محبوبہ جی کے شکوے سے حسیب درابو کی لن ترانی تک

شراب خباثت کا خزانہ

22جون 2016ء کوجموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ جی نے علماءِ کرام اور خطباء حضرات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہو ئے کہا کہ یہ لوگ ماحولیات کے بگاڑ،سماجی بدعات اور سنگین مسائل کے خلاف اْف بھی نہیں کرتے ہیں تاہم صنعتی پالیسی اور سینک کالنویوں کے خلاف مساجد میں شور مچاتے ہیں۔اس کے بعداب 25جون 2016ء کو وزیر خزانہ حسیب درابو نے شراب پر پابندی لگانے سے یہ کہتے ہو ئے انکار کیا کہ We cannot enforce our decisions, there is a freedom of choice and let the people decide what they want to do,” he said adding, “Let us live in free society where the choice of one is not enforced on the others.”ہم اپنے فیصلے دوسروں پر مسلط نہیں کر سکتے ہیں لوگوں کو اُن کی پسند اور خواہش کے انتخاب کی مکمل آزادی حاصل ہے لہذا انھیں اپنی پسند کا فیصلہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے ۔مکمل آزاد معاشرے میں رہ کر ایک کی پسند دوسروں پر مسلط نہیں کر دی جاتی ہے ۔

حیرت کا مقام یہ ہے کہ محبوبہ جی کو یہ تک نہیں معلوم کہ یہا ں کے علماء اورخطباء مساجد کے اندر اور باہر کیا کیا کرتے اورکہتے ہیں جس کی وجہ خالصتاََ یہ ہے کہ انھیں نہ علماء سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی خطباء سے کوئی رشتہ ۔ان کے ارد گرد جو لوگ نظام حکومت چلاتے ہیں ان میں بھی بہت کم مسجدو محراب سے واقف ہیں ۔المیہ یہ کہ جہاں وہ خود نہیں جاتی ہے نہ ہی وہ ان کی سنتی ہے انہی پر اس نے اسمبلی میں تنقید کی ۔تنقید نہ بری ہے اور نہ ہی علماء ان باتوں سے مشتعل ہوتے ہیں مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ علماء کو کیا کہنا چاہیے اور کیا کرنا چاہیے اس کا فیصلہ کون کرے گا؟علماء یا وہ حکمران جن کا مذہب سے ایک ’’رسمی‘‘تعلق باقی رہا ہے یقین نہ آئے تو کیا 25جون 2016ء کو وزیر خزانہ حسیب درابو کا یہ شرمناک بیان اس بات کی دلیل ہے کہ ہم شراب پر پابندی نہیں لگا سکتے ہیں ؟

افسوس صد افسوس یہ کہ وزیر خزانہ دوران تقریریہ تک بھول رہے ہیں کہ’’ اصل مسئلہ‘‘ کشمیر میں ’’مرضی مسلط‘‘کرنے سے ہی پیدا ہو چکاہے ۔یہاں 1947ء سے خون کا دریا اسی لئے بہتا آرہا ہے کہ کشمیریوں پر ان کی مرضی کے برعکس مرضی اور خواہش کے خلاف اپنی خواہش دلی والوں نے مسلط کر رکھی ہے جس سے کشمیر میں ایک لاکھ لوگ مارے جا چکے ہیں پر کیا کشمیر جیسی مسلم اکثریتی ریاست میں شراب کو جواز کیلئے ’’چندہزار اشخاص کی پسند‘‘مسلط کرنا ( freedom of choice)کے خلاف نہیں ہے اگر ہے اور یقیناََ ہے تو پھر آپ کے آزاد سماج میں آزاد پسندی کا مطلب کیا ہے حالانکہ کشمیر اسمبلی میں کشمیری مسلمانوں کی ترجمانی کرنے والے ممبران کو ڈوب مرنا چاہیے کہ آج سے کئی سال پہلے سابق وزیر خزانہ عبدالرحیم راتھر اور اب حسیب درابو نے بھی اسمبلی میں انتہائی بھونڈی دلیل پیش کرتے ہو ئے شراب پر پابندی لگانے سے انکار کردیا حالانکہ جموں و کشمیر مسلم اکثریتی ریاست ہے اور یہاں شراب سے لوگ نفرت کرتے ہیں رہے چند پینے والے وہ ایک چھوٹی سی اقلیت ہے جن کی ’’مرضی‘‘کا خیال کسی بھی معاشرے میں ممکن نہیں ہے ۔

اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کوشراب سے سختی سے منع کرتے ہوئے فرماتا ہے ’’اے ایمان والو! یہ جو شراب، جوا ، بت اور پانسے سب گندے شیطانی کام ہیں، سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ، شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ تم میں دشمنی اور بیر بذریعہ شراب اور جوئے ڈالے۔اور روکے تم کو اﷲ کی یاد سے اور نماز سے، سو اب تم باز آؤ گے؟ اور حکم مانو اﷲ کا اور حکم مانو رسول کا اور بچتے رہو، پھر اگر تم پھر جاؤگے تو جان لو کہ ہمارے رسول ﷺ کا ذمہ صرف پہنچادینا ہے کھول کر‘‘۔(المائدہ۔9،19،(29حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے کہ ہمارے پاس ایک یتیم کی شراب رکھی ہوئی تھی، میں نے اس کے بارہ میں(پابندی لگتے ہی) آپﷺ ا سے دریافت کیا (آپؐ نے اس شراب کو ضائع کرنے کا حکم دیا) میں نے عرض کیا کہ وہ تو ایک یتیم کی ملکیت ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اس کو بہادو‘‘(مشکوٰۃ)حضرت جابر ؓسے روایت ہے، آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ہر نشہ آور مشروب حرام ہے اور اﷲ تعالیٰ نے عہد کررکھا ہے کہ شراب پینے والوں کو دوزخیوں کے زخموں کی گندگی پلائی جائے گی، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ’’طینۃ الخبال‘‘ کیا چیز ہے؟ فرمایا کہ: دوزخیوں کاپسینہ یا دوزخیوں کا پیپ ہے۔(مشکوٰۃ)نبی کریم ﷺ نے فرمایاجو شخص ایک بار شراب پئے اﷲ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں فرمائیں گے، اگر وہ توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلی جائے گی، دوبارہ شراب پئے تو پھر چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوگی اور توبہ کرلے تو اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیں گے، سہ با ر شراب پئے تو پھر اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں ہوگی اور توبہ کرلے تو توبہ قبول ہوگی اور اگر چوتھی بار شراب نوشی کا مرتکب ہو تو پھر اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں ہوگی اور اب اگر توبہ بھی کرنا چاہے تو اندیشہ ہے کہ اس کی توفیق نہ ہو، بلکہ اسی جرم پر اس کا خاتمہ ہو، اور اﷲ تعالیٰ اسے ’’نہرِ خبال‘‘ (جس سے دوزخیوں کی پیپ بہتی ہے) پلائیں گے‘‘۔(مشکوٰۃ)

ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! ہم لوگ سرد علاقے کے باشندے ہیں اور محنت بھی بہت کرتے ہیں، سردی اور مشقت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم گیہوں سے ایک مشروب تیار کرکے استعمال کیا کرتے ہیں، فرمایا: کیا وہ نشہ آور ہوتا ہے؟ عرض کیا، جی ہاں! نشہ تو اس میں ہوتا ہے، فرمایا: تو پھر ا س سے اجتناب لازم ہے، عرض کیا: لوگ تو اس کو ترک نہیں کریں گے، فرمایا: اگر وہ لوگ اس کو نہیں چھوڑتے تو ان سے جنگ کرو‘‘۔(مشکوٰۃ)حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے شراب، اس کے پینے والے، اس کے پلانے والے، اس کے خریدنے والے، اس کے بیچنے والے، اس کے کشید کرنے والے،اس کے کشید کرانے والے، اس کے اٹھانے والے اور جس کی طرف لے جائی جائے (ان سب) پر لعنت کی ہے اورایک روایت میں ہے کہ اس کی قیمت کھانے والے پر بھی لعنت کی ہے‘‘۔(ابوداؤدو،ابن ماجہ)حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے یہودیوں پر تین بار لعنت فرمائی ہے، اﷲ تعالیٰ نے ان پر چربی کو حرام کیا تو انہوں نے اس کو بیچ کر ان کی قیمتوں کو کھانا شروع کردیا، اﷲ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کے کھانے کو حرام کرتے ہیں تو اس کی قیمت کو بھی حرام کرتے ہیں ۔(ابوداؤد)

ان حوالوں کا مطلب صرف یہ بتانا ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست میں جو چیز اکثریتی عقائد اور مزاج سے متصادم ہے اور کشمیری مسلمان اس پر پابندی کے حق میں ہوں تو پھر ان کی مرضی کا احترام کیوں نہیں ؟جہاں تک ہندؤ برادری کا تعلق ہے حسیب درابو اور محبوبہ جی یہ بھی بتادیں کہ کون ریاستی ہندؤباشندہ اس لعنت کے چلن اور جواز کے حق میں ہے ؟ممکن ہے کہ ایک ’’محدودجموی ہندؤ کاروباری اقلیت‘‘ اس کے فروغ کے حق میں ہو جن کی اکثریت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ہے اس لئے کہ ریاستی آئین کے مطابق اگر کسی بھی ’’الیکشن اُمیدوار ‘‘کوچناؤ کے وقت سو میں اکاون(51)بیوقوف،احمق،جاہل اور پاگل اپنا ووٹ دیدے تو وہ اُس امیدوار کے مقابلے میں کامیاب قرار پائے گا جس کو صرف انچاس(49)عقل مند ،دانشور،مصنفین،علماء ،ڈاکٹر،انجینئر اور وکلانے ووٹ دیا ہو ۔کیا حسیب درابو ایک آزاد سوسائٹی میں اکثریت کا احترام ممکن بنا پائیں گے ؟ویسے بھی شراب کے مسلئے میں کشمیر اسمبلی میں موجود مسلمان ممبران کو ڈوب مرنا چاہیے کہ ’’بہار جیسی ہندؤ اکثریتی ریاست‘‘اس کے مضر صحت اور سماجی و معاشرتی بگاڑ کے لئے پابندی لگانے کے لئے متحد ہو کر پابندی لگواسکتے ہیں مگر سرزمین اولیاء کے سیاستکار نہیں ۔شاید اس لئے کہ یہاں ایوانوں اور اونچے عہدوں پر تعینات بیروکریسی خود اس کی خوگر ہے لہذا وہ اس پر پابندی کے حق میں کیسے ہو سکتے ہیں ؟

امریکہ محکمہ انصاف کے بیورو آف جسٹس کے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں صرف1996ء کے دوران میں زنا بالجبرکے روزانہ 2713 واقعات پیش آئے، اعدا و شمار کے مطابق ان زانیوں میں اکثر یت ان کی تھی جو ارتکاب جرم کے وقت نشے میں مدہوش تھے۔ سروے کے مطابق عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کیواقعات بھی زیادہ تر شراب نوشی کی حالت میں ہی کئے گئے ہیں۔حساب و کتاب کے اعتبار سے 8فیصد امریکی محرمات سے مباشرت اسی شراب نوشی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ہماری ریاست کا المیہ یہ ہے کہ یہاں جائز مطالبات کو ’’ہندؤمسلم ‘‘یا ’’ضدِ ہندوستان‘‘کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے شاید کشمیر کے ہندنواز سیاستدانوں کو یہ خلش بھی اضطراب میں ڈالتی ہے کہ کہیں ان کا اندراج بھی انتہا پسندوں کی کھاتے میں نہ کیا جائے اس لئے کہ یہاں کرسیاں اور مناصب کشمیریوں کو صلواتیں سنانے سے ہی فراہم کی جاتی ہیں ،سچائی یہ ہے کہ بھارت بھر میں کشمیری مسلمانوں کو زچ کرنے کا فیشن عام ہے اور یہ بھارت نوازی کی دلیل سمجھی جاتی ہے ۔زیادہ سیکولر کا مطلب یہاں یہی لیا جاتا ہے کہ کشمیریوں کی مرضی کے خلاف بات کی جائے ۔پھر جب اس ناانسافی پر یہاں کے علماء تنقید کرتے ہیں تو وزیر اعلیٰ کو بھی اشتعال آتا ہے کہ ممبر و محراب پر سینک اور ہندؤ کالنیوں کے خلاف تقریریں کی جاتی مگر سوشل اشوز پر نہیں حالانکہ یہ ہمالیہ سے بھی بڑا جھوٹ ہے کہ کشمیر کے علماءِ کرام اور خطباء ان مسائل پر خاموش رہتے ہیں ۔ان سے کشمیر کے بعض آزادی پسند ناراض ہی اسی بات پر ہیں کہ وہ سوشل اشوز پر بہت بولتے ہیں مگر ہندوستان کی جارحیت کے خلاف نہیں ۔بہتر ہے کہ شراب پر پابندی لگا کرجموں و کشمیر کو اس لعنت سے نجات دیکر تاریخ میں اپنا نام اچھوں میں درج کرانے کا آغاز محبوبہ جی اور ان کی حکومتی ٹیم ہی کریں اس لئے کہ آج نہیں تو کل اس پر پابندی لگنی ہی ہے عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ یہ نیکی آپ لوگ ہی اپنے نامہ اعمال میں درج کراکے دنیا میں نیک نام ہو جائے، نہیں تو آپ کو ہر وقت علماء اور خطباء کی تنقید سننے اور پڑھنے کے لئے تیار رہنا چاہیے اس لئے کہ ان کی خاموشی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ناقابل قبول جرم ہے جس کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے ہیں ۔

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 83121 views writer
journalist
political analyst
.. View More