حکیم صاحب

سوال: قبلہ حکیم صاحب،کھانا کھانے کے بعد میرا پیٹ پھول جاتا ہے۔ جیسے کسی نے غبارے میں ہوا بھر دی ہو۔ پیٹ میں کبھی بادل گرجتے محسوس ہوتے ہیں اور کبھی قر قر قر کی آواز آتی ہے اور کبھی گڑ گڑ گڑ کی، مشورہ چائیے؟ جواب: بادل یوں گرجتا ہے ڈر کچھ ایسا لگتا ہے بھیا، میں تو خود سن کر حیران ہوں کہ آپ کے پیٹ میں کوئی آرکسٹرا آرگنائز ہے۔ جہاں سے اتنے سروں کی موسیقی بجتی ہے۔ لگتا ہے آپ اپنے کھانے پر دھیان نہیں دے رہے۔ اور غذا کے ساتھ ساتھ بہت ساری ہوا بھی مفت میں نگل لیتے ہیں۔ یا آپ بادی چیزیں کھا رہے ہیں۔ جیسے گوبھی، ماش کی دال، چنے، لوبیے وغیرہ وغیرہ۔ اور ان سے ہوا بن کر مستی میں آ رہی ہے۔ سو اجوائن، سونف، گڑ، کالے نمک، کالی مرچ اور گو کہ ان کے استعمال سے پلوشن بڑھ سکتی ہے لیکن مولیوں کا استعمال آپ کے لیے مفید رہے گا۔ ٭
جناب عزت مآب قبلہ حکیم صاحب!
سوال :میرے بال گھنے اور سیاہ تھے، مگر اس شوق میں کہ بال خوبصورت ہو جائیں بھورے کرنے کے لیے ہائیڈروجن آکسائیڈ کا استعمال کر لیا۔ جس سے بال تو بھورے ہو گئے مگر اب بال گرنے لگے ہیں۔ کوئی مشورہ دیں کہ بال گرنے رک جائیں اور دوبارہ سیاہ ہو جائیں؟
جواب: خیر سے بدھو گھر کو آئے
آپ کی مت ماری گئی تھی۔ بھلا آپ کو خوبصورت سیاہ اور گھنے بالوں کو بھورا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ فطرت سے جنگ انسان کے لیے سراسر خسارا ہے۔ نہ کبھی ایسا ہوا ہے اور نہ کبھی ہو گا کہ انسان فطرت سے جنگ جیت سکے۔ کالے سیاہ بال تو خوبصورتی کی علامت ہیں۔ شاعر کالی گھٹاؤں جیسے بالوں پر باجماعت مرتے ہیں۔ کبھی آپ نے بھوری گھٹائیں دیکھی سنی ہیں۔ خیر اب آپ کو صبر کا لمبا پارٹ پڑھنا پڑے گا۔ سو جب تک بال خود بخود دوبارہ کالے نہیں ہو جاتے تب تک انتظار کریں، روز آئینہ دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھریں یا اتنا عرصہ سر پر کالی وگ استعمال کریں۔
٭
سوال: مجھے بھوک بہت لگتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد بھی احساس ہوتا ہے کہ ابھی کچھ کھایا ہی نہیں۔ سوتھوڑی تھوڑی دیر بعد کھاتا رہتا ہوں۔ سمجھ لیں کہ ہر گھنٹے بعد کچھ نہ کچھ ضرور کھاتا ہوں۔ کوئی نسخہ مشورہ درکار ہے۔ ؟
جواب، ندیدے کہیں کے،
آپ کو جو بھی تکلیف ہے اسے طبی زبان میں جوع البقر کہتے ہیں یعنی بکری کی طرح ہر وقت منہ مارتے رہنا۔ اور یہ اب آپ کی عادت بن چکا ہے جسے آپ روک نہیں سکتے۔ صرف کھانے کے وقت کھانا کھائیے۔ باقی ہر گھنٹے کے بعد چیونگم چبایا کریں۔ اور کھانے کے اوقات میں دوسروں کے ہاں جانے سے گریز کیجئے۔
٭
سوال :جناب میری عمر بائیس سال ہے۔ ایم اے کر لیا ہے مگر ابھی تک داڑھی، مونچھوں کے بال نہیں آئے۔ جس کی وجہ سے دوست یارمذاق کرتے ہیں، اسلیئے دوستوں کی محفل میں جانے سے گریز کرتا ہوں۔ مہربانی فرمائیے ؟
جواب :
احسان میرے دل پہ تمھارا ہے دوستو
یہ دل تمھارے پیار کا مارا ہے دوستو
آپ دوستوں کو یار غار سمجھ کر معاف کر دیں۔ وہ اپنی ٹانگ کھنچنے کی عادت سے مجبور ہیں۔ آپ تو بار بار شکر ادا کریں کہ آپ اس وقت یعنی فلموں کے کلاسک دور میں پیدا نہیں ہوئے۔ ورنہ کندن لال سہگل کی مونچھیں آپ کو چیلنج دیتیں۔ مغل اعظم میں دلیپ کمار کی مونچھیں اپنی جانب متوجہ کرتیں۔ مونچھوں کو تاؤ دینے کے زمانے سے بھی آپ کی بچت ہو گئی۔ امتیابچن، جانی واکر، کشور کمار، انیل کپور کی مونچھوں کو نظر انداز کر دیں۔ رتیک روشن اور فردین خان کی مونچھوں سے خائف ہونے کی بالکل ضرورت نہیں۔ اگر پھر بھی یہ کمی محسوس کرتے ہیں تو کبھی کبھی نقلی مونچھ لگا کر شوق پورا کر سکتے ہیں۔ آخر عورتیں بھی تو نقلی بال لگا کر اپنا شوق پوراکرلیتی ہیں نا۔اور داڑھی کو تو بھول جائیں وہ کبھی فیشن میں ہوتی ہے کبھی نہیں۔ ویسے سر کے بالوں کی فکر رکھیے گا۔
٭
سوال: مجھے دور کی اشیاء صاف نظر نہیں آتیں۔ حالانکہ صحت بہت اچھی ہے۔ کوئی علاج مشورہ دیجئے ؟
جواب: شکر کریں ،
کم از کم آپ کو قریب کی اشیاء تو ٹھیک نظر آتی ہیں نا، ناشکرے کہیں کے۔۔!
٭
سوال: جنابِ والا، میں غیر شادی شدہ ہوں۔ سال بھر سے سر میں سفید بال نظر آنے لگے ہیں۔ کئی نسخے آزمائے مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، پلیز رہنمائی کریں؟
جواب: مکھڑے پہ سہرا ڈالے آ جاؤ آنے والے
آپ بالکل بھی فکر مت کریں۔ کیونکہ فکر کرنا آپ کے لیے تریاق کے برابر ہے۔ اس سے بال دن بدن نہیں، سیکنڈ بہ سکینڈ سفید ہوتے چلے جائیں گے۔ ویسے بھی آپ کو فکر،علاج معالجے کی کیا ضرورت؟ یقینا آپ کو کوئی نہ کوئی سفید بالوں والی حسینہ مل ہی جائے گی۔
٭
سوال: عزت مآب حکیم صاحب، سبزیاں کچی کھانی چائیں یا انھیں پکا کر کھانا چاہیئے؟
جواب:او میرے اَرائیں بھرا! جب پیاز کو روٹی پہ رکھ کر مکی مار کر کھا لیتے ہو تو اس وقت تو یہ خیال نہیں آتا کہ اسے پکا کر کھانا چاہیئے یا کچی حالت میں۔۔! ناک کو چاہے سامنے سے پکڑو یا سر کے پیچھے سے ہاتھ گھما کر، تو اسی طرح سبزی، سبزی ہی رہے گی۔ اگرآج من و سلوی بھی اترتا رہتا تو لوگ یہی پوچھتے کہ حکیم صاحب، سیدھا پتے سے چاٹ لینے سے زیادہ فائدہ ہو گا یا پکا کر کھانے سے۔۔!
٭
سوال: میں ایک بنک میں کیشیئر ہوں۔ جب ڈیوٹی ختم کر کے اٹھتا ہوں تو سر چکراتا ہے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے اور اردگرد کی شے گھومتی محسوس ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو کھڑا رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کوئی مشورہ، نسخہ عنایت کیجیے؟
جواب: ہوں، پکڑے گئے نا،
جناب سارا دن تو بنک میں آپ کی طبیعت ٹھیک رہتی ہے۔ مگر چھٹی کے وقت ایسا ہونا۔۔ دراصل سارا دن آپ کے ہاتھ کڑکڑاتے کھڑکتے نوٹوں کی گنتی کرتے رہتے ہیں۔ آپ اپنے آپ کو ایک دولتمند انسان سمجھنے لگتے ہیں۔ گھر جاتے وقت یہ خزانہ آپکے ہاتھوں سے چھٹنے لگتا ہے۔ سو اسی لیے آپ کی یہ کیفیات ہوتی ہیں۔ لالچی کہیں کے، اگر ممکن ہو سکے تو رات کے لیے وہیں بنک میں بستر لگوا لیں یا وہاں چوکیدار کی نوکری لے لیں۔ ورنہ گلوکوز کی ٹکیاں اپنی جیب میں رکھیں۔ بنک سے نکلتے ہوئے چھٹی کے وقت حسب منشاء ٹکی چوس لیا کریں۔
٭
سوال: حکیم جی،مجھے نیند بہت کم آتی ہے۔ رات رات بھر جاگ جاگ کر وقت گزارنا پڑتا ہے۔ کچھ بتائیے گا کہ ایسا کیوں ہے؟
جواب:
کروٹیں بدلتے رہے ساری رات تم
آپ کی قسم ۔۔۔ آپ کی قسم،
پہلے تو یہ بتائیے کہ کہیں آپ شاعر تو نہیں؟ یا آپ کو وہ تو نہیں ہوگئی جسے عاشقان برادری محبت وحبت، عشق وشق، پیار ویار کا نام دیتی ہے۔
اگر ایسا ہے پھر تو گئے کام سے۔۔ کچھ عرصے بعد آپ خود ہی گاتے پھریں گے،
سب کچھ سیکھا ہم نے نہ سیکھی ہوشیاری
سچ ہے دنیا والو کہ ہم ہیں اناڑی
یا پھر آپ نے کسی کا قرض تو نہیں دینا۔۔؟ بندہ بشر ہیں آخر کسی کے بھی مقروض ہو سکتے ہیں۔ ویسے کیا آپ کے گھر میں انٹرنیٹ نہیں ہے۔؟ لوگ تو وہاں رات بھرمکھیوں کی طرح بیٹھے رہتے ہیں۔ نیند بھگا کر وقت گزاری کرتے ہیں۔ خیر، اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو میرے خیال سے آپ کے دماغ میں خشکی ہو گئی ہے۔ سو ہر پندرہ دن بعد سر پہ مہندی لگائیے، اس طرح سنتِ اسلامی بھی پوری ہوتی رہے گی۔ جانی انجانی نیکیوں کا ثواب بھی آپ کے کھاتے میں جمع ہوتا رہے گا۔ ورنہ رات کو سوتے وقت گرم گرم دودھ میں خشخاش کی پوٹلی جادو کی طرح دو چار بار گھما کر پی لیجئے۔ اتنی گہری نیند آئے گی کہ آپ کو سوتے میں اپنی ہی خبر نہیں رہے گی۔
٭
سوال: مجھے خارش کی شکایت ہو گئی ہے۔ جسم دانوں سے پُر ہو گیا ہے۔ رات کو تو بہت زیادہ خارش ہوتی ہے۔ سو کھجاتے کھجاتے صبح ہو جاتی ہے۔ اس خارش کے ہاتھوں بہت پریشان ہوں۔ مشورہ درکار ہے۔ ؟
جواب: بُرے پھنسے نا،
یاد رکھیے گا، خارش ایک اچھوتی بیماری ہے۔ جو آپ باقی گھر والوں کو بھی مفتو مفتی بانٹ سکتے ہیں۔ مگر ایسا کیجئے گا مت، بلکہ ناراض ہو کر ان سے اپنا بستر الگ کر لیں۔ ویسے بھیا کھجانے کے لیے تو آپ کے پاس سر موجود ہے اور ہتھیلی بھی، اب سیسہ فیشن ہے ورنہ حقے کے پانی سے اشنان آپ کے لیے بہت کارآمد تھا۔ خیر آپ سدا بہار درخت نیم کی پتیاں ابال کر اس سے نہائیے۔ تب تک نہاتے رہیئے جب تک خارش ختم نہ ہو جائے۔ اس دوران کہیں مہمان بن کر مت چلے جائیے گا اور جلسے، جلوس میں بھی جانے سے پرہیز رکھیئے گا ورنہ ڈاکٹروں کو مصیبت پڑ جائے گی۔
٭
سوال: جناب عزت مآب،چند دن ہوئے عجیب الجھن میں ہوں۔ جو بھی چیز کھاتا ہوں، اس کا ذائقہ محسوس نہیں ہوتا۔ نمک والی چیز کھا لوں تو نمکین نہیں لگتی، کوئی میٹھی چیز کھاؤں تو مٹھاس محسوس نہیں ہوتی۔ کیا کروں؟
جواب: اس مرض کو طبی زبان میں بطلانِ ذوق کہتے ہیں۔ اس میں چکھنے کی حس نہیں رہتی۔ خیر فکر کی بات نہیں۔ جب تک یہ بحال نہیں ہوتی۔ آپ کسی ڈائٹنگ پلان پرآسانی سے عمل کر سکتے ہیں۔ کریلے، نیم، کڑوی چیزوں کا استعمال بھی ٹھیک رہے گا۔ گھر والوں سے بخوشی کدو، بینگن، توری ، ٹینڈے،حلوہ کدو پکوا کر کھا سکتے ہیں۔
٭
سوال: مجھے پان کھانے کی عادت ہووت۔ گزشتہ روز پان میں چونا زیادہ پڑت۔ جس سے زبان پھٹت۔ اب پان کھانے میں دقت محسوس ہووت۔ کیا علاج ہوؤت؟
:جواب
کھائیکے پان بنارس والا
کھل جائے بند عقل کا تالا
لگتا ہے آپ کی عقل کا تالا تو جمت ۔اب فکر کرنے سے کیا ہووت، آپ کوئی پان کھانا تھوڑی چھوڑت۔ آخر زہر کو زہر مارت، آپ پان میں خوب سارا چونا، کتھا، تمباکو اور سپاری ڈال کے کھات رہت۔ آخر زبان کوکبھی نہ کبھی تو اس نئے ذائقے کی عادت ہووت۔
٭
سوال: حکیم صاحب کیا یہ صحیح ہے کہ جڑی بوٹیوں سے بنی ہوئی دوائیاں یا جڑی بوٹیوں کے نسخے سب کو فائدہ نہیں دیتے۔۔؟
جواب: (کملیو، یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے)
جی ہاں، بالکل صحیح بات ہے کہ دیسی ادویات ہر کسی کو فائدہ نہیں دیتیں کیونکہ ہر بندےکا مزاج الگ ہوتا ہے ورنہ طوطے کو چارہ کھلا دیکھئے اور بکری کو چُوری۔۔
٭
سوال: میری بچی کی عمر دو سال ہے۔ گذشتہ چند ماہ سے وہ چارپائی کے جنگلے سے سر ٹکراتی ہے۔ بعض دفعہ تو کافی بار سر ٹکراتی ہے۔ کیا کریں؟
جواب: اونہوں بھولے بادشاہ،
لگتا ہے آپ وقت اور زمانے کے ساتھ نہیں چلتے۔ ورنہ یہ مسئلہ کب کا خود ختم کر چکے ہوتے۔ بچی نئے دور کی نئی فصل ہے بلکہ نئی بوٹی ہے۔ اس کی مانگیں بھی مختلف ہیں۔ لگتا ہے آپ نے اسے ابھی تک موبائیل ہاتھ میں نہیں پکڑایا اور لیپ ٹاپ اس کی گود میں نہیں رکھا۔ سو جلد از جلد اس کی معصوم خواہشات پوری کریں۔ اسے یہ چیزیں لا کر دیں۔ ورنہ ابھی تو وہ چارپائی سے سر ٹکراتی ہے، آئندہ وہ زمین پر ٹکریں مارے گی اور ساتھ ساتھ ایڑیاں بھی رگڑ سکتی ہے۔
٭
سوال: کھانا کھانے کے بعد میرا پیٹ پھول جاتا ہے۔ جیسے کسی نے غبارے میں ہوا بھر دی ہو۔ پیٹ میں کبھی بادل گرجتے محسوس ہوتے ہیں اور کبھی قر قر قر کی آواز آتی ہے اور کبھی گڑ گڑ گڑ کی، مشورہ چائیے؟
جواب:
بادل یوں گرجتا ہے ڈر کچھ ایسا لگتا ہے
بھیا، میں تو خود سن کر حیران ہوں کہ آپ کے پیٹ میں کوئی آرکسٹرا آرگنائز ہے۔ جہاں سے اتنے سروں کی موسیقی بجتی ہے۔ لگتا ہے آپ اپنے کھانے پر دھیان نہیں دے رہے۔ اور غذا کے ساتھ ساتھ بہت ساری ہوا بھی مفت میں نگل لیتے ہیں۔ یا آپ بادی چیزیں کھا رہے ہیں۔ جیسے گوبھی، ماش کی دال، چنے، لوبیے وغیرہ وغیرہ۔ اور ان سے ہوا بن کر مستی میں آ رہی ہے۔ سو اجوائن، سونف، گڑ، کالے نمک، کالی مرچ اور خصوصا مولیوں کا استعمال آپ کے لیے مفید رہے گا۔
٭
سوال: جناب میری آنکھوں سے پانی آنسوؤں کی طرح بہتا ہے۔ آنکھوں میں نہ تو جلن ہے اور نہ ہی میں رو رہا ہوتا ہوں۔ کیا کروں؟
جواب: نیناں برسے رم جھم رم جھم
لگتا ہے آپ بہت جذباتی انسان ہیں۔ اور آپ کے نین ہر وقت بھرے رہتے ہیں جو ذرا سی بات پر چھلک جاتے ہیں۔ کیا آپ زیادہ جذباتی فلمیں دیکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ان کی جگہ ایکشن فلمیں دیکھنی شروع کر دیجئے۔ یا آپ کی بیوی آپ سے روزانہ پیاز کٹواتی ہے۔اگر ایسا ہے بھی تو کوئی حرج نہیں، آنسو بہنے سے آنکھیں نتھر کر صاف شفاف ہو جاتی ہیں۔ اگر آپ کو پھر بھی اعتراض ہے تو آئندہ چشمہ لگا کر پیاز کاٹیے گا۔ بیوی بھی خوش رہے گی اور آپ کا مسئلہ بھی حل۔
٭
سوال: جناب، مجھے ناخن چبانے کی عادت ہو گئی ہے۔ کئی بار احساسِ شرمندگی اٹھانا پڑی ہے۔ کچھ بتائیے گا۔؟
جواب: میاں تم کیا سمجھتے ہو۔ اس عادت پرشرمندگی کی بجائے کوئی انعام ایوارڈ ملے۔ ناخنوں کو ہمیشہ کاٹ کر رکھو ورنہ تم تو ان کا کباڑہ کر دو گے۔ تمہارے دماغ میں یقینا کوئی احساسِ محرومی ہے جس کا بدلہ ناخن چبا کر لیتے ہیں۔ لہذا طوطے کی طرح اپنے ناخن کترنے بند کرو اور کوئی مثبت کام کرو۔
٭
سوال: حضورِ والا، میں ایک دوکاندار ہوں۔ میری صابن فروخت کرنے کی ایک دوکان ہے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری جلد خشک ہو گئی ہے اور اس میں خارش بھی ہوتی ہے۔ صابن استعمال کرنے سے خشکی اور خارش بڑھ جاتی ہے۔ کوئی مشورہ دیجیئے؟
جواب: لو کر لو بات،
جناب لوشن، شمپوز کے دور میں اگر آپ سارا دن مختلف صابن کے درمیان رہیں گے۔ صابن استعمال کریں گے تو ری ایکشن ری پلے تو ہو گا ہی۔ سو صابن کی جگہ اپنی دوکان پر شمپوز کی رنگین بوتلیں رکھیں۔ چمچماتے پرفیومز، لوشن، فیس واش، باڈی واش رکھیے۔ خود بھی یہی استعمال کیجیئے تو دیکھیے گا خشکی خارش دور اور جلد ملائم ہو جائے گی۔
٭
سوال: حکیم جی، مجھے ایک ایسی لت پڑی ہے جسے سن کر شائد آپ بھی مجھ پر حکیمانہ ہنسی ہنس دیں۔۔ مجھے مٹی کھانے کی عادت ہے۔ بچپن کی عادت جوانی میں بھی چلی آئی ہے۔ اب پیچھا چھڑانے سے نہیں چھوٹ رہی۔ کوئی نسخہ عنایت فرمائیے گا۔؟
جواب: عادت ہو گئی ہے میرے مہربان کوکسی نامہرباں سے،
او عقل کے اندھو، عادت سوچ سمجھ کر ڈالنی چاہیے تھی نا۔۔ میرے پاس حکمت ہے جادوگری نہیں۔۔ لگتا ہے مائیں بچوں کو پیٹ بھر کھانا نہیں دیتیں، اسی لیے وہ مٹی کھانے لگتے ہیں۔ مٹی کا پتلا مٹی میں جا ملے گا۔ اتنا فکر نہ کریں۔ اپنی قوتِ ارادی کو مضبوط کریں یا جیب میں ہر وقت ملتانی مٹی کی گاچی رکھیں۔ جب طبیعت زیادہ ہی للچائے تو اسے تبرک کی طرح چاٹ لیا کریں۔۔
٭
سوال:مجھے سر میں درد رہتا ہے۔ تھوڑی دیر مطالعہ کر لوں یا شوروغل ہو، اونچی آواز سے گفتگو کر لوں تو سر میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ اگر آرام سے لیٹ جاؤں یا نیند آ جائے تو درد ختم ہو جاتا ہے۔؟

جواب: مہربان لگتا ہے آپ بہت حساس شخصیت کے مالک ہیں۔ جو دوسروں کو سنتے ہی آپ کے سر میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ یا آپ تنہائی پسند ہیں۔ دنیا سے بیزار، جی اچاٹ، یا آپ اپنی ہی کہنا چاہتے ہیں دوسروں کی سننا نہیں چاہتے۔ ویسے تو اس تالے کی چابی آپ ہی کے پاس ہے جب بھی سر درد ہو جا کرسو جائیے۔ یوں تو آپ درویش بھی بن سکتے ہیں۔ بیاباں کی خاک چھان سکتے ہیں۔ پر مجھے لگتا ہے کہ فطرت آپ کے لیے ممدون ثابت ہو گی۔ آپ مستنصرحسین تارڑ کے ساتھ کوہ نوردی کیا کریں۔ ان کی سیاح پارٹی میں شمولیت کر لیں۔ وہ آپ کو ایسی ایسی جگہوں پر لے جائیں گے۔ جہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات ۔
٭
سوال: بعض دفعہ میرا دل اچانک گھبرانے لگتا ہے۔ ہر شے ڈراؤنی لگتی ہے۔ کوئی بھی چیز سامنے آ جائے تو دل دھک سے رہ جاتا ہے۔ جسم پر خوف کی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ جو پندرہ بیس منٹ بعد خود بخود ٹھیک ہو جاتی ہے۔ کوئی علاج معالجہ ؟
جواب: ڈرپوک کہیں کے،
دھک دھک کرنے لگا
او مورا جیا را ڈرنے لگا
لگتا ہے آپ مادھوری ڈکشٹ کا یہ گیت بہت سنتے ہیں۔ یا آپ کی پسندیدہ لسٹ میں ٹاپ پر ہے۔ بھیا یہ دنیا ہے جی داروں کی اور دلداروں کی، آپ نجانے کہاں کھوئے رہتے ہیں۔ کن خیالوں اور وسوسوں کو اپنے اوپر طاری رکھتے ہیں۔ اور سوچ سوچ کر دل کو دہلائے رہتے ہیں۔ ورنہ جب جب جو جو ہونا ہے تب تب وہ وہ ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ وہم کا شکار ہیں۔ سو اسے دور کیجئے۔ کیونکہ دیکھیں نا بعد میں یہ خود بخود ٹھیک بھی تو ہو جاتا ہے نا۔ واقعی شکر خورے کو شکر راس نہیں آتی۔
٭٭٭٭٭
Kainat Bashir
About the Author: Kainat Bashir Read More Articles by Kainat Bashir: 27 Articles with 49254 views میرا نام کائنات بشیر ہے۔ میں کالم، انشائیہ، آرٹیکل، مزاح نگاری، افسانہ اور ہلکے پھلکے مضامین لکھتی ہوں۔ اس کے علاوہ وجد کے کچھ لمحات شاعری کی نذر کرنا.. View More