عروج و زوال اور ہماری زندگی

 زندگی کی کامیابی انسان دولت اور آسائشیں کے میسر ہونے کو سمجھتا ہے، اور جب انسان کے پاس دولت و آمدن کے وسیع ذرائع میسر ہوں تو انسان ماضی میں پیش آنے والے مشکل ادوار و واقعات کو فراموش کر نے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں کسی بھی قسم کے ناموافق حالات کی بھی کوئی پرواہ نہیں رہتی کہ پل بھر میں ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ انسان دولت و آسائشوں کے ملتے ہی سب سے پہلے اپنی حیثیت و اپنی اوقات کو از سر نو پس ِ پشت ڈالتے ہوئے خود کو زمین و آسمان میں سب سے بلند و بالا سمجھنے لگتا ہے، گویا کہ ایسے بن جاتا ہے کہ جیسے زمین و آسمان میں اس جیسا حسین نہ کوئی بنا ہے اور نہ ہی کوئی بنے گا حالانکہ ہمارے مذہب میں واضع تعلیمات میں سے ہے کہ " ہر عروج کو زوال ہے اور ہر زوال کو عروج ہے۔" زوال میں انسان اپنی محنت و عظمت سے عروج کی منازل کو با آسانی پہنچ سکتا ہے مگر عروج پر پہنچ کر بہت سے لوگ اپنے ماضی کو بھول کر گناہوں کی دلدل میں اس قدر دھنس جاتے ہیں کہ جہاں وہ دن بدن گناہوں کی لا علاج و خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہونے لگتے ہیں اور وہ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کا کوئی بھی علاج کسی کے پاس ممکن نہیں ہو پاتااور ان ہی بیماریوں کے سبب باآخر ایک دن وہ رفتہ رفتہ تما م آسائشوں سے محروم ہونے لگتے ہیں اور ذلت و رسوائی کے ساتھ ان سے تمام نعمتیں چھین لی جاتی ہیں۔ جبکہ دولت و آسائشوں کا باہم میسر ہونا نعمت خداوندی میں سے ایک عظیم نعمت ہے جس کا موازنہ کسی بھی دیگر نعمتوں سے نہیں کیا جا سکتامگر کچھ لوگ ان آسائشوں کی فراوانی کو گناہوں کے لیے گرین کارڈ سمجھ بیٹھتے ہیں اور ان کی مثال پھر اس تھیلے جیسی ہوتی ہے جس میں گنجائش بظاہر تو ایک روپے کی ہوتی ہے اور جب اس میں دو روپے ڈال دیئے جائیں تو وہ آپے سے باہر ہو کر پھٹ جاتی ہے یا پھر یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے دولت و منزلت کو بڑی دیر سے دیکھا ہوتا ہے یا پھر حلال حرام کو مکس کر کے دولت ، عیاشی و عشرت کی عمارت تعمیر کی ہوتی ہے، ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو انتہائی تنگ نظر مگر عیاشی ، مستی اور غرور میں انتہا ء کی حد کو پہنچے ہوتے ہیں اور ان کے ضمیر انتہائی مردہ حالت میں پائے جاتے ہیں جن کی مثال یہ ہوتی ہے کہ ان کا کتا بادام وملائی پستہ والا دودھ پی رہا ہو گا مگر پڑوس میں رہنے والابھوک سے نڈھال پڑا ہو گا۔۔۔ اپنے گھوڑوں و کتوں کے لیے ڈاکٹروں کو بھاری فیسوں کے ساتھ بڑی وی وی آئی پی انداز میں لائیں گئے مگر اپنے ہی بھائی کا بچہ جو ڈاکٹر کی فیس نہ ہونے کے سبب بستر مرگ پر پڑا ہو گا اس کی پروا نہیں ہوگی ۔۔۔ لاکھوں ، کروڑوں روپے اپنی عیاشی پر خرچ کر دیں گئے مگر محلے کے اندر جہیز جیسی لعنت کا بندوبست نہ ہونے سے بوڑھی ہونے والی جوان سالا بہنوں کی شادیوں کی فکر نہ ہوگی۔۔۔اپنے شیش محل کی تزین و آرائش کے لیے لاکھوں روپے تو خرچ کر دے گا مگرمحلے کے اندر مسجد میں بچوں کو دین کی تعلیم دینے والے امام کے لیے ایک سو روپے چندہ دیتے ہوئے بھی سو سوال کرے گا۔۔۔ صدقہ خیرات یہ نہیں کہ وہ کرے گا نہیں ۔۔۔وہ کرے گا بلکہ اس انداز میں کرے گا کہ سب کو لائن میں کھڑا کروائے گا، پھر ایک ایک کے ساتھ کھڑے ہو کر فوٹو بنوائے گا اور اگلے دن سب غریبوں کے فوٹو اخبارات اور دیگر سوشل میدیا پر نشر کر کے بڑے فخر سے دوست احباب سے بول رہا ہو گا کہ میں نے اتنے پیسوں کی زکوۃ کی ہے۔۔۔اس سب کے برعکس اگر دیکھا جائے تو دولت ، آسائشیں اور سہولیات کا باہم ملنا اور نہ ملنا دونوں رب العزت کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے اور دونوں صورتیں وقتی و فنا ہونے والی ہوتی ہیں ، اگر تنگی کے دنوں میں رب العزت کے حضور اپنے گناہوں اور خطاؤں سے توبہ استغفار اور التجائیں کرنے سے سخت ادوار سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے مگر دوسری جانب آسائشوں کے دنوں میں رب تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے اگر نا شکری ، تکبر اور غرور کیاجائے تو ایسے ادوار انسان کے لیے سخت آزمائش کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ پھر وہی ہوتا ہے جو آج سے قبل قوموں کا حال ہوا ہے۔
 
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 182190 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More