نہ گھر کا نہ گھاٹ کا

لبرل ہونا ایک قابل قبول رویہ ہے کہ آپ کے فعل سے کسی کی دل آزاری نہ ہو لیکن یہاں ملحدوں کا معاملہ یکسر مختلف ہے لبرل تو درکنار وہ سیکولر کہلانے کے بھی قابل نہیں ہیں بلکہ فسطائیت کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔سیکولرزم کے برعکس فسطائیت ایک دوسری اصطلاح ہے،فسطائیت یافاشزم کا مطلب ہے کہ کسی سرکاری یاسماجی ادارے کا اپنے نظریات کو جابرانہ طریقے سے سماج پر تھوپنا۔بالفاظ دیگرایسی سیاسی فلاسفی یاتحریک جو بزعم خود اپنے آپ کو قوم سمجھتے ہوئے آمرانہ رویہ اختیارکرے اورمخالف آوازوں کو کچل ڈالے۔ دوسروں کی بات نہ سننے اورمخصوص ایجنڈے کا پرچار کرنے والی اکثر فسطائی تنظیمیں بھی خود کوسماجی تنظیم ہی کہتی ہیں۔انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی آڑمیں بیرونی ڈالروں کے عوض فحاشی و بے راہ روی کے ترویج کیلئے کوشاں عاصمہ جہانگیر،فرزانہ باری اور ماروی سرمد جیسی خواتین بدتمیزی اور اونچی آوازکے ساتھ مردانہ وارشعائر اسلام کا مذاق اڑاتی پھرتی ہیں۔اختلاف رائے رکھنا جمہوری حق ہے لیکن ملحدوں میں اکژیت ایسے خواتین و حضرات کی ہے جو دلیل سے بات کرنے اور سننے کی صلاحیتوں سے عاری ہیں۔ برابری اور مذہبی و شخصی آزادی کے ٹھیکداروں کادہرا معیار سب کے سامنے عیاں ہے کہ سماج باہمی احترام اور مذہبی آزادی کا مطالبہ کرتا ہے لیکن یہاں معاملہبرعکسہے ملحدوں کے نزدیک عزت و تکریم کا حق صرف لنڈے کے انگریزوں کو حاصل ہے جبکہ برقعے اور ڈاڑھی والوں کا جتنا مرضی مزاق اڑالیں ان کو عزت کا کوئی حق حاصل نہیں۔

عجب دور آگیا ہے جو جتنا اسلام ،پاکستان اوراپنے اداروں کے خلاف زہر اگلے وہ اتنا بڑا دانشور سمجھا جاتا ہے۔ علم و شعور کے پیمانے ہی بدل چکے ہیں جو دین اور وطن سے بیزاری ظاہر کرے اور دنیا جہان کے کیڑے اپنے ملک میں نکالے اسے بہت بڑا سیکولر سمجھا جاتا ہے۔ یہ طبقہ جمہوریت کا بھی لفاظی کی حد تک بڑا علمبردار ہوتا ہے مگر عملی طور پر جمہوریت سے کوسوں دور ہے۔ مجھے کوئی ملحد یہ سمجھائے کہ تم اپنے نظریات کو اکثریت پر چرب زبانی سے تھوپنا چاہتے ہو یہ کہاں کی جمہوریت ہے۔

مغربی این جی اوز کے ساتھ ڈالروں میں ایمان کا سودا کرنے والے ان گنت مسلمان ہیں جو اسلام سے بری طرح خائف ہیں اور موقع ملنے پر حرف زنی کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی مقرر کی ہوئی سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں اور کوئی ٹوکے تو یہ کہہ کر اس کی زبان بند کرا دیتے ہیں کہ ہم آپ سے بہتر مسلمان ہیں۔

وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہوتی ہے اور دنیا کاہر مذہب اور طبقہ اس بات کا قائل ہے کہ وطن سب سے پہلے،ایسے میں افسوس ہے ان پاکستانی دانش فروشوں پر جنھوں نے معمولی فائدے کیلئے اپنے ضمیر کا سودا کرلیاجو ڈالروں کے عوض ملک کو کھوکھلا کرنے والے دشمنوں کا آلہ کار بن کر بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں۔

اسلام کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے انسانیت دشمن طالبان کے خونریز مقاصد کو جاننے کے بعد تمام مکتبہ فکر کے مسلمانوں نے ان سے بریت اور اظہار لاتعلقی کر دیا ہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ ملحدوں کا ہے جنھوں اپنی روزی روٹی کی امید اﷲ کی بجائے مغربی آقاؤں کی خوشی میں سمجھ لی ہے۔اس خطرناک گروہ نے ابتدا میں لبرل اور سیکولرکا لبادہ اوڑھ کر مذ ہب سے ہٹ کر انسانیت کا ڈرامہ رچایا لیکن بہت جلد انسانیت سے عاری انسانیت دشمنوں کا مکروہ چہرہ سب پر عیاں ہوگیا کہ ان کا مقصد سیکولرزم کی آڑ میں کچھ اور ہی ہے۔ملحدوں کی بڑھتی ہوئی اسلام دشمنی اور افواج پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا سے یہ بات مخفی نہیں رہی کہ ان کا اصل ایجنڈا کیا ہے۔آئے روز مختلف مذہبی و سیاسی شخصیات اور ملکی اداروں کے خلاف زہر اگلنے والے ملحدوں نے وطن عزیزپاکستان میں فرقہ واریت اور قومیت کو تیزی سے ہوا دینا شروع کردی ہے جس سے ملکی امن کی فضاء بری طرح متاثر ہورہی ہے اور گروہی فسادات کے خدشات لاحق ہیں۔

اس تمام تر صورت حال میں پر امن اور محب وطن لبرل بھی انتہائی دکھ کی کیفیت میں ہیں۔اس ظمن میں لبرل فورم پاکستان کے چئیرمین محمد انور کا کہنا ہے کہ مذہبی ،سیاسی و سماجی شخصیات کی تضحیک کرنے والے تکفیری ذہن کے حامل شرپسند عناصر جو لبرلزم کا سہارا لیکر فحاشی کے فروغ اور معززین کی پگڑیاں اچھالنے کے ساتھ فرقہ واریت اور مذہبی منافرت میں مصروف عمل ہیں وہ معاشرے کا ناسور ہیں۔ لبرل فورم کے قیام کا مقصدکسی بھی طرح سے بد امنی اورفحاشی کا فروغ نہیں بلکہ آئین پاکستانی کی بالادستی میں رہتے ہوئے پر امن جدوجہد کے ذریعے معاشرے سے عدم برداشت کے رجحان کو ختم کرکے سب کو برابری کے حقوق اورمذہبی،سیاسی،سماجی اور انفرادی آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کے بہتر انسانی اصولوں سے روشناس کروانا ہے،آزادی کی حد وہاں تک ہے جہاں سے دوسروں کی آزادی سلب نہ ہو، آزادی کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ آزادی کی آڑ میں شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے ، عدم برداشت ، مذہبی منافرت اورفرقہ واریت کے فروغ جیسی ملک دشمن حرکات شروع کردیں،ایسے مذموم مقاصد رکھنے والے تشدد پسند اور عدم برداشت کا درس دینے والے منفی عناصر سے لبرلزم کا کوئی واسطہ نہ ہے۔۔لبرل فورم پاکستان کے چئیرمین کے اس بیان کے بعد مجھے مشہور زمانہ کہاوت یاد آرہی ہے کہ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘

ملحدوں کی مثال دھوبی کی اس کتے جیسی ہے جو ہڈی کے لالچ میں اپنے مالک کے ساتھ نمک حرامی اور دغا بازی کرتا ہے اور باہر سے بھی ذلت و رسوائی ہی اس کا مقدر بنتی ہے اور یوں وہ نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا۔
MALIK SALMAN
About the Author: MALIK SALMAN Read More Articles by MALIK SALMAN: 69 Articles with 48059 views Columnist at Daily "Nai Baat" & Cyber Security Expert .. View More