پنجاب میں ماتحت عدالتوں کو کمپیوٹرائز کرکے آن لائن کرنے کی تیاریاں

نامزد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ جو کہ عدالتی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے خواہاں نظرآتے ہیں جو کئی سالوں سے بنچ اور بار کے تعلقات میں بہتری، ماتحت عدالتی نظام کو کمپیوٹرائز اورآن لائن،عدالتی نظام کے ساتھ مصالحتی نظام اور عدلیہ پر سائلان کے اعتماد کی فضا ء بحال کرنے میں کوشاں ہیں یہ تمام ایسے کام ہیں جو اگر تکمیل تک پہنچ جائیں تو ہمارے عدالتی نظام میں نمایاں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ بہتری آسکتی ہے ۔

گو یہ کام مشکل ضرور ہے مگرپنجاب میں پہلے بھی ایک مثال موجود ہے یعنی لینڈ ریکارڈ کوکمپیوٹرائز کرنا جس سے پٹواری نظام اب خاتمہ کی طرف گامزن ہے ۔

پاکستان کی تمام عدالتِ عالیہ اورعدالتِ عظمیٰ پہلے ہی کمپیوٹرائز ہیں مگر اب ماتحت عدالتوں کو کمپیوٹرائز کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جس میں پنجاب نے اِس طرف پہلے توجہ کرلی ہے سب سے بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے ضلع کی تعداد بھی دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے لہٰذا ریکارڈ بھی دوسرے صوبوں سے کافی زیادہ ہے جس کی وجہ سے ماتحت عدالتوں کو آن لائن اور کمپیوٹرائزکرنے کا کام مرحلہ وار چندضلعوں میں شروع کیا گیاہے جن کو مکمل کرنے کے بعد اگلے ضلعوں تک اِس کا دائرہ وسیع کیا جائے گا اِس سلسلہ میں نظام کو آن لائن کرنے کی نگرانی ہائی کورٹ کے انسپکشن جج کریں گے اور کمپیوٹرائز کرنے کا عمل ایڈیشنل و ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی زیرِ نگرانی ہوگا۔

تجرباتی طور پر اِس وقت صرف ضلع شیخوپورہ کو کمپیوٹرائزکرکے آن لائن کردیا گیا ہے جس کی مانیٹرنگ انسپکشن جج جسٹس عابد عزیز شیخ کررہے ہیں اِس سلسلہ میں عدالتوں میں کیمرے نصب کیے گئے ہیں جس کا مقصد عدالتی نظام میں بہتری لانا ہے تاکہ بنچ اور بار کے تعلقات میں بہتری میں بہتری کے ساتھ ساتھ عدلیہ پر سائلان کے اعتماد کی فضا ء بحال کی جاسکے اور ماتحت عدالتوں کے ججوں کی نگرانی اور اِن کی کارکردگی بہتر کی جاسکے تاکہ انصاف کی بآسانی اور میرٹ پر فراہمی ہوسکے۔

آج کل لاہور بھی اُن مرحلہ وارا ضلاع میں شامل ہے جن کا عدالتی ریکارڈکمپیوٹرائز کیا جارہا ہے لاہور میں یہ کام سرانجام ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج میاں جاوید اکرم بیٹو کی زیر نگرانی چار سول جج صاحبان کر رہے ہیں جو اپنے روزمرہ کے عدالتی امور بھی اِس کام کے ساتھ دیکھ رہے ہیں جن کی وجہ سے کم از کم سیشن عدالتوں مقدمات کی روزمرہ لسٹ پیشی کمپیوٹرائز ہوچکیں ہیں جو اِس سلسلہ میں ابتدائی تبدیلی ہے جو رونما ہوچکی ہے۔

جہاں تک پرانے ریکارڈ کی بات ہے تو ابھی اُس کو کمپیوٹرائز کرنے کا کام نئے مقدمات کو کمپیوٹرائز کرنے کے بعد ہی کیا جائے گا دراصل پرانے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزکرنے کے عمل میں کافی وقت درکار ہوگاکیونکہ یہ ریکارڈ آزادیِ پاکستان سے لے کر آج تک کا ہے اِس کے علاوہ جیلوں کے نظام کوبھی آن لائن کرکے اِس کی مانیٹرنگ کا اختیار بھی متعلقہ سیشن ججز اور انسپکشن جج کو دینے کا منصوبہ بھی زیر ِغور ہے جس سے قیدیوں کی روزمرہ کی پیشیوں کے دوران عدالتی کاروائیوں پر نظر رکھی جاسکے گی۔

یہ سارا عمل لاہور ہائی کورٹ کی زیرنگرانی ہورہا ہے اگر کم از کم یہ نظام لاہور ہائی کورٹ جیسا ہی ہو جائے تو سائلان اپنے مقدمات کی معلومات بذریعہ ویب سائٹ ہی حاصل کرسکیں گے اور اُن کو اپنے مقدمات کی معلومات کے لئے اپنے وکلاء کے پاس یاپیشی کے علاوہ عدالتوں کے چکر نہیں لگانے پڑیں گے ۔

ماتحت عدالتوں کو کمپیوٹرائزکرکے آن لائن کرنا ایک احسن اقدام ہے جو صرف اِس لئے بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ دورِجدید کی اہم ضرورت ہے اور اِس نظام کے آنے سے سائلان کی مشکلات کو دور کیا جاسکے گا تاکہ انصاف کی بآسانی فراہمی اور انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔
 
Shahzad Imran Rana
About the Author: Shahzad Imran Rana Read More Articles by Shahzad Imran Rana: 68 Articles with 44495 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.