حسِ باطنی

 "بیگم تم نے آج شام بعد نماز عصر تا مغرب ہر صورت ہمارے ساتھ واک پر چلنا ہے"بڑھتے وزن کو دیکھ کر دو ٹوک انداز میں ہم نے بیگم کو وارننگ دے ڈالی
"اچھا اچھا ۔۔ٹھیک ہے ۔۔چلیں گے" بیگم نے ہمارے تیور کو بھانپتے ہوئے حامی بھر لی ۔
حالانکہ دو ہفتے قبل ہم نے بیگم کو ہفتہ بازار سے واکنگ شوز دلادئیے تھے اس کے باوجود نجانے کیوں خواتین اس قسم کی مشقت سے گریزاں رہتیں ہیں ہم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ بیگم کے بڑھتے ہوئے وزن کو ہر صورت گھٹانا ہے ویسے بھی پھیلتی ہوئی عورتیں ہماری آنکھوں اور دل کو بالکل نہیں بھاتیں۔عصر کی نماز سے فارغ ہوکر ہم نے شوز پہنے اور بیگم کو بھی ہدایت کر دی کہ وہ بھی شوز پہن لیں چاروناچار انھوں نے بھی شوز پہنے اس دوران ہم انکے چہرے کی کیفیات کا بغور جائزہ لے رہے تھے جن پر ناگواری کے تاثرات صاف نمایاں تھے اور ہمارا چہرہ تھا کہ طمانیت کے باعث دمک رہا تھا ہماری طمطراق دیکھنے کے قابل تھی کیونکہ آج ہمیں بیگم پر فتح حاصل ہوئی تھی ہم نے سوچ رکھا تھا کہ تحفظ نسواں کا بِل بھی پاس ہو چکا ہے اگر آج ہمیں ہلکا پھلکا تشدد بھی کرنا پڑا تو انشااﷲ کریں گے ،تحفظ نسواں بِل کے پاس ہونے سے ہمارا حوصلہ بھی بڑھ چکا تھا وجہ وہی تھی کہ پھیلتی ہوئی بیگم ہم کو بالکل گوارا نہیں تھی شکریہ تحفظ نسواں بِل کہ آپ نے ہم مردوں کو تحفظ فراہم کیا۔

گھر سے کچھ فاصلے پر ایک پارک تھاجس میں خواتین کے لئے واکنگ ٹریک علیحدہ سے بنا ہوا تھا گھر سے پارک اور واپسی میں پارک سے گھر تک کا فاصلہ ہمیں بیگم صاحبہ اور انکی ناگواری کے ساتھ ہی طے کرنا تھا۔گھر سے نکلتے ہی سامنے چند قدم کے فاصلے پر ہمیں ایک درخت پر دو عدد کوئے بیٹھے ہوئے نظر آئے ہم نے محسوس کیا وہ دونوں کوئے کچھ بے چین تھے ہم نے انھیں نظر انداز کیا کیوں کہ آج ہم ایک اہم مشن پر تھے اس لئے ہمارے قدم پارک کی جانب ہی رواں دواں رہے ابھی کچھ فاصلہ طے کیا ہی تھا کہ وہی دونوں کوئے ہمارے سر کے پاس سے برق رفتاری سے گذرے جن کے پروں کی سنسناہٹ ہماری سماعت سے ٹکرائی اور اس سنسناہٹ نے ہمارے جسم میں چند لحموں کے لئے لرزا سا طاری کر دیا تھا ہمارے بالکل قریب سے گزرنے کے بعد د ونوں کوئے ہمارے سامنے والے ایک درخت پر جا کر بیٹھ گئے اب وہ پہلے سے کچھ زیادہ بے چین نظر آ رہے تھے ایکدفعہ پھر ہم نے اُنھیں نظر انداز کیا اور اپنا سفر پارک کی جانب جاری و ساری رکھا پارک کے گیٹ پر پہنچ کر ہم نے بیگم کو ہدایت کی کہ وہ عورتوں والے ٹریک پر جا کر واک کریں ابھی ہم بیگم کو ہدایت دے ہی رہے تھے کہ اُن دونوں برق دم کوؤں نے( جنھیں ہم کچھ دیر پہلے بھول چکے تھے ) بڑی کامیابی کے ساتھ ہمارے سر کے بیچوں بیچ عین اُس مقام پر جہاں سے ہمارے گنج پن کا گول دائرہ شروع ہوتا ہے یکے بعد دیگرے پہلے ایک کوے نے پھر دوسرے نے اپنی نوکیلی چونچ سے ٹھونگیں ماریں ہم نے سر کو سہلاتے ہوئے اوپر دیکھا تو دونوں کوئے ہمیں ٹھونگیں رسید کرنے کے بعد پارک کے قریب ہمارے سامنے والے ایک درخت پر براجمان ہوچکے تھے ۔

"ان کوؤں کو کیا ہو گیا ہے آپ کے پیچھے پڑ گئے ہیں"بیگم نے گیٹ سے اندر جاکر مسکراتے ہوئے پوچھا
" نجانے انھوں نے ہم ہی کو کیوں نشانہ بنایا ہوا ہے؟" ۔۔گنجے سروالے حصے پر تیزی سے سہلاتے ہوئے ہم نے جواب دیا ۔ مردوں کے ٹریک پر پہنچ کر ہم نے واک شروع کرنا تھی لیکن دونوں کوؤں کی ٹھونگیں کھا نے کے بعدہماری توجہ واک سے زیادہ اُن کووں کی جانب مبذول ہوگئی جو ایک درخت پر بیٹھے فاتحانہ انداز میں ہماری جانب ہی دیکھ رہے تھے ہم نے بادل نخواستہ واک شروع کرنے کا ارادہ کیا لیکن اس سے قبل ایک دفعہ گردن گھما کر درخت کی جانب دیکھا تو ہم حیران رہ گئے ،دونوں کوئے ہم پر حملہ کرنے کے لئے اس طرح اسٹارٹ لے رہے تھے جیسے کوئی طیارہ رن وے پر فضا میں بلند ہونے کے لئے تیار ہو رہاہوتا ہے فرق یہ تھا کہ طیارہ بلندی کی جانب جانے کے لئے تیار ہوتا ہے جب کہ یہ دونوں بلندی سے ہماری جانب آنے کو تیار ہو رہے تھے اور پھر پلک جھپکتے ہی ایف16کی طرح وہ اپنے ٹارگٹ یعنی ہمارے سر پر ٹھونگ اور پنجے رسید کرنے کی غرض سے چند ہی لحموں میں ہمارے سر کے اوپر موجود تھے کہ ہم نے بھی جوڈو کراٹے کی فلموں والی جھکائی دے کر اپنے دائرہ نما گنج کو بچایا لیکن جاتے جاتے ایک کوئے کا پنجہ ہمارے ہاتھ پر اپنے نشان چھوڑتا ہو اگیا ۔
"اُف کیا مصبت ہے۔۔ یہ آخر کیوں ہمارے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔۔ہم نے انکا کیا بگاڑا ہے"ہم نے اپنے ہاتھ پر پنجوں کی جلن کو محسوس کرتے ہوئے خود سے سوالات کئے اور اُن کوؤں کی جانب دیکھا جو دوبارہ اسی درخت پر بیٹھ کر ہمیں دیکھے جا رہے تھے ہمارے تحت الشعور سے مفتوحہ ہونے کی طمطراقی کافور ہو چکی تھی جو کچھ دیر قبل ہم نے اپنی اہلیہ کو شکست دے کر حاصل کی تھی۔۔پھر اچانک ہمارے ذہن میں ایک سوال ابھرا کہ کہیں یہ ہماری بیگم صاحبہ کی سازش تو نہیں ،کہیں یہ کوئے اُنکے پالتو اور سدھائے ہوئے تونہیں؟ کیونکہ اکثر ہم نے اُنھیں کوؤں،چڑیاوں، میناوں اور دیگر پرندوں کو دانہ پانی ڈالتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی ہم نے واک کا پروگرام کینسل کیا اور واپسی کی ٹھانی جدید دور کی ایجاد موبائل فون پر بیگم کو اپنے ارادے سے مطلع کیا اور گیٹ سے باہر آجانے کو کہا ،پارک کے گیٹ کے باہر بیگم ہمیں حیرت کی تصویر بنی دکھائی دیں اور حیرت ذدہ انداز سے ہم سے گویا ہوئیں "اب کیا ہو گیا آپ کو "
"کچھ نہیں بس گھر چلتے ہیں "ہم نے بھی مختصرجواب دیا ـکچھ وقفے کے بعد اپنا نشان ذدہ ہاتھ دکھاتے ہوئے ہم نے اپنی درد بھری داستان بیگم کے حوالے کر دی اب بیگم کے چہرے کے تاثرات میں ناگواری کے بجائے فاتح ہونے کی طمطراقی نظر آ رہی تھی ۔
اچانک بیگم نے کہا "پیچھے مڑ کر دیکھیں وہ دونوں ہمارے پیچھے آ رہے ہیں "
ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا واقعی دونوں کوئے ہمارے پیچھے آ رہے تھے جنھیں دیکھتے ہی ہماری سٹی گُم ہو گئی ۔
" آپ پریشان نہ ہوں اب وہ آپ کو پریشان نہیں کرئینگے"بیگم نے مسکراتے ہوئے ہمیں تسلی دی ،
یہ سُن کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی وہ واقعی ہمارے پیچھے تھے لیکن اُن کی رفتار میں وہ برق بن کر گرنے والی بات نہیں تھی جس کا مظاہرہ کچھ دیر قبل ان دونوں نے کیا تھا
"ہوں!تو اب سمجھ میں آیا کہ یہ آپ کی سازش تھی۔۔ ان دونوں کو آپ نے ہمارے پیچھے لگایا تھا"
"ارے نہیں بھلا میں ایسا کیوں کرونگی ۔۔آپ بھی حد کرتے ہیں"بیگم نے پیار سے مسکراتے ہوئے ہمیں سمجھایا،
'دراصل میں ان کی نفسیات سے واقف ہوں ۔۔ میں کافی عرصے سے ان جیسے پرندوں کی خدمت کر رہی ہوں ۔۔میرے خیال میں یہ دونوں کوئے آپ سے کچھ چاہتے ہیں ۔۔۔
" اچھا جی۔۔ تو یہ بھی بتا دیجئے کہ یہ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے بیگم کا تمسخر اُڑاتے ہوئے سوال کیا
" میں وثوق سے ابھی کچھ نہیں کہہ سکتی" بیگم نے دونوں کندھے اُچکاتے ہوئے جواب دیا "لیکن یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ یہ آپ سے کچھ چاہتے ہیں"
بیگم کے اس انکشاف سے کہ وہ پرندوں کی نفسیات کو سمجھتیں ہیں ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ ہماری نفسیات سے زیادہ بیگم کو پرندوں کی نفسیات پر عبور حاصل ہے ا س بات کا اندازہ ہمیں کووں کی رفتار سے ہو گیا تھا اور وہ اب ہمیں پریشان بھی نہیں کر رہے تھے ۔جب ہم گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھے تو دونوں کوئے ہمارے سروں کے اوپر سے ہوتے ہوئے ہم سے آگے لکل کر ہمارے گھر کے سامنے والے درخت تک پہنچ گئے۔۔ انھوں نے ایک نظر ہم پر ڈالی اور پھرہم نے انھیں گھونسلے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔
"چلیں تھوڑی دیر کے لئے ہم اُس درخت کے نیچے جا کر کھڑے ہوتے ہیں" ۔۔ بیگم نے درخت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا،
ہم تجسس کے عالم میں بیگم کے ہمراہ اس درخت کے نیچے پہنچے ۔چند سیکنڈ کے بعد ہم نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا جسے ہم زندگی بھر نہیں بھُلا سکتے ۔۔۔
دونوں کوئے گھونسلے سے باہر آئے ایک کوئے کے پنجے میں ہمیں کوئی شے نظر آئی اُس کوئے نے اُس شے کو ہماری جانب پھینکا زمین پر ایک دھب کی آواز آئی ہماری نگاہ جب اُس شے پر پڑی تو ہم دونوں میاں بیوی ایکدوسرے کی شکل دیکھنے لگے ہمارے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے زمین پر پڑی ہوئی شے ان کووں کے ایک مرے ہوئے بچے کی لاش تھی ۔
اہلیہ نے ایک نظر کوئے کے بچے کی لاش پر ڈالی اور پھر گردن اُٹھا کر درخت پر بیٹھے کووں کی جانب دیکھا ۔جب ہماری نظر بیگم پر پڑی تو اُن کی موٹی موٹی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔ہم نے وجہ پوچھی تو بھرائی ہوئی آواز میں مخاطب ہوئیں۔
"آپ اس بچے کی لاش کو اُٹھائیں۔۔۔ اور بہت ہی ا حترام کے ساتھ اس کو گڑھا کھود کر دفنا دیں"
بیگم نے اپنے آنسو دوپٹے سے پونچھتے ہوئے اپنی بات کو جاری رکھا ـ"دیکھا ۔۔میں آپ سے کہہ رہی تھی نا کہ یہ دونوں آپ سے کچھ چاہتے ہیں"
"جی جی ! آپ بالکل درست کہہ رہی تھیں "ہم نے بھی افسردگی کے اظہار میں جواب دیا ۔
گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ہم نے ایک صاف ستھری جگہ کا انتخاب کیا اور گڑھا کھودنے میں مصروف ہو گئے ۔۔گڑھے کو کھودنے کے دوران اچانک ہماری یادوں کے جھرونکے کھل گئے اور پندرہ سے بیس دن قبل کا ایک منظر ہماری آنکھوں کی اسکرین کے سامنے تھا۔ جب ہم اپنی گاڑی میں مصروف شاہراہ سے گزر رہے تھے تو ایک شخص کی لاش تپتی سڑک پر پڑی تھی سڑک کاوہ حصہ خون آلود تھا جہاں اس نا معلوم شخص کا بھیجہ کسی نا معلوم گاڑی نے کچل دیا تھا ۔۔ہر گاڑی کچھ وقفے کے لئے اُس جگہ پر آہستہ ہوتی اور آگے نکل جاتی دوسری گاڑیوں کی طرح ہم نے بھی گاڑی کی رفتار کو آہستہ کرکے ایک نظر اس شخص پر ڈالی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے آگے نکل گئے ۔
لیکن آج کوئے کے بچے کو دفناتے ہوئے ہماری آنکھوں سے بہنے والے آنسو مٹی میں جذب ہو رہے تھے اور ہم اپنے اوپر ایک بوجھ محسوس کر رہے تھے ۔۔ہمیں اپنا وجود آج ایک بوجھ لگ رہا تھا ۔۔ شائد یہ ہمارے ضمیر کا بوجھ تھا۔۔ یہ بوجھ اب کب اُترے گا ؟۔۔پتہ نہیں کب اُترے گا ؟ ۔۔شائد حساب والے دن۔۔شائد حساب والے دن بھی نہیں۔
Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 90591 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More