بہترین اداکار٬ تماشا میرے آگے۔۔۔

عامر لیاقت حسین کو میں اس وقت سے جانتا ہوں کہ جب وہ کراچی سے شائع ہونے والے ایک اخبار روزنامہ پرچم کا ایڈیٹر تھا۔ اس وقت وہ ڈاکٹر بھی نہیں تھا۔ روزنامہ پرچم اس وقت ایم کیو ایم کا نمائندہ اخبار سمجھا جاتا تھا۔میں اس زمانے میں روزنامہ حریت میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ہوٹل خیر آباد میں ایک دو بار عامر لیاقت سے سیاسی مباحثہ بھی ہوا۔ مجھے نہیں معلوم کہ عامر لیاقت حسین کو میرا چہرہ اور میرا نام یاد بھی ہے کہ نہیں کیونکہ جو شہرت اسے ملی وہ بہت کم لوگوں کے نصیب میں آتی ہے۔ اس حقیقت میں کسی قسم کا کوئی مبالغہ یا دو رائے نہیں کہ وہ نام اور پہچان جو ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے حصہ میں آئی اس کا لوگ صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ میں کل بھی عامر لیاقت حسین کی صلاحتوں کا معترف تھا ، میں آج بھی اس کی صلاحتوں سب سے زیادہ تسلیم کرنے والا صحافی ہوں۔ میں کل بھی کہتا تھا کہ عامر بہترین ادا کار ہے میں آج بھی اسی بات پر قائم ہوں کہ وہ ایک بہترین اداکار، بہترین ڈیبیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی آواز اور سریلی آواز رکھنے والا اشخص ہے۔ہر سال رمضان المبارک میں وہ یہ بات ثابت بھی کرتا ہے کہ اس سے زیادہ با صلاحیت اداکار شاید پاکستان کی پوری انڈسٹری میں نہیں ہے کہ جو ہر رنگ میں رنگ جاتا ہے، ہر کردار اپنے اوپر طاری کرلیتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہر کردار میں اس قدر ڈوب جاتا ہے کہ دیکھنے والے کو احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنے سامنے موجود کردار کر دیکھ رہا ہے یا اس کے سامنے عامر لیاقت حسین ہے۔ رمضان نشریات ہی کو لیجئے، کبھی اس میں وہ ایک بہترین مذہبی اسکالر کا کردار ادا کرتا ہے تو واقعی دیکھنے والوں کو احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک مذہبی اسکالر کو دیکھ رہے ہیں ، وہ ایک مذہبی اسکالر کو سن رہے ہیں۔ دین کے معاملات پر عامر لیاقت حسین مذہبی اسکالر بن کر کیا کیا مباحثے کرتا ہے ، کیا کیا نکات اٹھاتا ہے، کس روانی سے قرانی آیات اور احادیث پڑھتا ہے۔ کیسے کیسے علماء کو اپنے ساتھ لیکر بیٹھتا ہے، یعنی دیکھنے والوں کوکہیں یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیتا کہ ان کے سامنے مذہبی اسکالر کے روپ میں عامر لیاقت حسین بیٹھا ہے۔ لوگ واقعی اسے ایک سچا ، با عقیدہ اور با عمل مذہبی اسکالر ہی سمجھنے لگتے ہیں وہ روتا ہے تو اس کے ساتھ رونے لگتے ہیں ، وہ ہنستا ہے تو اس کے ساتھ ہنسنے لگتے ہیں، یہی تو فن اداکاری کا سب سے بڑا کمال ہوتا ہے کہ کردار دیکھنے والوں کو اصل اور نقل کی پہچان ہی ختم ہو جائے۔اسی رمضان نشریات میں جب عامر لیاقت ایک مسخرے کا روپ دھارتا ہے تو ایسی ایسی باتیں کرتا ہے کہ ہنسا ہنسا کر لوگوں کے پیٹ میں بل ڈال دیتا ہے۔ کیا کیا جملے کستا ہے، کیا کیا فقرے چست کرتا ہے کہ سن کر ایسا محسو س ہوتا کہ جیسے عامر لیاقت حسین صرف اسی کردار کے لئے خلق ہوا ہو۔ پھر جب نعت خوانی کی باری آتی ہے تو ایک مرتبہ پھر عامر لیاقت حسین ایک نبی کے ثناء خواں کا روپ دھارلیتا ہے۔ ایسی اداکاری کرتا ہے کہ خود بھی اشکوں کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے اور سننے والوں کو بھی رونے پر مجبور کر دیتا ہے۔مذہبی اعتبار میں مخصوص اور عبادت والی راتوں میں بھی عامر لیاقت حسین کی اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔دعاؤں کے دوران کیا سماء باندھتا ہے کہ دیکھنے والے اور سننے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ دعائیں سن کر لوگوں کی ہجکیاں بندھ جاتی ہیں۔پھر جب رمضان نشریات کے دوران عامر لیاقت حسین ایک باورچی کے روپ میں آتا ہے تو کوئی بھی دیکھنے والا اس کی بات غور سے سنے بغیر نہیں رہ سکتا اس کی ر یسی پیز کوسمجھے اور پکائے بغیر اس کا ٹی وی کے سامنے بیٹھنا بے کار سا ہو جاتا ہے۔پھر عامر لیاقت حسین نیلام گھر میں جس طرح اچھلتا کودتا ہے اور نئے نئے طریقوں اور انداز سے حاضرین اور سامعین کو لطف اندوز کرتا ہے وہ مناظر بھی دیکھنے سے تعلق ر کھتے ہیں۔کبھی کو دکر ادھر جا رہا ہوتا ہے کبھی کود کر ادھر چھلانگ لگا رہا ہوتا ہے کہ دیکھنے والوں کو مداری اور عامر لیاقت حسین میں تمیز ہی ختم ہو جاتی ہے۔ پھر کوئی ناظرین کو بتاتا ہے کہ بھائی یہ مداری نہیں ہیں یہ تو عامر حسین ہیں تو دیکھنے والے مداری کے سحر سے کچھ نکل پاتے ہیں لیکن کچھ مداری ہی کے سحر میں رہتے ہیں۔جب عامر لیاقت حسین کی وابستگی ایک سیاسی جماعت سے تھی تو وہ اس جماعت کے لئے اپنی جان تک لٹانے کی اداکاری کرتا تھا۔ ظاہر ہے کہ عامر تو اداکاری کر رہا تھا اب دیکھنے والوں کو غلط فہمی ہو گئی کہ یہ ہمارا جانثار ہے ، اور اس غلط فہمی کی بنیاد پر انھوں نے عامرلیاقت حسین کو اپنا وزیر بنا لیا، وہ بھی وزیر برائے مذہبی امور تو اس میں بے چارے عامر لیاقت حسین کا کیا قصور ہے۔ جب اس کا اسکرپٹ ختم ہو گیا تو اس نے وزیر برائے مذہبی امور کی اداکاری کرنی چھوڑ دی۔ اس میں نہ تو کسی کو اعتراز کرنا چاہیے تھا اور نہ ہی اس پر کسی کو نالاں ہونا چاہیے تھا۔اس وقت جب عامر لیاقت حسین نے ایم کیو ایم سے لاتعلقی اور وزارت سے معذرت کا اعلان کیا تو بہت سے لوگ نالاں ہوئے اور عامر لیاقت حسین پر برہم بھی ہوئے ، دراصل انھوں نے عامر لیاقت حسین کو سمجھا ہی نہیں تھا۔ اب جب خود ہی کسی نے عامرکے کردار اور اداکاری کو نہیں سمجھا تو اس میں بھلا عامر لیاقت حسین کا کیا قصورہے۔ کچھ عرصے سے عامر نے ایک ماڈل کی حیثیت سے کام بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس سال وہ ایک خوبرو لڑکی کے ساتھ تلو کے لئے ایک ماڈل کے طور پر کام کر رہا ہے اور بحیثیت ماڈل اپنے فن اداکاری کے جوہر دکھا رہا ہے۔عامر لیاقت حسین ایسے اداکار ہے کہ جو بچوں میں بچہ بننے، بڑے میں سب سے بڑا بننے، لڑکوں میں لڑکا بننے اور عورتوں میں بہترین عورت بننے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں تاہم ابھی اس کردار (عورت) کے لئے اسے کسی نے کوئی پیشکش نہیں کی ہے۔ اگر کی گئی تو وہ وقت اور حالات کے حساب سے فیصلہ کر سکتا ہے۔ اس صورت حال میں عام طور پر بھارتی فلم سازوں کی کم عقلی اور نابینا پن پر بہت حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے کہ وہ ہمارے ملک کے چھوٹے چھوٹے اداکاروں اور اداکاراؤں کو اپنی فلموں میں کام کرنے کی پیشکشیں کرتے پھرتے ہیں لیکن ان کو ہمارا اتنا بڑا اداکار پاکستان کا سب سے بڑا ٹیلنٹ نظر نہیں آتا کہ جو ہر فن مولا ہے، ہر کردار میں ڈھلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ہر سانچے میں فٹ ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس صورت حال پر بھارتی فلم سازوں کی قسمت پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ چند برس قبل جب عامر لیاقت حسین کا جنگ گروپ سے اختلاف ہوا تو اس نے جیو چھوڑ کر اے آر وائی چینل جوائن کر لیا۔ اس وقت یو ٹیوب پر عامر لیاقت حسین کے ایک مذہبی پروگرام کے دوران وقفے کے چند کلپ دیکھنے کو ملے۔ وہ کلپ دیکھ کر اور اس میں عامر لیاقت حسین کی مادر زاد گالیوں میں مہارت اور شعلہ بیانی سن کر تو عامر لیاقت حسین کی صلاحتوں کا اور بھی زیادہ احساس ہوا کہ وہ جب آف کیمرہ ہوتے ہیں اور عالم یا مذہبی اسکالر کی اداکاری ختم کر کے کچھ آرام کرنے کا موڈ ہوتا ہے تو ان کی انداز اور لب و لہجہ کیا ہوتا ہے۔ لوگ اس بات پر اعتراض کرتے ہیں اور غصہ کرتے ہیں کہ یہ کیا۔ یہ لوگ سمجھتے ہی نہیں کہ عامر لیاقت حسین اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عام انسان بھی تو ہے۔ اب عام زندگی میں ایک عام انسان جیسا ہوتا ہے وہ ویسے ہی ہے۔ لیکن عامر کے کچھ عقیدت مندوں کو تو یہ کہتے بھی سنا گیا کہ عامر لیاقت حسین کے یو ٹیوب پر موجود مذکورہ کلپ میں کہ جس میں وہ مادر زاد گالیاں دے رہے ہیں ، دراصل وہ ایک عام آدمی کی اداکاری کر رہا ہے کہ عام آدمی جب ریلیکس ہوتا ہے تو وہ اسی طرح تو گفتگو کرتا ہے۔ کچھ نا عاقبت اندیش عامر لیاقت حسین کی ڈاکٹر یٹ کی ڈگری پر بھی اعتراض کرتے ہیں۔ میرا ان سے بڑے ادب سے سوال ہے کہ کوئی ایک ایسا لمحہ بتائیں کہ جب انھیں شک ہوا ہو کہ عامر لیاقت حسین نے ڈاکٹر کے کردار کو صحیح طور پر پرفارم نہیں کیا۔ اگر ایسا نہیں تو پھر وہ یہ کیوں کہتے پھرتے ہیں کہ عامر لیاقت حسین نے ایک ایسے ادارے (ایگزٹ) سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے کہ جس کے جعلی ہونے کے حوالے سے ان کا ادارہ( جنگ گروپ) سب سے زیادہ مہم چلا رہا ہے۔ہم دعا گو ہیں کہ اس ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو بہترین اداکاری پر پرائیڈ آف پرفارمنس اور صدارتی ایوارڈ سے ضرور نواز جائے۔
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 60945 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.