70فیصد تک

اخبار میں جوتوں کی ایک مشہور دُکان کا اشتہار تھا کہ دکان پر سیل لگ گئی ہے اور جوتیاں 70% تک کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ اشتہار دیکھ کر بیگم نے فوراً کہا کہ آج تم نے کہیں اور نہیں جانا، پہلے دن سیل میں اچھی جوتیاں مل جاتی ہیں اس لئے 70% تک کی رعایت کا فائدہ اٹھانے اُسے اُس دکان پر میرے ہمراہ جانا ہے۔ حکم حاکم مرگ مناجات۔ اکلوتی بیگم کا کہا ٹالنے کی کس میں جرأت تھی۔ سو وعدہ کر لیا اور شام کو حسب وعدہ ہم دونوں اس دکان پر موجود تھے۔ 70 فیصد تک رعایت کا مطلب تھا کہ عام حالات میں ایک جوتی کی جتنی قیمت دینا پڑتی ہے آج اُسی قیمت میں ہم تین یاچار جوتیاں خرید سکتے تھے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں اپنے مفاد کو حاصل کرنے کے لئے لوگ چار جوتیاں کھانے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کرتے، ہم تو فقط ایک کی قیمت میں چار خریدنے جا رہے تھے۔

دکان کے باہر ایک درمیانے سائز کا ڈبہ پڑا تھا اور عورتیں جھک کر اس کے اندر کچھ تلاش کر رہی تھیں۔ یوں لگا جیسے کارپوریشن کا کوڑے کا ڈرم پڑا ہے اور کوڑے میں سے کچھ کام کی چیزیں نکالنے خانہ بدوش بچے ڈرم کے اندر گُھسے ہوئے ہیں۔ کوڑے کے ڈرم کا مقصد ذہن میں آتے ہی بدبو کا ایک جھونکا ذہن کے کسی گوشے سے لہراتا ہوا نکلا اور ہم اس ڈبے سے ذرا فاصلے پر گزرتے تیزی سے دکان میں گھس گئے۔ بے پناہ رش مگر فقط دکان کے ایک حصہ میں ، وہاں اس حصے میں ہجوم دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ لوگ آج لوٹنے کے لئے آئے ہیں اور تھوڑی دیر میں دکان کا اس حصے میں موجود تمام اسٹاک ختم ہو جائے گا۔ مگر جانے کیوں ایک طرف کاؤنٹر پر کیشیئر اور اس کا ساتھی اُونگھ رہے تھے۔ خریدنے والے تو بہت تھے مگر شاید خریداری کی ابتدا نہیں ہوئی تھی اس لئے کیشئر اور اس کا ساتھی ابھی کافی فارغ تھے۔ایسے ہی اِکا دُکّا لوگ جوتی خرید رہے تھے۔

دکان میں داخل ہو کر ہم نے دائیں بائیں نظر ڈالی۔ دائیں طرف ایک چھوٹے سے شوکیس پر لکھا تھا 20فیصد رعایت، بائیں طرف اسی سائز کے ایک دوسرے شوکیس پر لکھا تھا 10فیصد رعایت۔چند لوگ وہاں دیکھ رہے تھے مگر ذرہ مایوس مایوس سے۔ ہم نے ہر طرف 70% کا بورڈ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر ندارد۔البتہ دونوں شوکیسوں کے درمیان ایک میز جہاں سب سے زیادہ ہجوم تھا پر 40فیصد رعایت لکھا تھا۔ اس 40 فیصد رعایت والی میز پر موجود لوگوں کے ہاتھ میں ایک ایک جوتا تھا اور وہ دکان پر موجود ملازموں سے پوچھ رہے تھے کہ اس جیسا دوسرا جوتا کہاں سے ملے گا؟ مگر جواب یہی تھا کہ میز پر ہی ڈھونڈیں۔ اگر ہوا تو یہیں پر ملے گا۔ میں نے میز پر نظر ڈالی، بڑی تھکی ہوئی جوتیاں تھیں۔ شاہد یہ سب وہ تھیں جو کسی نقص یا خرابی کے سبب گاہکوں نے واپس کر دی تھیں۔ اور وہ جوتیاں ہلکی پھلکی مرمت کے بعد کوڑے کے ڈھیر کی شکل میں اس میز پر موجود تھیں۔ میں نے پوچھا، بھائی وہ 70% والی کہاں ہیں؟ دکان کے کارندے نے باہر ڈبے کی طرف اشارہ کیا۔ ایک بار پھر کوڑے کے ڈھیر کی بساند محسوس کرکے میں مسکرا دیا اور بیگم کو کہا کہ یہ تو سراسر فراڈ ہے، یہاں جوتی خریدناہی غلط ہے، آؤ چلیں۔ باہر نکلے تو ساتھ ہی برانڈڈ کپڑے کا ایک بہت بڑا سٹور تھا۔ وہاں بھی 70% تک رعایت کے بورڈ دکان کے چاروں طرف جگمگا رہے تھے۔

جوتے نہ سہی چلو گھر سے کچھ لینے نکلے ہیں توکپڑا ہی خرید لیں۔ یہ سوچ کرہم نے اب اس سٹور کا رُخ کیا مگریہ کیا کہ 70فیصد تک رعایت یہاں بھی دکان کے باہر پڑی تھی؟ کپڑے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جن سے کوشش کے باوجود کچھ نہیں بن سکتا تھا وہاں پڑے ہوئے تھے۔ ہاں البتہ گھر میں بہت چھوٹے بچے ہوں اور ریڈی میڈ کپڑوں کی بجائے انہیں کپڑے سلا کرپہنانا ضروری ہو تو 70فیصد سے استفادہ حاصل کیا جا سکتا تھا۔ اندر وہی دس یا بیس فیصدمگر وہ کپڑا بازار میں شاید بہتر قیمت پر دستیاب تھا ۔ ہاں وہ لوگ جنہیں بازار کی قیمتوں کا اندازہ نہیں تھا خرید رہے تھے اور باقی نیا سٹاک کے عنوان سے بَلا کا مہنگا ریٹ۔ ہم نے اس سٹور کا پورا چکر لگایا، میں نے سوچا کہ اب آگئے ہیں تو کچھ نہ کچھ خرید لیں، مگر میری بیگم نے لُٹنے سے انکار کیا اور ہم شرمندہ شرمندہ خود کو بچا کر واپس گھرآگئے۔

70فیصداب دکانداری میں رعایت تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس کا عمل دخل اب ہماری قومی زندگی میں پوری طرح داخل ہو چکا ہے۔ ہمارے سیاست دان 70فیصد تک جھوٹے، مفاد پرست اور وعدہ خلاف ہیں۔ ہمارے بیوروکریٹ 70فیصد تک کرپٹ ہیں۔ ہمارے اساتذہ 70فیصد تک کام چور ہیں۔ خصوصاً یونیورسٹیوں میں کام کرنے والے اساتذہ 70فیصد تک سیاست کرتے ہیں اور ان میں سے 70فیصد کے مقالے جعلی ہیں یا جعلسازی سے حاصل کئے گئے ہیں۔میں خود بھی ایک استاد ہوں ، اپنے بارے ایسی بات کرتے شرمساری ہوتی ہے مگر حقےْت تو بہر حال حقیقت ہوتی ہے۔ ہماری پولیس اور دیگر تفتیشی ادارے 70فیصد تک نالائق اور ناکارہ لوگوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے 70فیصد اپنی آمدنی سے بہت زیادہ جائیداد کے مالک ہیں اور انہیں جائز اور ناجائز کے تصور سے کچھ واقفیت نہیں۔ہمارے کسٹم اور انکم ٹیکس کے اہلکار پولیس کے ہم پلہ نہیں ان سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ ہماری 70فیصد عدلیہ کا انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔وقتی طور پر جو انہیں کسی طرح بھی سمجھ آ جائے وہی قانون ہے وہی انصاف ہے۔ ہر چیف جسٹس اس بات کا رونا روتا، افسوس کرتا ہے، مگر 70فیصد کُڑھنے کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ ہمارا پٹوار سسٹم 70فیصد سے بھی زیادہ رشوت خوری پر تعمیر ہے۔ ہر پٹوار خانے میں 70فیصد عملہ سرکاری ملازم نہیں ہوتا اور ان کی تنخواہ لوگوں کو لوٹ کر دی جاتی ہے۔ پٹواری کی آمدن کا 70فیصد حکمرانوں کے جلسوں جلوسوں اور سرکاری اہلکاروں کے اللّوں تللوں پر خرچ ہوتا ہے۔ ہمارے صحافی 70فیصد تک غلط لکھتے ہیں کیونکہ ضمیر کے خلاف 70فیصد پیارلفافے سے کرتے ہیں۔میں چند ایسے اشخاص کو جانتا ہوں جو ٹی وی پر 70 فیصد باتیں اسلام کی، اخلاق کی اورکردار کی کرتے ہیں۔ لیکن ذاتی زندگی میں 70 فیصد سے زیادہ غلیظ، مکروہ اور بد کردار ہیں۔ ہمارے 70فیصد نیکو کار نظر آنے والے لوگ فقط لوگوں کو فریب دیتے اور ذاتی زندگی میں 70فیصد بددیانت ہوتے ہیں اور شاید اس ملک کی بربادی کا سبب یہی 70فیصد ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442886 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More