نسل کا معروف شاعر: کامران غنی صباؔ

 کامران غنی صباؔکا تعلق صوبۂ بہار کے تاریخی و ادبی شہر عظیم آباد سے ہے۔ آپ نے علمی و ادبی خانوادے میں آنکھیں کھولیں۔ کامران غنی کے والد ڈاکٹر ریحان غنی بہار کے معروف صحافی اور مجاہد آزادی مفتی سید شاہ محمد عثمان غنی کے پوتے ہیں۔کامران غنی نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سلمیٰ بلخی سے حاصل کی۔ فارسی کی ابتدائی کتابیں اپنے نانا پروفیسر حکیم علیم الدین بلخی ندوی، سجادہ نشیں خانقاہ بلخیہ فردوسیہ (فتوحہ) ، سابق پرنسپل گورنمنٹ طبی کالج ، پٹنہ سے پڑھیں۔سلاؤ ہائی اسکول (نالندہ) سے دسویں کا امتحان پاس کیا۔ انٹرمیڈیٹ اور گریجو یشن پٹنہ کالج (پٹنہ یونیورسٹی) سے مکمل کیا۔ بعد ازاں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی سے اردو میں ایم اے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی سے بی۔ ایڈکی سند حاصل کی ۔ فی الحال آپ گورنمنٹ مڈل اسکول، چک نصیر، ضلع ویشالی، بہار میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

کامران غنی کو شعر و شاعری کا ذوق نانیہال سے ورثے میں ملا۔ نانا پروفیسر علیم الدین بلخی ندوی اورماموں سید نصر الدین بلخی فردوسی کی تربیت نے ان کے شعری و ادبی ذوق کو جلا بخشی۔ آپ نے شعر و شاعری کی ابتدا کالج کے زمانے سے ہی کی ۔آپ کی نظمیں اور غزلیں ملک و بیرون ملک کے مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ نومبر 2011میں ان کی خدمات سے متاثر ہو کر جاپان سے نکلنے والے آن لائن اردو اخبار اردو نیٹ جاپان کے مدیر اعلیٰ ناصر ناکاگا وا نے کامران غنی کو ہندوستان میں اردو نیٹ جاپان کا بیورو چیف مقرر کیا۔ بعد ازاں آپ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے اردو نیٹ جاپان کا مدیر اعزازی برائے ہندوستان بنا دیا گیا۔2011میں اردو نیٹ جاپان کی طرف سے انہیں نوجوانوں کا بہترین نمائندہ قلم کار منتخب کیا گیا اور اخبار کے مدیر اعلیٰ ناصر ناکاگاوا نے انہیں ایوراڈ لینے کے لئے خاص طور سے جاپان کے شہر کوشی گایا مدعو کیا لیکن دفتری وجوہ سے وہ ایوراڈ حاصل کرنے جاپان نہ جا سکے۔کامران غنی صباؔ کئی علمی و ادبی انجمن سے بھی وابستہ ہیں۔ انھیں ان کی صحافتی و ادبی خدمات کے لئے مختلف انجمنوں کی طرف سے اعزاز و اکرام سے بھی نوازا جاتا رہا ہے۔ ملک و بیرون ملک کے دیگر اردو اخبارات و رسائل سے کامران غنی صبا کی وابستگی ہے۔آپ نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز روزنامہ ’’پندار‘‘ پٹنہ سے کیا۔

چند روز قبل ان کی ایک نظم’’مجھے آزاد ہونا ہے‘‘ پر نظر پڑی۔ نظم کی پہلی قرأت نے ہی مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ نظم گرچہ خود کلامی کے انداز میں لکھی گئی ہے لیکن نظم کی قرأت کیجئے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے قاری کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگا دیا ہے۔نظم سوالیہ انداز میں شروع ہوتی ہے(کہاں تک بھاگ پاؤ گے) اور ’مجھے آزاد ہونا ہے‘ کے عزم پر ختم ہو جاتی ہے۔ نظم کی مکمل قرأت کے بعد قاری کے ذہن میں پے در پے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ بلاشبہ اس ناپائیدار اور فانی دنیا میں ’موت‘ کے سوا کچھ بھی حقیقت نہیں ہے لیکن اپنی عاقبت سے بے پروا انسان اس مادی دنیا کی چکا چوند اور رنگینیوں میں ایسا غرق ہو جاتا ہے کہ اپنے انجام یعنی ’حقیقت‘ کو بھی بھول بیٹھتا ہے۔ اپنی مادی خواہشات کی تکمیل کے لئے وہ ہر طرح کے جائز اور ناجائز ’ہتھکنڈے‘ اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ان سب کے پیچھے بس ایک ہی فکر کارفرما ہوتی ہے کہ لوگ اسے بڑا کہیں۔ دولت والا، شہرت والا، عزت والا، منصب والا․․․․․ یقینا وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو جاتا ہے لیکن یہ کامیابی پائیدار نہیں ہوتی یا ہوبھی جائے تو اس سے فائدہ ہی کیا ہے؟موت کے بعد وہ ساری عزت، دولت اور شہرت جسے حاصل کرنے کے لئے اس نے تن من دھن لگا دیاتھا، دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ مشہور انگریز شاعر Henry Scott-Holland نے اپنی ایک نظم Death Is Nothing At Allمیں لکھا ہے :
Death is nothing at all.
It does not count.
I have only slipped away into the next room.
Nothing has happened.
میر ؔ نے اسی مضمون کو کچھ اس طرح بیان کیا ؂
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

دنیا کی بیشتر آبادی کسی نہ کسی صورت میں ’زندگی بعدِ موت‘ کے فلسفہ پر یقین رکھتی ہے لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو معاملہ بالکل ہی برعکس نظر آتا ہے۔ ٹکنالوجی اور صارفیت کے اس عہد میں روحانی قدریں دم توڑ رہی ہیں۔ انسان سکون کی تلاش میں ٹکنالوجی کا سہارا لے رہا ہے لیکن اس کے باطن میں اضطراب ہی اضطراب ہے۔ آج یورپی ممالک کے افراد ’تصوف ‘ اور ’بھکتی‘ کے دامن میں پناہ تلاش کر رہے ہیں۔ کامران غنی صبا کی نظم بھی انہیں کیفیات کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ یہ نظم گرچہ مذہبی فکر کے زیر اثر آگے بڑھتی ہے لیکن اس کی خوبی یہ ہے کہ نظم میں کہیں بھی مذہب کو براہ راست شامل نہیں کیا گیا ۔ شاعر نے اس حقیقت کے ذریعہ سامع کے ذہن میں اترنے کی کوشش کی ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے اور وہ حقیقت ہے ’موت‘۔ ہم مذہب اور خدا کا انکار کر سکتے ہیں موت کا نہیں۔ شاعر نے اس حقیقت کی ڈور کو پکڑ کر ہمارے دل کے نہاں خانوں میں اترنے کی کوشش کی ہے ۔

نظم کی قرأت سے پہلے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ شاعر قنوطیت کا شکار ہے یا وہ جوگی ، سنیاسی کی طرح ترک دنیا پر آمادہ ہے لیکن اختتام پر پہنچ کر یہ عقدہ کھلتا ہے کہ شاعر ’جھو ٹی نمائش‘، خواہشات نفسانی اور مادی بندھنوں سے آزادی چاہتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ اردو میں اس طرح کی متعدد نظمیں لکھی گئی ہیں ۔ نظیر اکبر آبادی کی نظم ’بنجارانامہ ‘ سے لے کر اقبالؔ کے ’واعظ کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد‘ تک متعدد شعرا نے اس موضوع پر لکھا ہے۔ لیکن کامران غنی صباؔ کی نظم ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آئی جب فضا میں مادیت کا زہر پھیل چکا ہے۔ مذہب اور اخلاقیات کی باتیں گالی سمجھی جانے لگی ہیں ۔ کامران نوجوان شاعر ہیں۔ انہوں نے اس نظم کے توسط سے بالعموم پورے سماج کی اور بالخصوص نوجوانوں کی ذہنی کیفیت کو پیش کیا ہے جو اس ’چکاچوند‘ سے باہر نکل کر ’حقیقت‘ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ میں اس خوبصورت نظم کی تخلیق پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہے کہ اس نظم کے توسط سے فکر و آگہی کے نئے دریچے کھلیں گے۔
Mansoor Khushter
About the Author: Mansoor Khushter Read More Articles by Mansoor Khushter: 12 Articles with 10915 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.