پاکستان منشیات کا گیٹ وے……ایک کروڑ افراد منشیات کے عادی

منشیات کی لت ایک موذی مرض ہے، جو پورے معاشرے کو برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس لت کی ابتدا غلط سوسائٹی سے ہوتی ہے، لیکن بعد میں اس سے نجات پانا نہ صرف نہایت مشکل مرحلہ ہوتا ہے، بلکہ رفتہ رفتہ دیگر افراد بھی اس موذی مرض کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں، جن کی تعداد میں سالانہ چھ لاکھ کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے۔ ان میں اسی فیصد مرد اور بیس فیصد خواتین ہیں۔ امریکی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ڈھائی لاکھ افراد منشیات کے استعمال کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں منشیات کا استعمال کتنا بڑا مسئلہ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں پچھلے دس سال میں دہشت گردی کے نتیجے میں ساٹھ ہزار افراد مارے گئے ہیں، لیکن پاکستان میں ہر سال اس سے چار گنا زیادہ لوگ منشیات کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تیز منشیات کے استعمال کا آغاز سگریٹ، پان اور گٹکے وغیرہ چھوٹے نشوں سے ہوتا ہے، اس کے بعد افیون اور چرس جیسے نشوں کی لت پڑتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں جو نشہ آور اشیا عام استعمال کی جاتی ہیں، ان میں شراب، ہیروئن، چرس، افیون، بھنگ، کیمیائی منشیات جیسے صمد بانڈ، شیشہ، نشہ آور ٹیکے اور سکون بخش ادویات سب سے نمایاں ہیں۔

منشیات کا کاروبار اسلحے کی تجارت کے بعد دنیا کا سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان منشیات کاگیٹ وے ہے اور 80 سے90 فیصد منشیات افغانستان سے ساری دنیا کو منتقل کی جاتی ہیں، جبکہ یہ منشیات افغانستان سے پاکستان کے راستہ سے اسمگل ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان منشیات ، پوست، افیون اور بھنگ پیدا کرنے والے ممالک میں کوئی نمایاں حیثیت نہیں رکھتا، تاہم ان کو ریفائن کرنے اور ان سے دیگر پراڈکٹ جیسے ہیروئن اور چرس بنانے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ 1993ء میں جب افغانستان میں افیون کی پیداوار 685 میٹرک ٹن سالانہ تھی، تب پاکستان میں 140میٹرک ٹن تھی۔ 1996ء میں افغانستان میں یہ پیداوار 2099ء میٹرک ٹن ہو گئی، جب کہ پاکستان میں 75 میٹرک ٹن ہوگئی۔ اسی طرح 2000ء میں افغانستان میں 3656 میٹرک ٹن اور پاکستان میں صرف11ٹن رہ گئی۔ افغانستان میں 2005ء میں یہ پیداوار 4100 میٹرک ٹن اور 2006ء میں 6100 میٹرک ٹن ہوگئی۔ 2009ء میں 6900 میٹرک ٹن تک پیداوار پہنچ گئی۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کی رپورٹ کے مطابق 1980ء میں افغانستان میں پوری دنیا کی پیداوار کی 30 فیصد پوست کاشت ہوتی تھی اور اب یہ 3 گنا یعنی 90 فیصد ہوجانے سے افغانستان دنیا بھر میں سب سے زیادہ پوست کاشت کرنے والا ملک بن چکا ہے، لیکن افغانستان کی کل پیداوار کا 80 فیصد ریفائن ہونے کے لیے پاکستان آ جاتا ہے۔ افغانستان میں سالانہ 1500 سے 3500 ٹن چرس حاصل ہوتی ہے اور اس کی آمدن 115 ملین ڈالر تک ہے، جو افیون سے حاصل ہونے والی رقم کا صرف 10 سے15 فیصد ہے۔ پودے سے چرس بنانے کا تقریباً 80 فیصدکام افغانستان میں اور 20 فیصد پاکستان میں ہوتا ہے، جبکہ افغانستان کی تیار کردہ چرس کا 70 فیصد حصہ پاکستان سے ہوتا ہوا اسمگل کیا جاتا ہے۔ عالمی اقتصادیات کے بعض ماہرین کا تو خیال ہے کہ منشیات کے اس دھن کے ذریعے امریکا کی دیوالیہ ہونے والی کمپنیوں کو بچایا جاتا ہے اور امریکا کی اقتصادی شہ رگ وال اسٹریت کی زندگی کا دار و مدار بھی اسی سرمائے پر ہے۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے وقت بھی بعض عالمی تجزیہ کاروں نے یہ کہا تھا کہ مسئلہ القاعدہ یا اسامہ بن لادن نہیں، بلکہ افغانستان سے برآمد ہونے والی ہیروئن ہے۔

پاکستان نشہ آور ادویات یعنی ہیروئن اور حشیش بنانے اور انہیں اسمگل کرنے کا مرکز بنا ہوا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے بیچ کا راستہ بالکن، ایران سے ترکی، بلغاریا سے یورپ، کوکس سے افغانستان بہ راستہ آذر بائیجان کو جارجیا اور یورپ کو ملا رہا ہے۔ آخری منزل سارتھن روٹ ہے جو براہ راست پاکستان کو سپلائی کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان سے سالانہ 30 ارب ڈالر مالیت کی منشیات پاکستان اسمگل کی جاتی ہے، جس میں 250 ٹن سے زاید افغان منشیات پاکستان میں ہی استعمال کی جاتی ہے۔ آپریشن خیبرون اور ٹو کی کامیابی سے پاکستان میں پوست کی کاشت میں کافی کمی واقع ہوئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اس وقت دنیا کی 90 فیصد منشیات پیدا ہو رہی ہے، جس میں سے 40 فیصد پاکستان اسمگل کردی جاتی ہے، جبکہ باقی 50 فیصدافغانستان سے وسطی ایشیائی ممالک بھیجی جاتی ہے۔ پاکستان میں اسمگل کی جانے والی منشیات کی سالانہ مالیت 30ارب ڈالر ہے۔ مالی طور پر اس پْر کشش دھندے میں ملوث گروہ مقامی با اثر افراد کی معاونت کے بغیر ایسا نہیں کر سکتے، منشیات کی اس کھیپ کو زیادہ تر بلوچستان کے ساحلی علاقوں اور سندھ کی بندر گاہ کے ذریعے بیرون دنیا کو اسمگل کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے ہونے والے سروے کے مطابق ملک میں بطورِ منشیات سب سے زیادہ استعمال بالترتیب بھنگ، حشیش، چرس، ہیروئن اور شراب کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ ہیروئن استعمال کرنے والے 77 فیصد اور حشیش اور چرس کے عادی 41 فیصد اس کا روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ ہر سال 26 جون کو انسداد منشیات کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، لیکن تاھال حکومت اس کی روک تھام کے لیے مستقل حل نہیں نکال سکی ہے۔ منشیات سے پاک معاشرے کے قیام کے لیے ایک بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں نشے کی عادت ہر سال تقریباً ڈھائی لاکھ ہلاکتوں کی وجہ بنتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کی منشیات کا 40 فیصدحصہ کراچی کی بندرگاہ اور ہوائی اڈے کے ذریعے اسمگل کیا جاتا ہے۔ افغانسان سے 40 فیصد منشیات اور افیون کا حصہ کراچی، جبکہ 60 فیصد حصہ دیگر ممالک کے راستے ناجائز اور خفیہ طریقوں سے فروخت کیا جاتا ہے۔ جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے سب سے زیادہ کراچی سے سپلائی کی جانے والی منشیات کو ضبط بھی کرتے ہیں، مگر پھر بھی اس کی روک تھام میں ناکام ہیں۔ پاکستان کی مجموعی آبادی اور اس میں منشیات کے عادی افراد کے تناسب کے لحاظ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت منشیات کی روک تھام کے لیے جتنی بھی کوششیں کر رہی ہے، وہ ابھی تک کافی ثابت نہیں ہوئیں، ان میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے شہریوں کی تعداد کتنی ہے، اس بارے میں وفاقی یا صوبائی حکومتیں کوئی سالانہ اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے کوئی ریسرچ نہیں کرواتیں۔ حکومت کو چاہیے کہ انسداد ڈرگ/نارکوٹیکس پالیسی کے تحت تمام پاکستانیوں کو اس کے غلط استعمال و مضر اثرات کی تعلیم دے اور اسکولوں، کالجوں میں سوشل ٹریننگ، علاج کے پروگرامز متعارف کرائے۔ ڈرگ ٹریفیکنگ کو موثر طریقے سے روکے۔ جو لوگ منشیات کے عادی ہوچکے ہیں، ان کی زندگی کی نارمل صلاحیت کی بحالی میں مدد کی جائے۔ منشیات کا کاروبار کرنے والے افراد کو گرفتار کرکے قانون کے مطابق سزا دلوائی جائے، بصورت دیگر یہ موذی مرض پورے معاشرے کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631028 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.