نہیں لگنے دیتا۔
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 192541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.