عیدالفطر کا اہتمام ماضی کے جھروکوں سے

آپ نے اکثر کئی لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا “ عید تو ہمارے زمانے میں ہوتی تھی “- انسان سوچتا ہے کہ بھلا ایسا کیا اہتمام ہوتا تھا جو اب نہیں ہوتا- دیکھا جائے تو ایسی بہت سی چیزیں تھیں جو ایک دہائی تک بڑے اہتمام کے ساتھ عید کا خاصہ ہوتی تھیں مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی آتی رہی اور موجودہ دور میں ان کا تصور بھی تقریباً ناپید ہوگیا- ایسی ہی چند انمول یادوں کا ہم یہاں تذکرہ کریں گے جن کو پڑھ کر یقیناً آپ کو اپنے بچپن کی عید یاد آ جائے گی-
 

ٹیلیفون کے ذریعے عزیز و اقارب کو چاند کی مبارکباد:
جیسے ہی ٹی وی پر شوال کا چاند نظر آنے کی تصدیق ہوتی تھی٬ اسی وقت گھر کے افراد اپنے رشتے داروں٬ بڑوں اور دوستوں کو عید کے چاند کی مبارکباد دینے کے لیے لپک پڑتے تھے- خاندان کے بڑوں کو عید کا سلام کرنے کی سب کو جلدی ہوتی تھی- اکثر ٹیلیفون لائن مصروف ملتی تھیں کیونکہ ہر بندہ جلد از جلد اپنے پیاروں کو عید کی مبارکباد دینے کے لیے بیتاب نظر آتا تھا- جو سب سے پہلے مبارکباد دیتا تھا اس کی واہ واہ ہوتی تھی-

دورِ حاِضر میں یہ رسم تقریباً دم توڑ چکی ہے- اب لوگ محض ایک ایس ایم ایس٬ واٹس ایپ میسج یا پھر فیس بک پر اسٹیٹس کے ذریعے ہی اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں- بہت سے لوگ تو فارورڈ میسج میں ہی اپنا نام لکھ کر سب کو ایک ہم میسج بھیج کر جان چھڑوا لیتے ہیں-

image


عید کارڈ کی بات ہی کچھ اور تھی:
وہ بھی کیا وقت تھا جب عید کی آمد سے چند روز قبل اسکول مین بچے عید کارڈز خود بنا کر اپنے دوستوں کو دیتے تھے- اسکول یا کالج میں عید کی چھٹیوں سے پہلے تمام بچے اپنے دوستوں کے لیے عید کارڈز لاتے تھے اور عید کارڈز تقسیم کر کے مبارک باد دیتے تھے- اس سے ان کا خلوص چھلکتا تھا- نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی بازار میں آسانی سے دستیاب عید کارڈز خرید کے اپنے پیاروں کو دیتے تھے- دوسرے شہروں یا ملکوں میں مقیم عزیز و اقارب کو عید کارڈ رمضان کے آخری دنوں میں ارسال کر دیے جاتے تھے- وقت کے ساتھ ساتھ اس عمل میں جدت آئی اور ای میل دور پروان چڑھا- منفرد قسم کے ای کارڈز ای میل کے ذریعے بھیجے جانے لگے-

موجودہ دور میں زندگی اتنی مصروف ہوچکی ہے کہ اب لوگ ای کارڈز بھیجنے سے قاصر ہیں- موبائل فون سے محض ایک میسج سے سب کو عید مبارک کہہ دینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں-

image


اب تو گائے سوپ والے بھی عید کی مبارکباد نہیں دیتے:
اگر آپ کو یاد ہو تو نوے کی دہائی میں پاکستان ٹیلیویژن پر ایسے کئی اشتہارات نشر کیے جاتے تھے جس میں مختلف ادارے پوری عوام کو عید کی مبارک باد دیتے تھے- جب تک “ گائے سوپ کی جانب سے تمام کرم فرماؤں کو عید کی دلی مبارک “ جیسے اشتہارات ٹی وی پر نہ دیکھ لیں ہمیں لگتا تھا عید کا دن ہی نہیں- بےشک ایسے اشتہارات سے کچھ لوگ تنگ بھی آگئے تھے مگر اس بات میں بھی صداقت ہے کہ اس سے اداروں کا عوام کے لیے اپنائیت کا احساس ہوتا تھا-

اب ایسے اشتہارات آپ کو ٹی وی پر شاید ہی نظر آئیں٬ وقت کے ساتھ ساتھ یہ روایت بھی دم توڑ گئی-

image


20 یا 50 روپے عیدی ملنا گویا سب سے بڑی خوشی مل گئی:
بڑا ہی سستا زمانہ تھا مگر ہمیں بھلا لگتا تھا٬ عید کے روز ہر آنے والا مہمان 20 یا 50 کا کڑک نوٹ تھماتا تھا اور ہم اپنے پرس میں بڑے فخر سے رکھ لیا کرتے تھے- اسی طرح بھائی٬ ابا اور دادی اماں سے عیدی بٹورنے کا اپنا ہی مزہ تھا- دن میں کئی بار عیدی گن کر رکھتے تھے اور عید کے گزر جانے کے بعد اس سے اپنی پسند کی کوئی چیز خریدتے تھے اور خوب لطف اندوز ہوتے تھے-

آج کل کے دور میں 500 یا 1000 روپے سے کم عیدی دینے والے کو ہم کنجوس سمجھتے ہیں-دینے والے کی نیت نہیں دیکھتے بلکہ رقم کی قیمت زیادہ اہم ہو چکی ہے-

image


نانی کے گھر پر گزری عید سے بہتر کوئی عید نہیں:
اس بات سے تو آپ سب اتفاق کریں گے ہی کہ بچپن مین جب عید کے روز امی نانی اماں کے گھر جانے کی بات کرتی تھیں تو ہمارے چہرے خوشی سے کھل اٹھتے تھے- خود بن ٹھن کے ہم نانی کے گھر جاتے تھے کیونکہ وہاں ہمارے لیے خصوصی اہتمام ہوتا تھا- نہ صرف ڈھیر ساری عیدی ملتی تھی اور مزیدار کھانوں سے تواضح ہوتی تھی بلکہ کزن کے ساتھ کھیل کود میں وقت اتنا اچھا گزرتا تھا کہ جس کا کوئی نعم البدل ہی نہیں-

لیکن اب یہ روایت بھی دیگر روایات کی مانند چند گھرانوں تک ہی محدود نظر آتی ہے اور زندگی کی مصروفیات نے اسے بھی ناپید کردیا ہے-

image
YOU MAY ALSO LIKE:

Time passes and leaves behind memories to cherish. Eid ul Fitr these days is not the same like it used to be almost a decade back. This article will take you back to your childhood when Eid actually means happiness. It covers some prominent features of Eid ul Fitr that has become obsolete in the current era.