کراچی پائیدار امن کی تلاش میں

 دو صدی قبل بحیرہ عرب کے اس کنارے پر رہنے والے لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری تھا اور مچھیروں کی اس بستی کو یہاں کے لوگ ’’کلاچی جوگوٹھ‘‘ کہتے تھے،تجارت کی غرض سے آنیوالے عرب تاجر اس بستی کو اپنے مخصوص لب ولہجے کی وجہ سے ’’کراشی‘‘ کہنے لگے جوبعد میں ’’کراچی ‘‘بن گیا۔وقت کی رفتار نے تیزی پکڑی اور کلاچی جو گوٹھ ماہی گیر اور مچھیروں کی اس بستی نے خوب ترقی کی اور آج اس کا شمار دنیا کے دس بڑے شہروں میں ہوتا ہے،آج کراچی کی آبادی 3 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اس کی ایک بڑی وجہ ملک کے طول و عرض سے روزگار کی تلاش میں کراچی کی طرف ہجرت کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔کراچی جو کہ ملکی معیشت کی شہ رگ کہلاتا ہے اور جس شہر کی پہچان یہاں کی رونق اور روشنیاں تھیں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری،طالبان، اغواء برائے تاوان، گینگ وار اس شہر کی پہچان بن چکے ہیں ۔2012 ء میں یہاں دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد تقریباً ڈھائی ہزار تھی جبکہ سال 2013 ء اہلیان کراچی کے لیے مزید خونی ثابت ہوا اور مجموعی طورپر 2ہزار 700 سے زائد افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے جن میں سے 2ہزار 400 افراد کو ٹارگٹ کلرز نے نشانہ بنایا۔

انتخابات اور نئی حکومت کے قیام کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف نے کراچی بدامنی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا اور ستمبر 2013 میں کراچی آکر خصوصی اجلاس منعقد کئے اور ستمبر 2013 میں وفاقی کابینہ کا اجلاس کراچی میں منعقد ہوا اور کراچی میں بدامنی کے خاتمے کے لیے آپریشن کی منظوری دی گئی اور اسکی آپریشن کمانڈ اس وقت ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل رضوان اختر کو سونپی گئیں جنہوں نے اگلے روز ہی آپریشن آغاز کردیا، انتہائی دشوار ، پیچیدہ اور خطروں سے پر ذمہ داری تھی مگر رضوان اختر مسلسل دن رات ایک کرکے اس آپریشن کو کامیاب اور شہر کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے کوشاں رہے اور خاطر خواہ کامیابیاں سمیٹی ،اب یہ ذمہ داری میجر جنرل بلال اکبر ڈی جی رینجرزسمبھالے ہوئے ہیں ۔قومی اسمبلی میں وزارت داخلہ کی ڈھائی سالہ کارکرگی رپورٹ پیش کردی گئی وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ کراچی آپریشن سے شہر میں 53فیصد ٹارگٹ کلنگ میں کمی آئی ہے، قتل کی 50، ڈکیتی کی 30اور دہشت گردی کے واقعات 80 فیصد کم ہوگئے۔کراچی جہاں قومی تنصیبات پر حملے کئے گئے وہیں پر آئے روز سماجی کارکن ،اساتذہ ،پولیس اہل کار اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا۔کراچی میں جہاں ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کی وہیں پر جہالوجی آسمان سے باتیں کرنے لگی یہی وجہ ہے کہ کراچی میں جرائم کی شرح میں برق رفتار اضافہ ہوا اور ٹارگٹ کلنگ ،قتل اور بھتہ جیسے جرائم میں آئے روز اضافہ ہوتا رہا۔2015 میں رینجرزنے دعوی کیا کہ کراچی میں سالانہ 230 ارب روپے سے زائد رقم غیرقانونی طریقوں سے اکٹھی کی جاتی ہے جس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے اور کاروباری مالکان کو بھی ذہنی اذیت کا سامنا ہے۔بھتہ وصولی سے حاصل کی جانی والی رقم کو اسلحہ کی خریداری اور دیگر جرائم میں استعمال کیا جاتا ہے۔آپریشن میں اب تک 848 ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا گیاجنہوں نے مجموعی طور پر 7 ہزار 224 افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیاجس سے کراچی میں امن و امان کی صورتحال میں کافی بہتری دیکھنے میں آئی ہے اور کاروباری سرگرمیاں دوبارہ اپنے عروج کی طرف لوٹ رہی ہیں۔

گذشتہ ہفتے کراچی میں دہشتگردی کی ایسی وارداتیں دیکھنے میں آئی جس نے کراچی آپریشن اور امن و امان کی صورتحال پرسوالیہ نشان لگا دیا ہے کیونکہ ریاست کے تما م سیکیورٹی ادارے اور بشمول وفاقی و صوبائی حکومتیں ہر پاکستانی کی جان و مال کی حفاظت اولین فرض ہے۔امجد صابری کے قاتلوں اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کے اغوا کاروں کا سراغ سیکیورٹی اداروں کے چیلنج بن چکا ہے ۔کراچی میں آپریشن کو کامیاب بنانے کے پولیس کو غیر سیاسی کرنا بے حد ضروری ہے ،جرائم کے خاتمے کے لیے سندھ پولیس میں دو ہزار سابق فوجی بھرتی کیے جائیں گے، مزید 20ہزار کی بھرتی میں فوج مدد کرے گی جس سے شفافیت کے امکانات روشن ہیں اور بہتری کی امید کی جاسکتی ہے ۔ کراچی کے شہریوں کا ڈیٹا تیار کیا جانا اور اس بات کا ریکارڈ رکھا جاناکہ کون مقامی ہے اور کون غیر مقامی اس حکومتی فیصلے سے اور اس پر عمل درامد ہونے سے کراچی آپریشن اور امن و امان کی صرورتحال میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے اور ایسے فیصلوں سے کراچی کو پرامن اور دوبارہ روشنیوں کا شہر بنایا جاسکتا ہے اور کراچی شہر میں پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے۔
R.S Mustafa
About the Author: R.S Mustafa Read More Articles by R.S Mustafa: 41 Articles with 26561 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.