آہ ۔۔۔۔۔ امجد صابری

آقائے دو جہاں سرور ِکونین حضرت محمد ﷺ کا نام لیوا امجد صابری ’’تاجدارِ حرم ہو نگاہ ِکرم‘‘ کی صدائیں لگاتا منوں مٹی تلے جا سویا، لیکن حکمرانوں کے سر پر آسمان گرا اور نہ ہی زمین کا سینہ شک ہواکہ انہیں اپنے اندر دبوچ لیتی اور پوچھتی کے بتاؤ تو سہی کیا تمہیں پاکستان میں سیاہ و سفید کا مالک اسلئے بنایا گیا ہے کہ تمہاری حکمرانی میں اسکے سوختہ بخت باسیوں کا لہو کوچہ و بازار میں پانی کی طرح بہایا جائے؟ کیا تم اس لئے حکمران بنائے گئے ہو کہ کراچی کی سڑکوں سے قوم کی سینکڑوں بیٹیاں دن دھاڑے اُٹھالی جائیں لیکن تم سیکورٹی حصار میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہو؟ کیا تمہیں اقتدار اس لئے دیا گیا ہے کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ملک کے طول و عرض میں سینکڑوں سہاگنوں کے سہاگ اُجاڑ دیے جائیں اورانکے بچوں کو یتیم کردیا جائے لیکن تم قاتلوں اور اغوا کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے اپنی تجوریاں بھرنے میں مگن رہو؟ کیا تمہیں اسلئے ارباب اختیار بنایا گیا ہے کہ لوگوں کے کندھے اپنے پیاروں کے لاشے اُٹھا اُٹھاکر شل ہوجائیں لیکن تم اپنی سیاہ مستیوں میں محو رہو ؟ مظلوموں کی سسکیاں اور نوحے تمہارے عالیشان محلوں کی آہنی دروازوں سے ٹکرا کر دم توڑ دیں لیکن تم پھر بھی خواب غفلت سے بیدار ہونے کا نام نہ لو؟کیا عنان حکومت تمہارے ہاتھ میں اسلئے تھمایا گیاہے کہ ہزاروں ماؤں کے لخت جگر چھین لئے جائیں اور تم قوم کے پیسے پرکبھی بیماری اور کبھی ملکی مفاد کے نام پر غیر ملکی دوروں کے مزے اُڑاتے رہو؟ کیا امن محض اس مختصر وقفہ کا نام بن کر رہ گیا ہے جو ایک لاش کے گرائے جانے کے بعد دوسری لاش کے گرنے تک کے درمیان ہے؟
حبیب جالب مرحوم نے بھی کیا خوب کہا تھا
اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی
مخلوق خدا جب کسی مشکل میں ہو پھنسی
سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی

دُنیا بھر میں پاکستان کی پہچان نامور نعت خواں اور قوال امجد صابری کا آخر قصور کیا تھا؟ کیا عاشق رسولﷺ ہونا اِسکا سب سے بڑا جرم تھا؟ کیا گزشتہ تین دھائیوں کے دوران پاکستان سے لیکر ہندوستان تک اور ہندوستان سے لیکر دُنیا بھر میں اُردو سمجھنے والوں میں عشقِ خدا اور عشقِ حبیب ِخدا ﷺ کی جوت جگانا امجد صابری ، اسکے والد مرحوم اور چچا مرحوم کی ایک ایسی ناقابل معافی خطاء تھی کہ جسکی پاداش میں امجد صابری کو کراچی کی ایک مصروف شاہراہ پر انتہائی درندگی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ؟ کیا امجد صابری کا قصور یہ تھا کہ اس نے پاکستان کا نام دُنیا بھر میں روشن کیا ، فن ِ قوالی کو نئی جہتوں سے متعارف کرواکر نوجوان نسل میں مقبول کیااور منقبت گوئی میں نئی بلندیوں کو چُھوا؟ یقین نہیں آتا کہ انتہائی خوش گفتار ، خوش اخلاق اور ہر لمحہ چہرے پر بھینی سی مسکراہٹ سجائے رکھنے والا سرمایہ پاکستان امجد صابری اب ہم میں نہیں ہے۔میں سوچ رہا ہوں کہ فن قوالی میں پیدا ہونے والا یہ خلاء کیا اب کبھی پُر ہوسکے گا ؟ دوسرا امجد صابری اب کیسے اور کہاں سے آئے گا، جو عشق مصطفیﷺ میں ڈوب کر جب نعت یا قوالی پڑھتا تو سامعین پر ایسی رقت طاری ہو تی کہ بے اختیار آنکھوں سے آنسوں کی جھڑی لگ جاتی ۔تین چار روز کے مختصر وقفے کے دوران کراچی میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے صاحبزادے اویس شاہ کے اغوا اور امجد صابری کے قتل کے اہم واقعات نے ایک بار پھر بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔سب سے بڑا سوالیہ نشان کراچی میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت جاری آپریشن کی کامیابیوں کے ضمن میں کئے گئے اب تک کے دعوؤں پر ہے ۔دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کراچی کے ہر چوک اور چوراہے پر پولیس ، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکار بڑی تعدا د میں موجود ہیں تو پھر کیسے مسلح اغوا کار انہیں سڑکوں اور چوراہوں سے گزرکرچیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے صاحبزادے کو گن پوائنٹ پر اغوا کرکے باآسانی اپنے ساتھ لیجانے میں کامیاب رہے ؟ کیونکر مسلح حملہ آور امجد صابری کا اسقدر آسانی سے پیچھا کرنے ، انہیں قتل کرنے اور بعد ازاں فرار ہونے میں کامیاب رہے؟

تیسرا سوال نہیں بلکہ خود اُس سوال کا جواب ہے کہ جن معاشروں میں انصاف ختم ہوجائے وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں ۔۔۔تاریخ گواہ کے ایسے معاشروں کا مقدر صرف برباد ی ہے ۔ جب عدالتیں عام آدمی کو انصاف فراہم میں ناکام ہوجائیں اور انصاف صرف صاحب اقتدار و ثروت کے گھر کی لونڈی بن کر رہ جائے تو پھر ایک ایسا منحوس چکر چلتا ہے کہ جس میں کیا امیر اور کیا غریب، سبھی پستے ہیں ۔

آج چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ اور انکے اہل خانہ پولیس ، رینجرز اوردیگر ریاستی اداروں کی موجودگی کے باوجودبذات خود اپنے فرزند ارجمند کی جدائی میں بے بسی کی تصویر بنے ریاست ہی سے انصاف کے متلاشی نظر آتے ہیں ۔ آج وہ بھی کراچی کہ ان سینکڑوں افراد کی صف میں کھڑے ہیں جو گزشتہ تین دھائیو ں کے دوران کراچی سے اغوا ہونے والے اپنے پیاروں کی واپسی کے انتظار کی سولی پر چڑھے ہوئے یہ دُھائیاں دے رہے ہیں کہ ’’ہائے کوئی ہمارے پیاروں کو ہمیں واپس لوٹا دے ‘‘۔اس عرصہ کے دوران اگر ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی دیگر کاروائیوں کا نشانہ بننے والے بے گناہ افراد کا ذکر کیا جائے تو شاید یہ ممکن نہیں کیونکہ یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ ان میں سے بیشتر کے تو اب نام بھی یاد نہیں ۔ ان میں عام لوگ بھی ہیں اور خواص بھی ۔ دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز اور سماج دُشمن عناصرکا پیغام بہت واضح ہے کہ وہ جب چاہیں اورجیسے چاہیں ،با آسانی ٹارگٹ کا انتخاب کر کے کاروائی کرسکتے ہیں ۔ ملزمان کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے سندھ حکومت کے وزیر منظور وسان عوام کو نوید سناتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں دہشت گردی کی مزید کاروائیاں ہونے کے قوی امکانات ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں عوام کو بتایا جارہا ہے کہ سندھ حکومت اپنے شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہے ۔

ایسے میں معروف فنکار فخر عالم نے ،جو امجد صابری کے قتل پر خاصے سیخ پا نظر آتے ہیں ، ا س لاقانونیت کے خلاف کراچی سے تعلق رکھنے والی تمام فنکار برادری کو متحد ہو کر موٗثر آواز اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں ۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاست پاکستان میں اب جان و مال کے بنیادی حق کے لئے بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو جتھے بنانے پڑیں گے ، حالانکہ اس سے پہلے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے مختلف جتھے بنا رکھے ہیں ۔

خیر اگر ایسا ہی ہے تو پھر اب عوام کو بھی اپنے حق کے لئے ایک بڑا جتھا بنانا پڑے گا ۔ وہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ
ہر شخص سر پہ کفن باندھ کے نکلے
حق کے لئے لڑنا توبغاوت نہیں ہوتی
 

Ahsan Zad
About the Author: Ahsan Zad Read More Articles by Ahsan Zad: 3 Articles with 1960 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.