سوشل میڈیا پر مادر پدر آزادی……معاملہ شعائر اسلام ، ناموس رسالت کی توہین تک پہنچ گیا

جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی تعلقات کی نت نئی شکلیں پیدا کرکے ان کے دائرے کو وسیع ترکردیا ہے۔ ان ہی ترقیاتی شکلوں میں نیٹ ورک سوشل میڈیا بھی ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں اس میں انتہائی تیز رفتار ترقی ہوئی ہے اور اب سوشل میڈیا نوجوانوں کی بڑی تعداد کی دلچسپی کا محور و مرکز بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ سے تعلق رکھنے والا ہر شخص فیس بک، ٹوئٹر، لنکڈ اور دیگر بہت سی سوشل سائٹس سے جڑی دنیا کا باشندہ بن چکا ہے۔ آج جملہ ذرایع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال سب سے زیادہ ہورہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ سوشل میڈیا نے الیکٹرانک میڈیا کو بھی مات دے دی ہے، کیونکہ ماضی میں کچھ عرصہ قبل تک الیکٹرانک میڈیا اپنی مرضی سے جو کچھ چاہتا عوام کو دکھاتا اور جس چیز سے چاہتا بے خبر رکھتا، لیکن ممتاز قادری کی پھانسی، جنازے اور دیگر کئی واقعات میں سوشل میڈیا نے یہ ثابت کردیا کہ اب باخبر ہونے کے لیے عوام الیکٹرانک میڈیا کے محتاج نہیں ہیں۔ جس طرح ہر چیزکے مثبت و منفی اثرات ہوتے ہیں، اسی طرح سوشل میڈیا کے بھی دونوں قسم کے اثرات ہیں۔ سوشل میڈیا کا مقصد رابطوں کو فروغ دینا تھا، لیکن لوگوں نے اس کے مقاصد کو نظر اندازکرنا شروع کردیا۔ سوشل میڈیا پر ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے میں نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بن رہی ہیں۔ مختلف جماعتوں، فرقوں، گروہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی اپنی لابیاں بنائی ہوئی ہیں، جن کا مقصد صرف اور صرف فریق مخالف کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا ہوتا ہے۔ متعدد معروف شخصیات، حکومتی عہدیداران، سیاستدان اور ججز کے نام سے آئی ڈیز سماجی رابطے کی سائٹس پر موجود ہیں، لیکن وہ شخصیات بار بار اس کی تردید کرچکی ہیں۔سوشل میڈیا پر آپ کسی کے خلاف جو چاہے لکھیں۔ کسی کو گالی دیں، کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائیں،کوئی پوچھنے والا نہیں اور نہ ہی ہماری حکومت نے ایسے افراد کی گرفت کے لیے کوئی قانون سازی کی ہے اور نہ ہی حکومتی ذمہ داروں نے کوئی ایسا فلٹریشن سسٹم لگایا جو اسلام مخالف، فحش اور دوسرے بیہودہ مواد کو روک سکے۔ سائبر وار فیئر، سائبرکرائم اور سائبر ٹیررازم جیسی اصطلاحات دنیا میں رائج ہیں، لیکن سوشل میڈیا کے منفی استعمال کو روکنے کے لیے ہمارے یہاں کوئی جامع بات دکھائی نہیں دیتی۔ پاکستان میں قومی اسمبلی سے اگرچہ سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے بل منظور کیا جاچکا ہے، جس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی اور اس کے تحت تین ماہ سے 14سال قید اور پچاس ہزار سے لیکر پانچ کروڑ تک جرمانے کی سزا کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ مذہبی منافرت اورملکی مفاد کے خلاف کوئی مواد شایع کرنے اورخوف و ہراس پھیلانے والے کوپانچ کروڑتک جرمانہ اور 14سال کے لیے سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا سکتا ہے۔ اس قانون سازی کے اجرا سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں سائبر کرائم میں خاطر خواہ کمی آتی، لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے، کیونکہ ہمارے یہاں قوانین بن تو جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔

سوشل میڈیا کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ قانون کی کمزوری کی وجہ سے اسے ملحدین اور اسلام دشمن عناصر کی جانب سے شعائر اسلام، ناموس رسالت کی توہین اور مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں تشکیک میں مبتلا کرنے کے لیے بلاروک ٹوک استعمال کیا جارہا ہے۔ ذرایع کے مطابق ملحدین نے الحاد کی تبلیغ کے لیے مسلم دنیا کے لیے خصوصی انٹرنیٹ گروپس تشکیل دیے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر اس قسم کی الحادی فکر رکھنے والے گروپس کی تعداد سو سے زاید ہے ،جن میں سے اکثر کا تعلق ’’فیس بک‘‘ سے ہے۔یہ لوگ گزشتہ آٹھ سال سے پاکستانی نیٹ ورک کی دنیا میں آزادی اظہار رائے کے نام پر اپنے مقاصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ان کی بلاگنگ کا مقصد شعائر اسلام کا مضحکہ اڑانا یا کم ازکم ان کے بارے میں شکوک پھیلانا ہے۔ انتہائی تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی نیٹ دنیا میں اکثر اسلام کے مسلمہ اصول و ارکان کے خلاف شکوک و شبہات پھیلانے والے لوگوں کے نام بدستور مسلمانوں والے ہیں اور خود کو مسلمان ظاہر کر کے یہ لوگ اﷲ کی شان میں گستاخی، اس کے کلام پر اعتراضات کی بھرمار، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحیح احادیث کا مضحکہ اڑا کر اور جنت دوزخ اور دوسرے مغیبات کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلا کر علوم دین سے ناواقف مسلمانوں کو راہ راست سے ہٹانے کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر شعائر اسلام اور اہانت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے مرتکب افراد میں کئی معروف نام بھی شامل ہوتے ہیں۔ ذرایع کے مطابق فیس بک پر موجود نسیم کوثر نامی خاتون ایک عرصے سے اپنی اصلی شناخت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ، دین اسلام اور قرآن مجید کی اہانت کر تی رہی ہے۔ گزشتہ دنوں جب اس نے ایک گروپ چیٹنگ کے دوران نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شام میں گستاخی کا ارتکاب کیا تو فیس بک صارفین کی بڑی تعداد نے گستاخی کی مرتکب نسیم کوثر کے خلاف انسداد توہین رسالت ایکٹ 295-C کے تحت مقدمہ دائر کرنے کا مطالبہ کیا، جس کے بعد اگلے ہی دن ملک بھر میں متعدد مقامات پر نسیم کوثر کے خلاف اندراج مقدمہ کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رجوع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ صورتحال دیکھ کر نسیم کوثر نے پینترا بدلا اور قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے اپنی آئی ڈی سے تمام گستاخانہ مواد ہائیڈ کر نے کے بعد یہ اعلان کیا کہ گستاخی پر مبنی کمنٹ اس نے نہیں کیا، بلکہ یہ اس کے نام سے بنائی گئی ایک جعلی آئی ڈی سے کیا گیا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی نامعلوم افراد کی جانب سے ایک منظم اور مربوط منصوبے کے تحت الحاد، لادینیت اور نسیم کوثر کی گستاخانہ حرکات کے خلاف سرگرم افراد کے ناموں سے جعلی آئی ڈیز بنا کر شعائر اسلام، اہانت رسول کا نیا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا ایک مقصد نسیم کوثر کے مقدمے کو کمزور کرنا اور دوسرا مقصد الحاد کے خلاف سرگرم افراد کو بدنام کر کے جذباتی مسلمانوں کے غم و غصے کا رخ ان کی طرف موڑنا ہے۔ منصوبے کے تحت سوشل میڈیا پر الحاد اور لادینیت کے خلاف علمی و عقلی بنیاد پر محاسبہ کرنے والے معروف اسلامسٹ بلاگر اسکندر حیات بابا کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنا کر اس سے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا گیا اور دیگر متعدد اسلامسٹ بلاگرز کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنا کر نبوت کے جھوٹے دعوے کی تصدیق کے ساتھ شان رسالت میں گستاخی اور اسلام کے خلاف انتہائی دل آزار اور اشتعال انگیز خرافات نشر کی گئیں، جس کے بعد اسکندر حیات بابا اور دیگر اسلامسٹ بلاگرز کو جعلی آئی ڈیز سے توہین آمیز مواد کی اشاعت کی حقیقت سے ناواقف لوگوں کی طرف سے دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں اور ان بلاگرز کے جان کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

اسکندر حیات بابا(اسلامسٹ بلاگر)
اس حوالے سے معروف اسلامسٹ بلاگر اسکندر حیات بابا نے گفتگو کرتے ہوئے روزنامہ اسلام کو بتایا کہ گزشتہ دنوں فیس بک پر میرے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنا کر شعائر اسلام اور شان رسالت کی توہین کا گھناؤنا کھیل کھیلا گیا ہے، جس سے ہر مسلمان رنجیدہ ہے۔ ایسی گھٹیا حرکات کرنے والوں کی گرفت کرنا حکومت، متعلقہ اداروں اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، کیونکہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سب کے نبی ہیں اور نبی علیہ السلام سے عشق و محبت ہر امتی کا ایمانی فریضہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں معلوم کہ ایسی گھٹیا حرکات کرنے والے یہ کون لوگ ہیں اور ان کے کیا مقاصد ہیں، یہ لوگ چھپ کر وار کر تے ہیں، ان لوگوں کو شناخت کرناہمارے لیے مشکل ہے، لیکن متعلقہ اداروں، ایف آئی اے وغیرہ آسانی سے ان کی شناخت کر سکتے ہیں، کیونکہ ان کا بہت بڑا بجٹ ہوتا ہے، ان کے پاس بہت برا سسٹم ہے، وہ چاہیں تو ایسے لوگوں کو آسانی سے پکڑ سکتے ہیں۔ ہم متعلقہ اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ فیس بک اور سوشل میڈیا پر ایسے تمام اکاوئنٹس کی جانچ کرکے ان لوگوں کا پتا لگائیں کہ یہ کون لوگ ہیں اور ان کے کیا مقاصد ہیں، آیا یہ لوگ پاکستان میں ہی ہیں یا کسی دشمن ملک میں بیٹھ کر پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اسی قسم کے لوگ شیعہ سنی کے نام سے پیجز بنا کر ان سے ایک دوسرے کے مخالف پوسٹنگ کرتے ہیں اور اپنے جعلی پیجز سے دیگر فرقوں اور مذاہب کے خلاف پوسٹنگ کر کے ایک دوسرے کو آپس میں لڑاتے ہیں۔ ان کی روک تھام ضروری ہے۔ اگر ان کو نکیل نہ ڈالی گئی تو خدانخواستہ یہ لوگ پورے معاشرے کو فساد اور انتشار کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو سمجھنا چاہیے کہ آج ملک میں بارہ سال سے لے کر ستر سال تک کے لوگ سوشل میڈیا پر ہیں، ان کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جس طرح گزشتہ دنوں جعلی اکاؤنٹ بنا کر توہین رسالت کی گئی ہے، اس طرح تو کوئی بھی کسی کا بھی جعلی اکاؤنٹ بنا کر اس پر کچھ بھی لکھ سکتا ہے اور کسی کی بھی جان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اسکندر حیات بابا نے کہا کہ میں نے ایف آئی آر درج کروائی ہیں اور ایف آئی اے میں درخواست بھی دی ہے، لیکن میں کارروائی کے حوالے سے زیادہ پرامید نہیں ہوں، کیونکہ یہاں قانون پر مکمل طور پر عمل نہیں کیا جاتا۔ اسکندر حیات بابا کا کہنا تھا کہ میں چونکہ فیس بک پر گزشتہ تین سال سے شعائر اسلام اور اہانت رسول کے مرتکب لوگوں کے خلاف علمی کام کر رہا ہوں، اس لیے یہ لوگ میرے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ میں نے فیس بک پر ایسے تمام گستاخ پیجز اور اکاؤنٹس کو تلاش کر کے ان کی ایک فہرست بنائی اور ان کو رپورٹ کیا اور میرے کہنے پر ان پیجز کے خلاف ایف آئی اے کو 1300سو ای میلز کی گئیں ہیں، جس کی وجہ سے ان فسادی ملحدین کو تکلیف ہوئی ہے اور انہوں نے میرے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی میں نے سوشل میڈیا پر موجود تمام فسادی ملحدین اور ان کے ہمدردوں کے ریکارڈ پر مشتمل ایک درخواست رینجرز، آئی ایس آئی، وزیر اعظم ہاؤس اور تمام بڑے میڈیا ہاؤسز، معروف اینکرز اور سینیٹرز کو الگ الگ ارسال کی ہے۔

مولانا اﷲ وسایا(سربراہ عالمی مجلس ختم نبوت)
روزنامہ اسلام سے گفتگو کرتے ہوئے عالمی مجلس ختم نبوت کے سربراہ مولانا اﷲ وسایا نے کہا کہ مقدس و محترم شخصیات کی اہانت چاہے انٹر نیٹ پر ہو یا کسی اور جگہ ہو، اس کے لیے اسلامی ملک پاکستان میں قوانین موجود ہیں، حکومت کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ انٹرنیٹ پر اہانت رسول کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو از خود کیفرکردار تک پہنچائے اور ایسے بدبخت لوگوں کو سزا دے جو دوسروں کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنا کر نہ صرف ان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں، بلکہ اہانت رسول کے مرتکب بھی ہورہے ہیں۔ جن لوگوں کے نام کو غلط استعمال کیا جارہا رہے، وہ درخواست دیں اور مجرموں پر جعل سازی اور اہانت رسول کے ارتکاب کا کیس کریں۔ ہم انشاء اﷲ ساتھ دیں گے۔ حکومت کا فرض ہے کہ قانون پر عمل کرتے ہوئے ایسے گستاخوں کو گرفتار کرے۔ تمام دینی جماعتوں اور دینی داروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مل بیٹھ کر میٹنگ کریں اور انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر ہونے والے توہین رسالت کے واقعات کی روک تھام کے لے لائحہ عمل طے کریں۔

طارق حسین ایڈووکیٹ (ماہر قانون)
سوشل میڈیا پراہانت رسول کے واقعہ کے حوالے سے ماہر قانون طارق حسین ایدووکیٹ نے کہا کہ فیس بک پر توہین رسالت کا حالیہ واقعہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ میں نے دشمنان اسلام کی جانب سے بنائے گئے جعلی پیجز اور اکاؤنٹ اور ان سے کی گئی بے ہودہ پوسٹس پڑھی ہیں، جس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ توہین رسالت سے بھی اوپر کی کہانی ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص گستاخی پر مبنی کوئی پوسٹ آگے شیئر کرتا ہے تو اس کے لیے بھی بہت سخت سزا ہے اور اگر کوئی شخص خود توہین رسالت پر مبنی پوسٹ لکھتا ہے یا تبصرہ کرتا ہے تو اس کی سزا تو اس سے بھی سخت ہے جو صرف اور صرف پھانسی ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں، اگر ان پر عمل ہو تو مجرمین عبرت کا نشان بن جائیں۔ اگر کوئی بھی شخص مکمل ثبوتوں کے ساتھ متعلقہ ادارے کو درخواست دے تو وہ ادارہ کارروائی کرتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ حکومت از خود کچھ نہیں کرتی، یہاں تو اگر پولیس کے سامنے قتل بھی ہوجائے تو وہ کہتے ہیں، اس وقت تک کارروائی نہیں کریں گے جب تک پرچہ نہ کروادیا جائے۔ اگر حکومت از خود کاررائی نہیں کرتی تو مسلمانوں میں سے ذمہ دار لوگوں کو چاہیے کہ ثبوت اکھٹے کریں اور متعلقہ ادارے کو دیں، جس کے بعد مجرم بہت جلد کیفرکردار تک پہنچ سکتے ہیں۔ طارق حسین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ جعلی اکاؤنٹ بنانے والے کو پکڑنا مشکل ہے، یہ بات سراسر غلط ہے، کیونکہ کوئی بھی شخص اگر جعلی اکاؤنٹ بناتا ہے تو اس کو پکڑنا انتہائی آسان ہے، کیونکہ کوئی بھی شخص نیٹ استعمال کر تا ہے تو جس موبائل اور کمپیوٹر وغیرہ سے استعمال کر رہا ہے، اس کنیکشن کا ایک نمبر ہوتا ہے، ایک آئی ڈی نمبر ہوتا ہے، جس کی مدد سے جعلی اکاؤنٹ والے کسی بھی شخص کو پکڑنا انتہائی آسان کام ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 626087 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.