عبدالستار ایدھی کا انتقال: ایک عہد کا خاتمہ

عبدالستار ایدھی اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی طبیعت کافی عرصے سے ناساز تھی لیکن گزشتہ چند دنوں سے حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی اور وہ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت (ICU) میں زیر علاج تھے۔ جمعے کو ان کی طبیت زیادہ خراب ہوئی اور ان کو وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا تھا، جس کے کچھ دیر بعد یہ درویش صفت مرد ِ قلندر اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔

میرا گمان نہیں بلکہ مجھے یقین کامل ہے کہ جب اپنے رب کے حضور پیش ہونگے ملائیکہ کا ان کا استقبال کیا ہوگا، اور اس وقت وہ اپنے رب کی رحمتوں کے سائے میں جنت الفردوس میں ہونگے۔
 

image

عبدالستار ایدھی صاحب ؒ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی سماجی خدمات کے باعث نہ صرف انہوں نے اپنی پہچان بنائی بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام بھی روشن کیا۔وہ دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان تھے، پاکستان کے سفیر تھے۔ پاکستان میں جہاں کہیں بھی کوئی حادثہ ہوتا،کوئی قدرتی آفت آتی، سیلاب، زلزلہ، کہیں آگ لگے یا عمارت کو نقصان پہنچے، کوئی حادثے میں زخمی ہو یا تخریب کاری اور دہشت گردی کا نشانہ بنے، ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبیولینس سب سے پہلے جائے حادثہ پر پہنچ کر زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے کا کام شروع کردیتی ہیں۔ اگر چہ آ ج کل چند دوسرے ادارے بھی ایمبولینس سروس شروع کرچکے ہیں لیکن پاکستان میں اس سروس کا آغاز کرنے والے عبد الستار ایدھی ؒہی تھے۔

عبدالستار ایدھی صاحب ؒبھارتی گجرات کے شہر بانٹوا میں 1928 کو پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندان ایک متوسط خاندان تھا، والد عبدالشکور ایدھی کپڑے کے تاجر تھے۔جبکہ والدہ ’’گربا‘‘ ایک سیدھی سادی گھریلو خاتون تھیں۔قیام پاکستان کے بعد ان کی فیملی ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرگئی اور کراچی کے علاقے کھارادر میں سکونت اختیار کی۔ان کے اندر لوگوں کی مدد اور خدمت کا جذبہ بچپن سے ہی موجود تھا،ان کی والدہ انہیں جیب خرچ کے لیے دو پیسے دیتی تھیں تو وہ اس میں سے بھی ایک پیسہ اپنے کسی ساتھی کو دیتے تھے۔خدمت خلق کے اسی جذبے کے تحت انہوں نے 1951میں ایک چھوٹے سے کلینک کے زریعے خدمت خلق کا آغاز کیا، ایدھی صاحب کو انسانیت کا درد اس قدر زیادہ تھا کہ وہ کلینک کھولنے کے بعد اکثر گھر نہیں جاتے تھے بلکہ کلینک کے سامنے ایک بینچ پر ہی سوجاتے تھے تاکہ اگر رات کو کوئی ضرورت مند آئے تو اسے پریشانی نہ ہو۔

1957میں انہوں نے پہلی بار بڑے پیمانے پر لوگوں کی مدد کی جب شہر میں فلو کی وبا پھیلی اور متعدد لوگ متاثر ہوئے تو ایدھی صاحب نے متاثرین کے لیے رقوم جمع کیں، ان کے علاج معالجے کا انتظام کیا اور ان کے لیے شہر کے مضافات میں خیمے لگائے۔ بعد ازاں جس عمارت میں انہوں نے ڈسپنسری کھولی تھی اس پوری عمارت کو خرید لیا اور وہاں انہوں نے میٹرنٹی ہوم اور نرسوں کی ٹریننگ کا ادارہ قائم کیا اور اس طرح ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز ہوگیا۔
 

image


آنے والے دنوں میں انہوں نے ایمبولینس سروس کا آغاز کیا۔ ایک ایمبولینس سے شروع ہونے والے ایمبولینس سروس آج دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروسز میں سے ایک ہے۔ گینز بن آف ورلڈ ریکارڈ 1987 کے مطابق اس وقت انکی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس تھی۔ایک ڈسپنسری سے شروع ہونے والی ایدھی فاوئنڈیشن آج یتیم خانے، سرد خانے، پاگل خانے، لاوارث جانوروں کی دکھ بھال، کفن دفن اور کئی شعبوں میں معاشرے کی خدمت کا فریضہ سر انجام دے رہی ہے۔2006 میں ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کے قیام کااعلان کیا گیا، جس کے تحت دنیا کے کسی بھی ملک کو ایمبولینس عطیہ کی جاتی ہیں اور انہیں ہدایت کی جاتی ہے کہ پانچ سال تک ان کو استعمال کرنے کے بعد ان ایمبولینسز کو فروخت کردیں اور حاصل ہونے والے رقم کو سماجی خدمات کے لیے استعمال کریں۔عبدالستار ایدھی صاحب کی خدمات کا دائرہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی وہ سماجی خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں، اس وقت ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کے علاوہ ایتھوپیا، سوڈان، چیچنیا، بوسنیا، افغانستان اور عراق وغیرہ میں بھی سماجی خدمت کا کام کررہی ہے۔

عبدالستار ایدھی صاحب ؒ کا نام جتنا بڑا تھا، جس قدر وہ دنیا میں مقبول و معروف تھے ، اور جتنا ان کو قومی اور بین الاقوامی اعزازت سے نوازا گیا،ایسی شہرت اچھے اچھوں کا دماغ خراب کردیتی ہے، لیکن عبدالستار ایدھی ؒ مرحوم ان سب چیزوں کے باوجود بالکل سادہ اور درویش منش انسان تھے، سادہ لباس پہننا، دن میں ایک بار کھانا اور وہ بھی انتہائی سادہ ، جب تک صحت نے اجازت دی اس وقت تک اپنے دن کا زیادہ تر وقت دفتر میں گزارنا اور کسی بھی حادثے کے پیش آنے کی صورت میں جائے حادثہ پر پہنچنا ہمیشہ ان کی عادت رہی، ایدھی فاؤنڈیشن کے کروڑوں کے بجٹ میں سے وہ اپنی ذات پر ایک پیسہ خرچ نہیں کرتے تھے بلکہ اس کو وہ امانت سمجھ کر خرچ کرتے تھے۔

ان کی سماجی خدمات کے صلے میں ان کو متعدد قومی اور بین الاقوامی اعزازت سے نواز ا گیا۔ ان کی تفصیل ذیل میں دی جارہی ہے۔

بین الاقوامی اعزازات:
فلپائینی کی جانب سے سماجی خدمات کا ’’رامون مگسے ایوارڈ‘‘ 1986
روس کی جانب سے ’’لینن پیس پرائز‘‘ 1988
انسانی حقوق اور سماجی خدمات کے بین الاقوامی ادارے روٹری انٹریشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے ’’پال ہیریس فیلو‘‘ 1992
آرمینیا کے زلزلے کے موقع پر سماجی خدمات کے اعزاز میں روس کی جانب سے ’’پیس پرائز‘‘ 1998
عمومی طبی خدمات کے اعزاز میں متحدہ عرب امارت کی جانب سے ’’ ہمدان ایوارڈ‘‘ 2000
اٹلی کی جانب سے بین الاقوامی ’’بلزان ایوارڈ‘‘ برائے امن، انسانیت اور بھائی چارہ۔ 2000
بھارت کی جانب سے ’’پیس اینڈ ہارمنی ایوارڈ‘‘( دہلی) 2001
بھارت کی جانب سے ‘‘امن ایوارڈ‘‘ (ممبئی) 2004
بھارت کی جانب سے ‘‘امن ایوارڈ‘‘ (حیدر آباد دکن) 2005
اٹلی کی جانب سے ’’ولف آف بھاگیو پیس ایوارڈ‘‘۔2005
’’گاندھی پیس ایوارڈ‘‘ (دہلی ) 2007
جنوبی کوریا کی جانب سے ’’پیس ایوارڈ‘‘ 2008
گینزبک کی جانب سے دنیاسب بڑی ایمبولینس سروس کا اعزاز 1987
گینز بک کی جانب سے دنیا کی سب سے بڑ ی ایمبولینس سروس کا اعزاز 2000
انسٹیٹیو ٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری 2006
یونیسکو منجیت سنگھ ایوارڈ 2009
 

image

قومی اور علاقائی اعزازات:
کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی طرف سے سلور جوبلی شیلڈ 1962–اور 1987
حکومت سندھ کی جانب سے سماجی خدمت گزار برائے بر صغیر کا اعزاز 1989
نشان امتیاز، حکومت پاکستان کا ایک اعلیٰ اعزاز1989
حکومت پاکستان کے محکمہ صحت اور سماجی بہبود کی جانب سے بہترین خدمات کا اعزاز 1989
پاکستان سوک سوسائٹی کی جانب سے پاکستان سوک اعزاز 1992
پاک فوج کی جانب سے اعزازی شیلڈ
پاکستان اکیڈمی آف میڈیکل سائنسز کی جانب سے اعزازِ خدمت
پاکستانی انسانی حقوق معاشرہ کی طرف سے انسانی حقوق اعزاز
عالمی میمن تنظیم کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ اعزاز 2005

عبدالستار ایدھی صاحب آج ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کا لگایا گیا پودا جو آج تناور درخت بن چکا ہے، ان شاء اﷲ صدیوں تک لوگوں کو انکی یاد دلاتا رہے گا اور اپنی انسان دوستی ، سماجی خدمت اور انسانیت سے محبت کے باعث ایدھی صاحب تاریخ کے صفحات میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کے درجات کو بلندفرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
YOU MAY ALSO LIKE:

Pakistan's legendary philanthropist Abdul Sattar Edhi, who devoted his life to the poor and the destitute, died on Friday at a hospital in Karachi following a prolonged illness. He was 88.