ایدھی نے بڑی مشکل میں ڈال دیا

اطلاع آنے کے باوجود کراچی کے قدیم ترین علاقے کھارادر کے ایدھی فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے کنٹرول روم میں کام ایک لمحے کے لیے نہیں رکا۔ جہاں جہاں سے ایمرجنسی کال آ رہی ہے وہاں وہاں ایمبولینسں زخمی یا بیمار لینے آ رہی ہے، جا رہی ہے۔

عجیب لوگ ہیں جنھیں اپنے بانی کے سوگ میں ایک منٹ بھی کام روکنے کی توفیق نہیں۔

کنٹرول روم کا آپریٹر کالرز کو یہ تک نہیں کہہ پا رہا کہ آج رہنے دو۔ تمہارے محلے سے کل لاوارث لاش اٹھا لیں گے، بس ایدھی صاحب کی تدفین ہوتے ہی تمہارے بیمار کے لیے ایمبولینس روانہ کر دیں گے۔ آج کال مت کرو ، آج ہم بند ہیں، صدمے سے نڈھال ہیں۔آج ہمارے باپ کا انتقال ہوگیا ہے۔

پورے پاکستان کے پونے چار سو ایدھی مراکز میں کوئی سرگرمی ایک پل کے لیے نہیں رکی۔ لگتا ہے ایدھی صاحب سفرآخرت پر نہیں بس کچھ دنوں کے لیے بیرونِ ملک دورے پر گئے ہیں۔

اسے کہتے ہیں ’شو مسٹ گو آن‘۔ ایدھی نے اس کے سوا زندگی بھر اور کیا بھی کیا؟

مگر ایدھی نے مجھ جیسوں کو بڑی مشکل میں ڈال دیا جن کے پاس کچھ نہ کرنے کے بارے میں خوبصورت دلائل کے انبار لگے پڑے ہیں۔

اگر ایدھی جیسا غیر متاثر کن نظر آنے والا شخص بازار میں کپڑے کے تھان ڈھو ڈھو کے پہلی ڈسپنسری کھول سکتا ہے، سڑک پر ہاتھ پھیلا کر پہلی کھٹارا ایمبولینس کے لیے رقم جوڑ سکتا ہے، ملیشیا کھدر کے دو جوڑوں میں زندگی بسر کرسکتا ہے، آخری جوتا بیس برس پہلے خرید کے بھی مست اور ذاتی گھر کے جھنجھٹ سے فارغ ہے۔ یہ تک پرواہ نہیں کہ پوتوں نواسوں کے لیے ہی کچھ چھوڑ جائے۔

چھریرے بدن کا یہ آدمی اگر جلے ہوئے گوشت کی بو نتھنوں میں گھسنے کے باوجود بنا ابکائی لیے لاشیں ڈھو سکتا ہے، انھیں اپنے ہاتھ سے غسل دے سکتا ہے، جن نوزائیدہ بچوں کو پیدا کرنے والے ہی کوڑے میں ڈال جائیں انھیں اپنا سکتا ہے، پڑھا سکتا ہے اور ولدیت کے خانے میں اپنا اور بلقیس کا نام ڈلوا سکتا ہے۔راندہِ درگاہ نشے بازوں کو کاندھے سے لگا سکتا ہے، دھتکاری عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو چھت اور لاوارث لاش کو آخری چادر دے سکتا ہے۔ بنا سرکاری گرانٹ دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس اور پاکستان کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ کھڑا کر سکتا ہےتو اس کے بعد کسی بھی فقیر، امیر،گروہ، تنظیم، سرکاری و نجی ادارے انگلے کنگلے کے لیے کون سا بہانہ بچتا ہے جس کے پیچھے پناہ لے کر وہ یہ کہہ سکے کہ نہ بھائی یہ میرے بس کا کام نہیں،اس کے لیے تو بڑے لمبے چوڑے وسائل اور ذات کی قربانی درکار ہے۔

مجھ جیسے جو باتیں مٹھارنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے انھیں ہی یہ فکر سب سے زیادہ لاحق ہے کہ ایدھی کے بعد کیا یہ ادارہ اور اس کا کام اسی طرح چل سکے گا؟ یہ سوال تب بھی پوچھا جا رہا تھا جب ایدھی کا وجود نہیں تھا۔

ایدھی بھی چاہتا تو دل کو شارٹ کٹ تسلی دے کر جان چھڑا سکتا تھا کہ ایک نہ ایک دن کوئی ایسا رحم دل حکمران ضرور آئے گا، کوئی ایسا نجات دہندہ لیڈر پیدا ہوگا، کوئی ولی اترے گا جو ہم سب کے دکھ سمیٹ لے جائے گا۔ شکر ہے ایدھی ایسے کسی بھی وہم سے پاک تھا۔

یوں تو کوئی بھی ایدھی بن سکتا ہے۔ بس اپنی ذات پر سے چل کر خود کو عبور ہی تو کرنا ہوگا مگر یہ بات کہنا کس قدر آسان ہے۔

یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا اپنے نیک بندوں کو جلد اٹھا لیتا ہے۔ مگر ایدھی صاحب کو خدا نے مجھ جیسے گفتار کے غازیوں کے درمیان چھ عشروں تک چھوڑے رکھا۔اورہاں ایدھی کی زندگی کی ایک آزمائش جو میڈیا پر نہیں چلی۔

بابا ایدھی نے جاتے جاتے دنیا کو یہ بھی سمجھا دیا کہ فلاحی تنظیم چلانے والے سرپرستوں کے لئے نہ تو مہنگی گاڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے ، نہ مہنگے لباس اور شاہانہ طرز زندگی لازم ہے یہاں تک کہ خدا کے نام پر مانگنے کے لئے مہنگے ہوٹلز اور کلبز میں لاکھوں خرچ کر کے چیرٹی شو کے انعقاد کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس مقصد کے لئے میڈیا کوریج اور صحافیوں کو اچھے کھانے کھلانا بھی فرض نہیں ہے ۔ جو کام خالصتا خدا اور انسانیت کے لئے کیا جائے اس میں یہ سب بے معانی ہوتا ہے ۔ ہمارے کئی دوستوں کا خیال ہے کہ انسانیت کی خدمت کرنے والے بابا ایدھی کی زندگی آزمائشوں سے عاری تھی جبکہ سچ یہ ہے کہ انہوں نے بہت سی آزمائشوں کا سامنا کیا ۔ مجھے کسی ٹی وی چینل پر یہ واقعہ سننے کو نہیں ملا اس لئے شیئر کرتا ہوں ۔

ایدھی صاحب کی ایک بیٹی کو طلاق ہوئی اور وہ بھی ایدھی صاحب کے گھر چلی آئیں ۔ ۔ ان کا اکلوتا بیٹا بھی ساتھ تھا۔ ان دنوں ایدھی بابا نے ایک پریشان حال خاتون کو گھر پناہ دے رکھی تھی ۔ اپنے خاندانی مسائل کا شکار یہ خاتون گھر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹا دیتی تھی ۔ ایک روز غالبا ًبلقیس ایدھی نے کسی بات پر اسے ڈانٹ دیا ۔ اس نے حساب یوں چکتا کیا کہ ایدھی بابا کی بیٹی کے اکلوتے بیٹے یعنی ایدھی بابا کے نواسے کو نہلانے کے بہانے باتھ روم لے گئی ۔ وہاں ابلتا پانی ڈونگے میں بھر بھر کر اس بچے کے سر پر ڈالتی رہی اور وہ معصوم اس ابلتے پانی سے جلتا رہا ۔ جب تک کسی کو معلوم ہوتا بچہ بری طرح جھلس چکا تھا ۔ سر کی کھال تو ویسے ہی ختم ہو چکی تھی ۔ یہ بچہ انتہائی اذیت کے عالم میں فوت ہو گیا ۔ ایدھی بابا نے بچے کی تدفین کے بعد اپنی بیٹی سے کہا : تم یہ حق رکھتی ہو کہ اپنے بچے کے اس قتل کا بدلہ لے لو ،عدالت میں کیس بھی کر دو، میں تمہارا ساتھ دوں گا لیکن اگر اپنے بابا کی بات مانو تواس خاتون کو معاف کردو،وہ کئی مسائل کا شکار ہے اورمیری پناہ میں ہے۔ تمہارا بچہ اب واپس نہیں آ سکتا لیکن معاف کرنے کا اجر اللہ دے گا ۔

شاید یہ لمحات بیان نہیں ہو سکتے ۔ ایدھی بابا کے دل کی حالت کا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن ان کی بیٹی جسے طلاق ہو چکی تھی اور اکلوتا بچہ اس کا واحد سہارا تھا اس کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی یہ سوچنا بھی مشکل ہے ۔ ایدھی بابا کی بیٹی نے مگر اپنے باپ کا مان رکھتے ہوئے بابا کی پناہ میں آئی خاتون کو معاف کر دیا ۔ اس خاتون کو گھر سے نکال کر کسی اور مرکز منتقل کر دیا گیا ۔ نواسے سے بے پناہ محبت کرنے اور کھیلنے والے ایدھی بابا سمیت گھر والے کئی روز تک روتے رہے ۔ اس بچے کی اس طرح موت کا غم ایدھی بابا کو آخری عمر تک رہا ۔ یہ صرف ایک واقعہ ہے ۔ انسانیت کے اس محسن نے ایسی کئی آزمائشوں کا سامنا کیا اور سرخ رو ہوئے ۔ سچ کہوں تو ایدھی بابا ولی اللہ تھے ۔ انہوں نے جو کیا خالصتاً انسانیت اور خدا کے لئے کیا اسی لئے انہیں دنیا کا امیر ترین غریب کہا گیا جو عوام کی رقم سے مہنگی گاڑی ، شاہانہ زندگی، اور میڈیا ریلیشنگ کے سخت خلاف تھا!

آئیے آج ہم اپنابھی جائزہ لیں!

تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیجئے ایدھی صاحب ابھی زندہ ہیں اوررفاہ عامہ کے کام کر کے اپنا ایک تاثر بنا چکے ہیں لیکن قوم کی حالت دیکھ کر انہیں احساس ہوتا ہے کہ صرف رفاہی کام کرنا کافی نہیں ہے وہ سوچتے ہیں کچھ ایسا کیا جائے کہ میری بجائے پوری ریاست ایدھی بن جائے!

ایدھی صاحب جمہوری جدوجہد کا رستہ چنتے ہیں سیاسی جماعت بناتے ہیں اور عوامی شعور کی بیداری کی کوشش شروع کردیتے ہیں مگرکئی سالوں کی مسسل جدوجہد کے باوجود الیکشن میں ایک سیٹ بھی نہیں جیت پاتے!

معلوم ہے نا کہ وہی عوام جوایدھی صاحب کی تعریف میں دن رات رطب السان ہیں چندسال پہلے اب ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟؟؟

"پادری،دجال،منافق، یہودی لابی کا آلہ کار فسادی، فحاشی پھیلانے والا، زکوٰۃ چور وغیرہ وغیرہ .... "
اب باری آتی ہے الیکشن کی!

پتہ ہے نا کہ ایدھی صاحب کے مقابلے میں آپ کسے ووٹ دیتے ؟؟؟؟

طلال چوہدری، دانیال عزیز، خواجہ آصف، خواجہ سعدرفیق ، رانا ثنا اللہ، پرویز رشید،الطاف حسین، ولی خان،زرداری،عمران خان کی اے ٹی ایم اور اسی قبیل کے دوسرے بدمعاشوں وغیرہ کوتوآپ لوگ جوہرالیکشن میں ان قومی مجرموں کو ووٹ دے کراقتدارکے سنگھاسن پر بٹھاتے ہوآج کس منہ سے ایدھی صاحب کا سوگ منا رہے ہو ؟؟؟؟شائدیہی وجہ ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کے تمام سربراہوں کوایدھی کے جنازے میں شرکت کی توفیق بھی رب نے سلب کرلی!

زندوں کو درگور کرنے اور مُردوں کو پوجنے والے ذہنی غلامو! ..... !!!

ہمیشہ غیر متنازعہ رہنااورکسی زمینی خدا کی جھوٹی خدائی کو کبھی چیلنج نہ کرنا بہت آسان ہوتا ہے مگراپنی پوری زندگی، شخصیت، خاندان اورتاثرداؤپرلگا کراپنے ہی قاتلوں کے عشق میں مبتلا ذہنی غلام قوم کو جگانا بہت مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ ’’جو پرندے پنجروں میں پیدا ہوں انہیں اڑنا ایک بیماری لگتا ہے‘‘
اللہ رب العزت محسن پاکستان عبدالستار ایدھی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے جواندھی قوم کوتحفے میں اپنی آنکھیں دے گیا۔آمین
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349988 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.