لُغات واصطِلاحات

سوال:ڈاکٹر صاحب آپ کے کالم پڑھ کر الفاظ کے معانی میں بہت سے مشکلات حل ہوجاتی ہیں برا ئےمہربانی ہمیں ہجری مہینوں کے ناموں کے معانی سے تو آگاہ فرما دیں ۔(عبد العلیم –راوالپنڈی )
جواب:(محرم) :یہ باب تفعیل سے اسم مفعول کا صیغہ ہے،حرَّم الشَّيءَکا مطلب ہے اس نے اسے حرام کردیا ۔اسی مادہ سے لفظ احرام ہے ،اور احرام کا لفظ تکبیرۃ الاحرام میں بھی استعمال کرتے ہیں اور حج یا عمرہ کرتے وقت جو لباس پہنتے ہیں اسے بھی احرام کہتے ہیں ،یعنی تکبیر کہ کر اور احرام کا کپڑا پہن کر کچھ کام اپنے اوپر حرام کئے جاتے ہیں ۔اسی سے لفظ محارم ہے،یعنی وہ عورتیں اور مرد جن سے نکاح حرام ہوتا ہے،مسجد حرام کو احترام کی وجہ سے یہ نام دیاگیا ہے،مکہ مدینہ کو حرم بھی اسی لئے کہتے ہیں۔ ہجری سال کے پہلے ماہ کو محرم کہتے ہیں ۔اس کو محرم اس لئے کہتے ہیں کہ اسلام سے پہلے عربوں نے اس میں قتال کو حرام کیا ہوا تھا ،مورخین یہ بتاتے ہیں کہ محرم کا پہلا نام صفر الاول کے نام سے معروف تھا پھر بعد میں اسے محرم کہا گیا ہے ۔ اس لئے یہ دو مہینے (محرم اور صفر )صفرین سے بھی مشہور ہیں اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ صفر الاول کا نیا نام محرم اسلام کے ظہور کے بعد ہوا ہے ۔ علماءلغت کا یہ بھی کہنا ہے کہ محرم اگرچہ اس کا پہلا نام نہیں تھا لیکن اس ماہ کی صفت یہی تھی جو کہ اس پر غالب آگئی اور اس کا نام ہی محرم ہو گیا ۔جبکہ جاہلیت میں اس کا نام صفر ہی تھا ۔("المفصل في تاريخ العرب": ج15، ص290).

محرم کا نام جاہلیت میں معروف نہیں تھا اس لئے سخاوی فرماتے ہیں کہ عرب اس میں تبدیلی کرتے رہتے تھے ایک سال اسے حلال کر لیتےاور ایک سال اسے حرام کر لیتے تھے ۔ جب اسلام ظاہر ہوا تو نبی ﷺنے اس ماہ کا نام شہر اللہ المحرم رکھ دیا ۔ اسلام نے بھی ان حرمت والے مہینوں(ذوالقعدہ،ذوالحجہ،محرم،رجب) کا لحاظ رکھا ۔
(صفر)الصَّفَرُ : بھوک کو بھی کہتے ہیں اور پیٹ کی ایک بیماری کو بھی کہتے ہیں جس سے چہرا پیلا ہو جاتا ہے اور صفراءبھی اسی سے ہے جسے ہمارے ہاں پیلیا سے لوگ جانتے ہیں ،صفِرَ يَصفَر ، صَفَرًا وصُفورًا کامطلب یہی کہ وہ خالی ہو گیا ۔یہ ہجری سال میں دوسرا مہینہ ہے ۔اس ماہ کا نام صفر اس لئے رکھا گیا کہ عربوں کے گھراس ماہ میں اپنے اہل سے خالی ہو کر ویران ہو جایا کرتے تھےکیونکہ وہ قتال اور اپنے کھانے پینے کی تلاش ،اور گرمی سے بچاؤ کے لئے نکل جایا کرتے تھےجاہلیت کے ان گمراہ کن عقائد میں سے یہ بات ہے کہ وہ اس ماہ سے برا فال لیتے تھے اور اس برے اعتقاد کی بنیاد غالباً وہ حالات تھے جو اس ماہ رونما ہو جایا کرتے تھے کیونکہ یہ ماہ تین مسلسل حرمت والے مہینوں کے فورا بعد آرہا ہے ان مہینوں میں عام طور پر عرب قتل و قتال سے گریزاں رہتے تھے جبکہ اس ماہ میں بہت قتل و قتال ہوتا تھا ۔اس میں قبائل باہم لڑ پڑتے تھے جو بھی سامنے آتا تھا اسے مال ومتاع سے خالی کر دیتے تھے ،اس ماہ میں عام طور پر عرب عمرہ نہیں کرتے تھے ۔نبی کریم ﷺنے صفر میں برا فال لینے سے منع فرمایا ہے ،مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ ،جابر بن عبداللہ اور حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :((لا عدوى ولا صفر))اس حدیث میں لفظ صفر کے معنی میں اگرچہ بعض حضرات نے اختلاف کیا ہے اور معدے کی ایک بیماری بتلائی لیکن راجح یہی ہے کہ اس سے مراد مہینہ ٔصفر ہے ،لیکن اس بات پر علماء اسلام متفق ہیں کہ اس ماہ سے برا فال لینا درست نہیں ۔اس طرح کے غلط عقائد و نظریات جہالت کی وجہ سے مسلمانوں میں جڑ پکڑے ہوئے ہیں ۔ یہ ماہ مسلمانوں میں صفر الخیر کے نام سے بھی مشہور رہا ہے بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ برے فال لینے کا ری ایکشن ہے ۔لیکن اب بھی دنیا بھر میں لوگ برا فال لیتے ہیں اس ماہ کو غم کا مہینہ کہتے ہیں اور شادی وغیرہ سے احتراز کرتے ہیں ۔

(ربيع الأول):ربیع سردی اور گرمی کے درمیان کا مہینہ ہے اس ماہ میں سبزہ ہی سبزہ ہوتا ہے ،بہار کے موسم میں آنے کی وجہ سے اس کا نام ربیع ہو گیا ،ربع کے لفظی معنی کواٹر ،علاقہ ،ایریا ،ضلع کے آتے ہیں ،عربوں کے ہاں ربیع دو مشہور ہیں ،ایک ربیع الشہور اور ایک ربیع الازمنہ ،ربیع الشہور صفر کے بعد دو مہینے ہیں ،شہر ربیع الاول ،شہرربیع الآخر ،اور ربیع الازمنہ میں بھی دو ماہ ہیں ایک وہ جس میں سبزہ ،گھاس ،اور کلیاں اگتی ہیں اور ربیع الثانی (موسم)وہ ہوتا ہے جس میں پھل پکتا ہے ،ربیع کی جمع اربعاء و أربعة جیسے نصیب کی جمع أنصباء اور أنصبة آتی ہے۔

(ربيع الآخِر):اس کا نام ربیع بھی بہار میں آنے کی وجہ سے ہے ،اس (مہینے)کو ربیع الآخر کہا گیا ہے ربیع الثانی نہیں کہ سکتے اس لئے کہ جس کا ثانی ہوتا ہے اس کا ثالث اور رابع بھی ہو سکتا ہے ،جبکہ یہاں ثالث اور رابع نہیں ہے اس لئے اللہ تعالی کی صفات میں ‘‘ هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ ’’ [الحديد: 3] آیا ہے ،اور یہ اغلاط العوام میں ہے کہ لوگ ربیع الثانی اور جمادی الثانیہ لکھتے ہیں ،صحیح اس میں ربیع الآخر اور جمادی الآخرۃ ہے ]"أخطاء اللغة العربية المعاصرة"؛ أحمد مختار عمر، ص 131، 269).

(جُمادَى الأولى):اس ماہ کا نام اس لئے جمادی رکھا گیا کہ یہ سردی میں آیا اور اس میں پانی جم جاتا ہے ،یہ قمری سال میں دو ماہ پانچواں اور چھٹا ماہ ہیں اور یہ جمادی الاولی اور جمادی الآخرۃ ہیں عرب جمادی کو قحط اور تنگی کے دنوں میں شمار کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے : ظلَّت العين جمادى؛ یعنی جامد ہیں آنسو نہیں بہتے ان سے ۔

(جمادى الآخِرة) :اس کا نام بھی سردی میں آنے کی وجہ سے جمادی پڑگیا لیکن اسے جمادی الآخرہ کہا جائے گا جمادی الثانیہ نہیں کیونکہ اس میں ثالثہ اور رابعہ کا گمان ہوتا ہے جبکہ یہ صرف دو ماہ ہیں۔
(رجب):اس ماہ میں قتال چھوڑ کر عرب اس کی تعظیم کرتے تھے ،کہا جاتا ہے رجب الشئ :ہیبت اور عظمت والا ہونا ،اہل لغۃ یہ کہتے ہیں کہ عرب کے اس ماہ کی تعظیم کی وجہ سے اس ماہ کا نام رجب ہے ۔اور جب شعبان کو اس میں ملا دیا جاتا ہے تو رجبان کہا جاتا ہے۔

(شعبان ):اس ماہ کو شعبان اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں رجب میں بیٹھ جانے کے بعد عرب جنگوں اور لڑائیوں کی وجہ متفرق ہو جایا کرتے تھے ،اسی سے یشاعب ہے مطلب الگ ہونا ،انشعب عنی فلان ،مطلب وہ مجھ سے دور ہو گیا ۔شعبان رجب اور رمضان کے درمیان کی مہینہ ہے یہ تشعب سے ماخوذ ہے وہ پانی کی طلب میں الگ الگ ہو جاتے تھے ۔

(رمضان):یہ رمضاء سے مشتق ہے ان دنوں میں شدید گرمی ہو تی ہے ،رمضان مفرد ہے اس کی جمع رمضانات ،رمضانون اور ارمضۃ آتی ہے ،اسی سے ہے رمض الصائم اس کے پیٹ کی گرمی شدید ہو گئی یا اس لئے کہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے ۔

(شوال): کی جمع شولات آتی ہے اور یہ رمضان المبارک کے بعد آتا ہے اور اس کے بعد ذو القعدہ آتا ہے اگر اس لفظ کو ہم ش کے پیش کے ساتھ پڑھیں تو یہ شائل کی جمع ہے اور اس کے قریب ترین معانی میں تَشَاوَلَ القومُ عند القتال : یعنی ہر فریق نے دوسرے فریق کے سامنے ہتھیار بلند کیے سرنڈر ہوگئے ۔

(ذولقعدہ ): ذو القعدة بالفتح والكسراس کا نام یہ اس لئے رکھا گیا کہ عرب اس ماہ کی تعظیم کے لئے قتال سے بیٹھ جاتے تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس ماہ میں اسفار وغیرہ نہیں کرتے تھے یہ باب نصر سے ہے قَعَدَ (يَقْعُدُ) (قُعُودًا)عورت کو(قَاعِدَةٌ) کہتے ہیں اور بوڑھی خواتین کوالقواعد کہا گیا ہے اور اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام جب بیت اللہ کی دیواریں کھڑی کر رہے تھے تو اس کی بنیادوں کے لئے بھی لٖفظ قواعد کا استعمال ہوا ہے ۔

(ذوالحجہ ) :حج والا مہینہ ایک مرتبہ حج کرنے کو کہتے ہیں اور یہ ہجری سال کا آخری مہینہ ہے اس میں بھی عرب قتال وغیرہ سے بیٹھ جایا کرتے تھے اور اگر اسے الحجہ ح کے پیش کے ساتھ پڑہیں تو واضح دلیل کے معنی میں آتا ہے ۔اسی سے لفظ حاجی جس کی جمع حجاج آتی ہے ،اور حجۃ الوداع نبی کریم ﷺ کے آخری حج کو کہتے ہیں ۔
 
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 814270 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More