دینی مدارس کی امداد اور عمران خان

ہمارے معاشرے کا مزاج بھی بہت عجیب ہے۔ مذہب سے لے کر سیاست تک ہر ہر شے میں عصبیت جھلکتی نظر آتی ہے۔ تعصب کا شکار ہوکر ہم غلط صحیح کی تمیز بھی ختم کر بیٹھتے ہیں۔ ہمیشہ اپنی بات کو حق گرداننا اور فریق مخالف کی بات کو باطل ثابت کرنا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔ کوئی ایسا کام جس پر ہم خود فخر کریں، لیکن اگر وہی کام فریق مخالف کرلے تو اس میں کیڑے نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ بہت حیران کن سوچ ہے، جو شاید ہمارے پورے معاشرے کی رگوں میں سرایت کرچکی ہے، لیکن اہل سیاست کی نسوں میں تو شاید بہت تیز رفتاری کے ساتھ دوڑ رہی ہے۔ یہاں یہ بات شاید فرض کے درجے میں ہے۔ اہل سیاست نے اپنی جماعت کی ہر اچھی بری بات کی حمایت اور فریق مخالف کی ہر اچھی بری بات کی مخالفت کرنا خود پر لازم کیا ہوا ہے، اس بات سے ان کو کوئی غرض نہیں ہوتی کہ مخالف سیاسی جماعت یا لیڈر کے کیے گئے اقدام سے ملک و قوم کو کس قدر فائدہ ہوگا، یہ سب سوچے بغیر مخالفت کرنا فرض عین ٹھہرا ہے۔ آپ اس کی تازہ مثال کے پی کے حکومت کی دینی مدرسے کے لیے تین سو ملین روپے کی امداد اور عمران خان کی دینی مدارس کو قومی و مرکزی دھارے میں لانے کی بات سے ہی لے لیجیے کہ تمام ادوار کی حکومتیں دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانے کی بات کرتی رہی ہیں، لیکن اگر یہی کام عملی طور پر عمران خان نے کرلیا تو ان پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔

خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے صوبائی بجٹ میں تین سو ملین روپے جامعہ حقانیہ کے لیے مختص کیے ہیں۔ سربراہ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ دی گئی گرانٹ مدارس میں اصلاحات کے پروگرام کا حصہ ہے، اس امداد سے دینی مدارس کے طلبہ و طالبات کو معاشرے کا حصہ بنانے اور مرکزی دھارے میں لانے میں مدد ملے گی، لیکن پی ٹی آئی مخالف حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر بعض جماعتوں کے لوگ اس امداد پر سیخ پا ہیں۔ حکمران جماعت کی توپوں کے رخ عمران خان کی طرف مڑگئے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے تو جامعہ حقانیہ پر بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام بھی لگا دیا ہے، حالانکہ صرف عمران خان کی مخالفت میں ایسی بات کہہ دینا کسی طرح بھی وفاقی وزیر کے عہدے کے شایان شان نہیں ہے اور اگر وفاقی وزیر واقعی اپنی بات میں سچے ہیں تو حکومت نے اس دینی تعلیمی ادارے کو ابھی تک بند کیوں نہیں کیا ہے؟

عمران خان پر اس حوالے سے تو انگلی اٹھائی جاسکتی ہے کہ انھوں نے اتنی بڑی رقم محض جامعہ حقانیہ کوکیوں دی ہے، اس کا کیا جواز ہے؟ لیکن ان کی دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے والی بات قابل تعریف اور قابل تقلید ہے، کیونکہ دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنا نہ صرف لاکھوں طلبہ کی صورت میں پاکستان کے شہریوں کے پرامن مستقبل کے لیے ضروری ہے، بلکہ خود پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے بھی لازمی ہے۔ دینی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات بھی اسی سماج کا حصہ ہیں، جو محب وطن، باصلاحیت ، محنتی اور بے لوث خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ دینی مدارس کو روایتی تعلیم کا طعنہ دینا، ان کو جہالت کی یونیورسٹیاں اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو دہشتگرد گرداننا تو بہت آسان ہے، لیکن دین و قوم کے لیے ان کی خدمات کا اعتراف کرنا اور دینی تعلیم کے ساتھ مدارس میں تمام فنون سے لیس کر کے ان کو وطن کی خدمت کے لیے تیار کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اگر حکومت مدارس کے لاکھوں طلبہ کو معاشرے سے الگ سمجھنے کی بجائے ان کو سینے سے لگائے اور مختلف فنون سکھانے کا بندوبست کر کے تمام شعبہ جات میں ان کو خدمت کا موقع فراہم کرے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ چند ہی برسوں میں پاکستان کی سیاست، معیشت، تعلیم سمیت دیگر تمام شعبوں میں دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ و طالبات نہایت اہم کردار ادا کریں گے، بلکہ ممکن ہے کہ یہ طلبہ و طالبات آپ کو زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہوتے ہوئے نظر آئیں، کیونکہ دینی مدارس کے طلبہ و طالبات بے لوث خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں اور بڑی سے بڑی قربانی دینا بھی ان کے لیے کچھ خاص بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔

اس وقت پاکستان میں دینی مدارس کے پانچ بورڈز ہیں۔ سب سے بڑے بورڈ وفاق المدارس العربیہ کے ساتھ تقریباً دس ہزار مدارس وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ تنظیم المدارس اہل سنت، وفاق المدارس السلفیہ، وفاق المدارس شیعہ اور جماعت اسلامی کے رابطۃ المدارس الاسلامیہ کے ساتھ وابستہ 13/ہزار سے زاید مدارس میں کم از کم 30 لاکھ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان پانچوں مدارس کے اوپر اتحاد تنظیم المدارس دینیہ کے طور پر ایک چھتری بھی موجود ہے۔ اگر حکومت چاہے تو ان پانچوں وفاقوں کے تعاون سے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ اور قیام امن سمیت معاشرے میں ان سے دیگر بہت سے کام لے سکتی ہے، لیکن حکومت کو اگر پاناما لیکس میں خود کو بری الذمہ قرار دینے سے فرصت ملے تو یہ کام بھی کرے۔

جس طرح عصری تعلیمی اداروں اسکول، کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کو ملک کی خدمت کے لیے تیار کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، اسی طرح دینی مدارس کے تیس لاکھ طلبہ و طالبات کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے آراستہ کرکے ملک و ملت کے لیے تمام شعبہ جات میں ان سے کام لینا بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔ آج جامعٓ الرشید جیسے بعض دینی مدارس اپنی مدد آپ کے ساتھ درس نظامی کے ساتھ ساتھ میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے، بی بی اے، ایم بی اے اور اس کے ساتھ کمپیوٹر، انگلش و صحافت وغیرہ مختلف کورسز کا انعقاد کر رہے ہیں، جو یقیناً ملک کی ترقی کے لیے فائدہ مند ہے، لیکن اگر حکومت دینی مدارس میں عصری تعلیم و فنون کے اخراجات اپنے ذمے لے تو یہ لاکھوں طلبہ ملک کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔

یورپ و امریکا میں ہزاروں مذہبی اسکول و کالجز حکومت کے پیسے سے چل رہے ہیں، وہاں مذہبی اداروں کو مکمل تعاون فراہم کیا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں حکومت اس کو اپنی ذمے داری نہیں سمجھتی۔ برصغیر پر انگریز کے غلبے سے پہلے دنیا بھر میں کسی جگہ دینی و دنیاوی تعلیم میں تفریق کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 1780ء سے پہلے مسلم دنیا میں ایک ہی نظام تعلیم ہوا کرتا تھا۔ تمام تعلیمی اداروں کے اخراجات حکومت وقت پر ہی لازم ہوا کرتے تھے، لیکن انگریزوں نے برصغیر میں آکر رفتہ رفتہ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں پر پابندی لگانا شروع کردی۔ جس کے نتائج یہ ہیں کہ آج ملک میں عصری و دینی نظام تعلیم الگ الگ ہوگئے اور حکومت نے دینی مدارس کے نظام تعلیم سے بالکل ہاتھ اٹھا لیے۔ حکومت کو معروضی انداز سے اس معاملے کا جائزہ لینا چاہیے کہ قومی خزانے سے جدید تعلیمی اداروں کو نوازا جاسکتا ہے تو دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے رقم کیوں نہیں دی جا سکتی؟ کیا مدارس میں زیر تعلیم بچے اسی سماج کا حصہ نہیں؟ عمران خان کا اقدام قابل داد ہے کہ انھوں نے سب کی مخالفت کے باوجود دینی مدارس کے طلبہ و طالبات کو معاشرے کا حصہ بنانے اور انھیں مرکزی دھارے میں لانے کی نہ صرف بات کی، بلکہ عملی اقدام بھی کیا ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 629060 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.