اسوۂ حسنہؐ

ہم ہر وقت قومی اور بین الاقوامی واقعات،سیاسیات اور معاشیات کو زیر بحث لاتے رہتے ہیں۔لکھتے وقت موضوعات اتنے کہ انتخاب مشکل۔اور ہمارے ملک کے خصوصی حالات۔ایک دھماکے سے ہونے والی تباہی کو ابھی دکھایا ہی جارہا ہوتا ہے کہ دوسرے علاقے سے اس سے بھی بڑے سانحے کی خبر آجاتی ہے۔اور پھر خان صاحب کی سیاست نے ملک میں ادھم مچایا ہوا ہے۔کینڈا والی سرکار کا اچانک نزول۔کیمروں کی مجبوری کہ اسے Liveدکھائیں۔ماحول ایسا بن گیا ہے کہ سنجیدہ اور خوبصورت موضوعات پر لکھنا محال۔آج اس ماحول سے باہر آجاتے ہیں۔دل اسوۂ حسنہؐ پر لکھنا چاہتا ہے ۔لیکن ہمارے جیسے کم مایہ انسانوں کے پاس نہ الفاظ ہیں اور نہ اسلوب کہ تھوڑا بہت حق ادا ہوسکے۔ہم برصغیر پاک وہند کے نامور سکالر اقبال کے قریبی دوست اور سیرت النبیؐ پر سب سے بڑی کتاب کی تکمیل کرنے والے سید سلیمان ندوی کے الفاظ اور اسلوب سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔"تاریخ میں ایسے لاکھوں افراد نمایاں ہیں جنہوں نے آنے والوں کے لئے اپنی اپنی زندگیاں نمونے کے طورپر پیش کی ہیں۔ایک طرف بادشاہوں کے عالیشان دربار ہیں دوسری طرف سپہ سالاروں کی افواج ہیں۔حکماء اور فلاسفروں کا گروہ ہے۔ایک طرف شعراء کی رنگین محفل ہے۔دوسری طرف دولت مندوں اور خزانوں کے مالکوں کی نرم گدیاں اور پیسوں سے بھری تجوریاں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی زندگی آدم کے بیٹوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔کارتھیج کا ہنی بال،مقدونیہ کا سکندر،روم کا قیصر،ایران کادارا،یورپ کے نپولین،ہر ایک کی زندگی ایک کشش رکھتی ہے۔سقراط،افلاطون ،ارسطو،دیو جانس کلبی اور یونان کے دوسرے مشہور فلسفوں سے لیکر سپنسر تک تمام حکماء فلاسفروں کی زندگیوں میں ایک خاص رنگ نمایاں ہے۔نمرود،فرعون،ابوجہل اور ابولہب کی دوسری شخصیتیں ہیں۔قارون کی ایک الگ زندگی ہے۔غرض دنیا کی سٹیج پر ہزاروں قسم کی زندگیوں کے نمونے ہیں جو بنی آدم کی عملی زندگی کے سامنے ہیں۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ انسانوں کے ان مختلف گروہوں میں سے کس کی زندگی نوع انسانی کے لئے خوش بختی ،کامیابی اور ہدایت کی ضمانت دیتی ہے۔اور اس کے لئے پیروی کے قابل نمونہ ہے۔ان لوگوں میں بڑے بڑے فاتح اور سپہ سالار ہیں ۔ایسے جنہوں نے اپنی تلوار کی نوک سے دنیا کے نقشے بدل ڈالے ہیں۔لیکن کیا انسانیت کی فلاح و ہدایت کے لئے انہوں نے کوئی نمونہ چھوڑا؟۔کیا انکی تلوار کی کاٹ میدان جنگ سے آگے بڑھ کر انسانی اوھام اور غلط خیالات کو بدل سکی؟۔انسانوں کی باہمی برادرانہ تعلقات کی مشکل کو سلجھا سکی؟۔انسانی رہن سہن اور مل جل کر زندگی گزارنے کا کوئی خاکہ پیش کرسکی؟۔ہماری روحانی مایوسیوں اور ناامیدیوں کا کوئی علاج کرسکی؟۔ ہمارے دلوں کی ناپاکی اور زنگ مٹاسکی؟۔ہمارے اخلاق اور اعمال کا کوئی نقشہ بناسکی؟۔دنیا میں بڑے بڑے شاعر بھی پیدا ہوئے ہیں۔لیکن خیالی دنیا کے یہ شاہنشاہ عملی دنیا میں بے کار ثابت ہوئے۔کیونکہ ان کے خوش نما کلام کے پیچھے ان کے کردار کا کوئی خوش نما نمونہ نہ تھا۔حکماء اور فلاسفر انسانیت کے نظام ہدایت کا کوئی عملی نمونہ پیش نہ کرسکے۔اور نہ انسانی معاملات اور تعلقات کی پیچیدگیوں کی گرہ کھولنے میں کوئی عملی مدد کرسکے۔پھر دنیا کے سٹیج پر بڑے بڑے بادشاہ اور حکمران بھی رونما ہوئے ہیں۔ان کی تلواروں کی دھاک نے آبادیوں سے تو مجرموں کو دور کردیا۔لیکن تنہائیوں اور اکیلے میں جرم کرنے والوں کو وہ نہ روک سکے۔انہوں ے بازاروں اور راستوں میں امن قائم کیا۔لیکن دلوں کی بستی میں وہ امن قائم نہ کرسکے۔انہو ں نے ملک کا انتظام درست کیا لیکن روحوں کی سلطنت کا انتظام ان سے درست نہ ہوسکا۔غرض مذہب اور اعتقاد سے ہٹ کر عملی تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو آپ کو یقین ہوجائے گا۔کہ بنی نوع انسان کی حقیقی بھلائی،اعمال کی نیکی،اخلاق کی بہتری،دلوں کی صفائی اور انسانی طبیعت میں اعتدال اور میانہ روی پیداکرنے کی کامیاب کوشش اگر کسی انسانی طبقہ نے انجام دی ہیں۔تو وہ صرف انبیاء کرام کا طبقہ ہے۔وہ خدا کے پیغمبر ہوکر اس دنیا میں آئے اور دنیا کو نیک تعلیم اور ہدایت دے کر راستہ بنا کرچھوڑ گئے۔اس راستہ سے اب تمام فائدہ پارہے ہیں۔سمورابی کے قوانین کا صرف ذکر باقی ہے۔فرعون کا نعرہ کہ میں رب ہوں ختم ہوا۔حضرت موسیٰ کے معجزات آج بھی باقی ہیں۔وہ رومن قانون جس نے حضرت عیسیٰ کو عدالت میں گناہ گار ٹھہرایا ختم ہوچکا ہے۔حضرت عیسیٰ کی تعلیم وہدایات آج بھی باقی ہیں۔مکہ کے ابوجہل ،ایران کے کسریٰ اور روم کے قیصر کی حکومتیں مٹ گئیں مگر سرکار مدینہؐ کی بادشاہت اسی طرح قائم اور تسلیم شدہ ہے۔بہر حال انسانوں کی بہترین معاشرت،صحیح تمدن اور اعلیٰ سیرت کے نمونے اور کائنات کے اندر اس کو اشرف المخلوقات کا مرتبہ حاصل کرانے میں یقیناً تمام انسانی طبقات کا حصہ ہے۔اور ہم سب ان کے شکر گزار ہیں۔مگر سب سے زیادہ شکر گزار ہم ان بزرگوں کے ہیں۔جنہوں نے ہمارے دل کی دنیا کو آباد کیا۔ہماری روحانی بیماریوں کے لئے نسخے تجویز کئے۔اور اصلاح کے ایسے نقشے ترتیب دیئے جس سے دنیا کے صحیح تمدن اور صحیح معاشرت کی تکمیل ہوئی۔اخلاق وسیرت انسانیت کا قیمتی سرمایہ قرار پایا۔نیکی اور بھلائی اعمال کا حسن ٹھہرے۔خدا اور بندے کا رشتہ باہم مضبوط ہوا۔اس طرح اس انسانی گروہ کے احسانات ہم انسانوں پر سب سے زیادہ ہیں۔لیکن بہت سے انبیاء کرام کے کام سے ہم بہت مختصر تعارف رکھتے ہیں۔کسی انسانی سیرت کے ہمیشہ کے لئے نمونہ بننے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اسکی زندگی کے تمام حصے ہماری نگاہوں کے سامنے ہوں۔کوئی واقعہ راز نہ ہو اور نہ ہی ناواقفیت کی تاریکی میں گم ہو۔اس معیار پر اگر مختلف ادیان کی شریعتیں عطاء کرنے والوں اور بانیان مذاہب کے حالات زندگی اور سیرتوں پر نطر ڈالیں تومعلوم ہوگا کہ محمد رسول اﷲ ؐکے سوا اور کوئی ہستی اس معیار پر پورا نہیں اترتی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ خاتم الانبیاء ہوکر دنیا میں تشریف لائے۔پھر کسی سیرت کے عملی نمونہ بننے کے لئے ضروری شرط جامعیت ہے۔یعنی انسانوں کو اجتماعی طورپر اپنی ہدایت اور روشنی کے لئے جن نمونوں کی ضرورت ہے یا ہر انسان کو اپنے مختلف تعلقات،روابط،فرائض اور واجبات کو اداکرنے کے لئے جن مثالوں اور نمونوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب اس مثالی زندگی میں موجود ہوں۔معیار زندگی کا سب سے آخری معیار"عملیت ـ"ہے۔یعنی دین کی شریعت دینے والا اور بانی مذہب جس تعلیم کو پیش کررہا ہو خود اس کا ذاتی عمل اس کی مثال اور نمونہ ہو۔ورنہ خوش کن سے خوش کن فلسفہ اور دلچسپ سے دلچسپ نظریہ ہر شخص ہر وقت پیش کرسکتا ہے۔البتہ جو چیز ہر وقت پیش نہیں کی جاسکتی وہ عمل ہے۔لہذا محمد رسول اﷲؐ کی سیرت کے بہتر اور مکمل ہونے کی دلیل اس کے نیک اور پاکیزہ اقوال وخیالات ہی نہیں بلکہ ان کے اعمال وکارنامے ہیں۔عربوں کی یادداشت فطرۃً نہایت مضبوط تھی۔وہ سینکڑوں اشعار کے قصیدے زبانی یاد رکھتے تھے۔صحابہؓ اور تابعین نے یاداشت کی قوت کوبہتر بنانے میں زبردست کامیابی حاصل کی۔وہ ایک ایک واقعہ کو ایک ایک حدیث کو اسی طرح سن کر زبانی یادکرتے تھے۔جیسے آجکل مسلمان قرآن مجید حفظ کرتے ہیں۔ساتھ ہی لکھنے کا سلسلہ بھی چل نکلا۔پھر محمد رسول اﷲؐ کے عہد مبارک سے لیکر اس وقت ہر زمانہ میں ہر ملک میں،ہرزبان میں حضورؐ کے واقعات ،حالات اور ارشادات پر جوکتابیں لکھی گئیں ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔اسلام کے دشمنوں اور مخالفین نے آپ ؐکی سیرت لکھ کر فخر محسوس کیا۔مارگولیس کے الفاظ میں "نبی اکرم ؐکے سوانح نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کا ختم ہونا ناممکن ہے لیکن اس میں جگہ پانا بھی باعث عزت ہے" ۔حضور ﷺ کی سیرت مبارکہ کا سب سے قابل اعتبار سب سے زیادہ صحیح تو وہ حصہ ہے جس کا ماخذ اور ذریعہ خود قرآن پاک ہے۔جس کی صحت اور اعتبار میں دوست کیا دشمن بھی شک نہ کرسکے۔حضور کی سیرت کے تمام اجزاء قبل نبوت کی زندگی،یتیمی،غربت،تلاش حق،نبوت و وحی اعلان و تبلیغ،معراج،مخالفین کی دشمنی،ہجرت،لڑائیاں،واقع،اخلاق اس میں موجود ہیں۔اس پورے تذکرے سے دوست ودشمن ہر ایک کو اندازہ ہوسکتا ہے کہ نبی اکرمؐ کی تمام تفصیلات جامعیت کے ساتھ معلوم ہیں۔کسی اور کی زندگی میں یہ تفصیلات نظر نہیں آتیں۔یہ امتیاز صرف اور صرف محمد رسول اﷲؐ کو حاصل ہے۔ ـ"میں نے خطبات مدارس سید سلیمان ندوی کی تلخیص کی بھی تلخیص کر دی ہے تاکہ صرف ایک کالم سے اسوہ حسنہ کسی نہ کسی حد تک نمایاں ہوکرسامنے آسکے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49671 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.