خمارؔ زندہ ہے

غزل اردو شاعری کی آبرو اور قدیم ترین صنف ہے ، جس کا نقطۂ آغاز عربی قصیدوں کی تشبیب ہے، فارسی میں اس صنف سخن کا چلن عام رہا اور اس نے مقبولیت کے اعلیٰ درجات طے کئے، اردو شاعری میں بھی غزل انتہائی اہمیت اور مرکزیت کی حامل رہی، ہر دور اور ہر زمانے میں غزل سرائی ہوتی رہی، اسکی نوک و پلک سنواری گئی، اس کے حسن میںاضافہ ہوتا رہا اور غزل اردو شاعری کی آبرو، اس کی پیشانی پر سجنے والا جھومر قرار پائی۔ ولی دکنی نے اس صنف سخت جاں کو رائج کیا، اگر چہ غزل کی ابتداء کے آثار اس سے قبل ملتے ہیں۔ نصرتی اور وجہی کے یہاں غزل کے نمونےموجود ہیں۔ گو کہ غزل شاعری کا وہ جزو لاینفک اور اظہار جذبات کا طریقہ ہے جو ہمیشہ اردو شاعری میں رائج رہا، لیل و نہار کی گردش، شب و روز کا گذران، اس کی قدر نہ گھٹا سکا،اس کی شان اور وقار کو ماپال نہ کرسکا، ہر زمانے میں غزل کہی جاتی رہی اور بہت سے شعراء وہ ہیںجنہوں نے غزل ہی کو اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی کا ذریعہ بنایا، غزل کی زبان میں اپنے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی، حالات کیسے بھی رہے وقت کے تقاضوں کی مانگ جو بھی ہوئی، انہوں نے غزل کے دامنِ خوبرو کو نہیں چھوڑا، مخالفت جھیلی یاداد و تحسین سے سرشار ہوئے مگر دامن غزل سے وابستہ رہے۔ان ہی شعراء میں ایک بڑا نام خمار بارہ بنکوی کا بھی ہے، جو اس سرزمین پر پیدا ہوئے جو اپنی ادبی خدمات میں یکتا اور نابغہ جہاں ماحول میں ادب، تہذیب کی بازگشت ہے اور وہاں پیدا ہونے والے ہر شخص کے خون میں اردو کی محبت دوڑتی ہے، اردو اس خطے کے باشندوں کی محبوبہ ہے، ادب سے وہ عشق کرتے ہیں، خمار بھلا اس ماحول سے اپنے آپ کو کیسے جدا کر سکتے تھے اور وہ بھی نکل پڑے اس سفر پر جس کی ماحول دعوت و ترغیب دے رہا تھا، جو ان کے خمیر میں پیوست تھا اور ان کے قلب و جگر میں رچا بسا تھا۔ کم عمری میں ہی شعر گوئی شروع کردی، 1919ء میں سرزمین بارہ بنکی )اودھ( میں پیدا ہوئے خمار نے 14 سال کی عمر سے ہی شاعری کا آغاز کردیا، اس کے بعد سے تادم حیات ادبی خدمات انجام دیتے رہے، ابتدائی سفر میں تین نظمیں انہوں نے کہیں، اس کے بعد تمام عمر غزل گو شعراء میں ان کا شمار رہا اور وہ خود بھی اس کے قائل تھے کہ غزل ہی ان کی پہلی پسند ہے، حالاںکہ وقت کی کروٹ نے غزلکو دبانے کی کوشش کی اور ترقی پسند تحریک نے غزل کی مخالفت کی، اسے بے وقت کی راگنی کہا اور نظم کو رائج کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر اس مشکل دور میں بھی خمار غزل سرائی کے فریضہ کو ادا کرتے رہے اور کہتے رہے کوئی اے خمار ان کو میرا شعر نذر کردے وہ مخالفین مخلص جو معترف نہیں غزل کے اور اپنے سفر پر یوںہی مستی اور کیف و طرب کے ساتھ رواں دواں رہے اس مخالفت نے انہیں کبھی سوچنے پر مجبور کیا اور نہ رکنے اور ٹھٹھکنے پر اور نہ یہ ان کے پائوں کی زنجیر ثابت ہوئی۔ ان کی شاعری زندگی کی ترجمان جذبات و احساسات کا مظہر ہے، تجربات کی آماجگاہ زندگی کے اتار چڑھائو ان کی شاعر کے حسن کو دوبالگی عطا کرتے ہیں اور خاص طور سے وہ کائنات کو دیکھ کر یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمسایوں کا خیال رکھا جائے، اپنی آسائش، آرائش میں مست ہو کر انسانیت کا فرض نہ بھولا جائے۔ ملاحظہ کیجئے یہ شعر اور اندازہ کیجئے ان کے جذبۂ انسانیت کا: ڈوبا ہوا جباندھیرے میں ہمسائے کا مکان ہے تو اپنے مکاں میں شمع جلانا گناہ ہے اگر وہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا شعر اس طرز پر نہ کہتے توبھی میرے دعویٰ کی تصدیق کے لئے یہی شعر کافی تھا، جب کہ وہ انسان کو آدمی بننےکی تاکید کرتے رہے۔ مثال کے طور پر : سب کچھ ہورہا ہے اس ترقی کے زمانے میں مگر کیاغضب ہے آدمی انسان نہیں ہوتا حسن و عشق اور روایتی مضامین سے بھی وہ جدا نہیں ہیں، عشق کا پرتو بھی ان کی شاعری میں ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یہی خمار کی شاعری کی مرکزیت ہے مگر حسن کے بیان میں بھی وہ اختر شیرانی کی طرح بے حجاب نہیں ہوتے، ان کے لہجہ احتجاجی نہیں ہوتا، درد کو پیش کریں محبوب سے شکوہ کناں ہوں، نرم لہجہ خمار کی پہچان ۔ مثال ملاحظہ کیجئے: سمجھاتے قبل عشق تو ممکن تھا بنتی بات ناصح غریب اب ہمیں سمجھانے آئے ہیں اور یہ بھی دیکھئے : آنکھوں کے چراغوں میں اجالے نہ رہیں گے آجائو کہ پھر دیکھنے والے نہ رہیں گے ان دونوں اشعار سے ان کے اظہار اور لہجہ کی نرمی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ درد و الم اور تکلیف کو بھی ان کی شاعری میں خاصا مقام ملا مگر درد سے چور نہیں ہیں، ٹوٹے اور بکھرے نہیں بلکہ غم کوبھی متاع عزیز گردانتے ہیں اور دنیا کی تکالیفومصائب کے مقابلے انہیں وہ غم عزیز ہیں جو محبوب کی ستم ظریفی ہوں، محبت کا صدقہ ہوں، اس کی وہ بڑی قدر کرتے اور کہتے ہیں غم دنیا بہت ایذا رساں ہے یہاں اے غم جاناں کہاں ہے گو یہ کہ غم جاناں ان کی نظر میں دنیاوی تکالیف کا علاج وہ اپنے غموں کو اپنے ہی انداز میں سنبھالتے ہیں اور ان سے لگائو رکھتے ہیں اور اپنے اسی خوبصورت احساس کو الفاظ کی لڑیوں میں پرو کر انسان ایک سبق دیتے ہیں جو اس طرز کا ہوتا ہے: گذرے ہوئے زمانے کو یاد نہ کر کبھی خمار اور جو یاد آہی جائے اشک بہا کے بھول جا وہ غم دنیا میں بھی ڈوبنے، الجھنے اور اسی کا ہو کر رہنے کے مدعی نہیںہیں، وہ تو اسے پیچھے چھوڑ دینے کی وکالتاور مستقبل کو مرتب کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ خمار کلاسیکی ادب میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں، ان کی غزلوں میں تغزل کی چاشنی ہے، سادگی ان کی پہچان، عمدہ ترنم جو سامعین کومست و مگن کردیتا تھا، داد و تحسین کا اٹھتا ہوا شور جو فضا میں گونجتا تھا یہ خمار کی مقبولیت کی واضح دلیل اور جگر ، فانی، حسرت، اصغر جیسے شہ سواروں اور اردو ادب کے شہنشاہوں کے درمیان اپنی حیثیت تسلیم کرانا عظمت کا آئینہ دار ہے، اس سب کے باوجود خمار کے یہاں مشکل الفاظ، مشکل تراکیب نہیںہیں، سادہ انداز، آسان الفاظ، عمدہ بحریں، ان کی پہچان ہے، ان کی شاعری ایجاز، ایہام،تلمیح سے خالی کہیں، کوئی مثال مشکل ہی سے نظر آئے گی مگر خمار دل کے شاعر وہ انسان کے جذبات پر حکومت کرتے ہیں اور جب تک انسان زندہ ہے تب تک خمار کی شاعری زندہ رہے گی، سنی اور پڑھی جاتی رہے گی۔ اگر چہ ان کے یہاں وہ گہرائی و گیرائی نہیں جو فیض اور اس طرح کے دیگر شعراء کے یہاں ہیںمگر وہ عظیم ہیں اور آج بھی ہمارے دلوں پر انکے کلام کی حکمرانی ہے اور آج بھی زبان ''اف محبت ہائے جوانی'' گنگناتی ہے اور کان ان کی غنائیت اور ترنم کے اسیر ہیں اور ان کے بہت سے اشعار کو موقع بہ موقع زبانوں پرجاریہونا ان کے فن کا اعزاز ہے، اردو کا یہ عظیم خادم 19 فروری 1999ء کو داغ مفارقت دے گیا۔ آج بھی جب یہ دن آتا ہے ان کی یاد بے چین کرتی ہے اور ان کا کلام قرار کا باعث ہوتا ہے اور ان کے زندہ ہونے کا گمان پیدا کرتا اور قلب کو تسلی اور اطمینان کے احساسات سے مستفیض کرتا ہے، ان کے مجموعے رقص مئے اور حدیث دیگراں کے نام سے شائع ہوچکے ہیں، ان کی اصلی نام حیدر خان تھا، آج بھی ان کا یہ شعر زبان زدعام و خاص ہے: محبت کو سمجھنا ہے تو جود محبت کر ناصح کنارہ سے کبھی اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا اور اس بات کا غماز ہے کہ خمار کا فن ابھی زندہ ہے۔
rahat ali siddiqui
About the Author: rahat ali siddiqui Read More Articles by rahat ali siddiqui: 82 Articles with 75332 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.