حفاظ کرام کی بے جا تنقید

رمضان المبارک کی رونق روزہ اور تراویح سے قائم ہے ،ان دونوں عبادتوں کو ماہ مبارک میں تمام چیزوں پر فوقیت اور ترجیح حاصل ہے ،روزہ فرائض خمسہ میں سے ایک ہے جس کی ادائیگی ہر ایک عاقل بالغ مسلمان پر ضروری ہے ،جبکہ تراویح سنت موکدہ ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالی عنہ کے زمانہ سے بیس رکعت تراویح پڑھنے کا معمول تسلسل کے ساتھ امت مسلمہ کے درمیان جاری ہے ،جس طرح رمضان میں پورے ماہ تراویح کی نماز کا اہتمام سنت ہے اسی طرح تراویح میں ایک ختم قرآن شریف کا سننا اور سنانا بھی سنت ہے اور نماز تروایح سے یہ دونوں چیزیں شریعت میں بیک وقت مطلوب ہیں ۔

دنیا کی تیز رفتاری کے ساتھ اب تراویح بھی تیز رفتار ہوگئی ہے ،پورے ماہ تراویح پڑھنے کے بجائے کہیں پانچ روزکی تراویح ہوتی ہے ،کہیں دس روزہ کی تروایح ہوتی ہے ،کہیں پندرہ روزہ تراویح پڑھی جاتی ہے تو کہیں حسب سابق پورے مہینہ یعنی رمضان کا چانددیکھنے کے بعد سے لیکر عیدکا چاندنظر آنے تک تراویح کا اہتمام کیا جاتاہے ،تاہم ہر ایک تروایح میں ایک ختم قرآن شریف کا اہتمام کیا جاتاہے ،پڑھنے والے شوق ورغبت کے ساتھ قرآن شریف سنتے ہیں ،مساجد میں جگہ کی قلت یا اپنی مصروفیت کی کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں ،دکانوں ،کارخانوں اور فیکٹریوں میں نماز تروایح کا اہتمام کرتے ہیں اور کسی حافظ کی خدمت حاصل کرکے قرآن شریف کی سماعت اور نماز تراویح پڑھنے کا شرف حاصل کرتے ہیں ۔

اس موقع پر پانچ اور دس دنوں کی تروایح پڑھانے والے حفاظ کرام کو عموما تنقید کا نشانہ بنایاجاتاہے ،ان پر یہ الزام عائد کیا جاتاہے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت شتابدی ٹرین سے بھی زیادہ اسپیڈ میں کرتے ہیں ،وہ ایسا پڑھتے ہیں کہ خود بھی سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں ،دوسرے لفظوں میں یہ کہناچاہتے ہیں کہ پانچ اور دس دنوں کی تراویح پڑھانے والے حفاظ کرام سراسر غلط کرتے ہیں کیوں کہ دس دنوں میں قرآن شریف کی تلاوت نہیں کی جاسکتی ہے ،ایسے حفاظ پر یہ حدیث پر بھی منطبق کردی جاتی ہے کہ جس میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بہت قرآن کی تلاوت کرنے والے ایسے ہوتے جن پر قرآن خود لعنت کرتاہے۔

حفاظ کرام کو تیز پڑھنے پر اس طرح کی تنقید کا نشانہ بنانے والے عموما وہ حضرات ہوتے ہیں جو حفظ قرآن کی دولت سے محروم ہوتے ہیں ،انہیں اندازہ نہیں ہوتاہے کہ قرآن شریف حفظ یاد ہوجانے کے بعد کتنی تیزی کے ساتھ واضح طور پر پڑھاجاسکتاہے وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہمیں ایک پارہ کی تلاوت کرنے میں ایک گھنٹہ وقت لگتاہے تو حافظ قرآن کو بھی ایک پارہ کی تلاوت کرنے کیلئے ایک گھنٹہ وقت چاہئے اس لئے پانچ دنوں کو تراویح کو دو گھنٹہ میں مکمل کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم کو صحیح سے نہیں پڑھا جارہا ہے بلکہ اس طرح کی تراویح قرآن کریم کا مذاق ہے ،جیساکہ ایک مرتبہ کچھ غیر حافظ طلبہ یہ تبصرہ کررہے تھے کہ اچھا ہے ہم لوگ حافظ نہیں ہیں اسی بہانے تراویح کے نام پر ملنے والی ناجائز رقم سے محفوظ ہوجاتے ہیں ۔

اس پوری تمہید کا مقصد صرف یہ بتانا اور ان باتوں کی وضاحت کرنا ہے کہ ایک حافظ قرآن کوایک پارہ قرآن کریم کی تلاوت میں صرف دس منٹ کا وقت لگتاہے ،تجوید کے رعایت کرتے ہوئے وہ پندرہ سے بیس منٹ میں ایک پارہ کی تلاوت کرنے پر آسانی سے قدرت رکھتاہے ،تراویح میں تلاوت سے زیادہ وقت ارکان صلاۃ یعنی رکوع ،سجدہ او رقعدہ وغیرہ میں صرف ہوتاہے ،اب اگر پورے ماہ والی تروایح ایک گھنٹہ میں مکمل ہوجاتی ہے تو دس روزہ تراویح کا ڈیڑھ گھنٹہ میں اور چھ روزہ تروایح کا پونے دو یا دو گھنٹہ میں مکمل ہوجانا کیسے خلاف فطر ت اور عجوبہ ہے ،اور کس طرح یہ قرآن کریم کی بے حرمتی پرمبنی ہے۔

اسی طرح ہر رمضان میں یہ مسئلہ چھیڑ دیا جاتاہے کہ تروایح پڑھانے والے کیلئے کچھ بھی لیناناجائز اور حرام ہے ،کچھ علاقوں میں باضابطہ پوسٹر چسپاں کردیا جاتاہے ، وہاٹس ایپ اور فیس بک پر اس طرح کامسئلہ بہت زیادہ گردش کررہاہے ،میرا خیال ہے کہ اس طرح کی بحث چھیڑنا اور امام تروایح کے نذرانہ پر سوال اٹھانا صراصر غلط ہے ،جس طر ح امامت اور قرآن کی تعلیم پر تنخواہ لینے کو جائز کہاجاسکتاہے اس تاویل کے ذریعہ کہ وقت کا پیسہ لیا جارہاہے نہ کہ نفس امامت اور قرآن کی تعلیم کا تو پھر تروایح میں یہ تاویل کیوں نہیں جبکہ تروایح میں پہلے سے کوئی تعین نہیں بھی ہوتی ہے ، سب سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، تراویح پڑھانے والے کا ایک لمحہ لمحہ مصروف ہوتاہے ،دن بھر یادکرنے کے بعد رات کو تروایح پڑھاتاہے اور پھر دوسری تروایح کی تیاری میں مصروف ہوجاتاہے ،دوسری بات تروایح پڑھانے والے کو ہدیہ دینے سے اس کا حوصلہ بڑھتاہے ،اس کی محنت کا معیار بلند ہوتاہے اور آئندہ حافظ قرآن مزید بہتر انداز میں تروایح پڑھانے کی کوشش کرتاہے،تروایح پڑھانے والے بہت سے ایسے طلبہ ہوتے ہیں جو اپنی تعلیم کا خرچ اسی پیسے سے پورا کرتے ہیں،گھر سے اخراجات نہ ملنے کے سبب چند سو اور ہزارروپیہ ان کی تعلیم کا سالانہ بجٹ بنتاہے۔

اس میں کوئی شک نہیں تراویح پڑھانے کا عمل بہت ہی مشکل اور دشوار طلب عمل ہے ،دوران نماز قرآن کریم کی زبانی تلاوت کرنا،کس رکعت میں کہاں سے شروع کرناہے ،کب سجدہ او ررکوع کرناہے ،دوسری رکعت میں کہاں سے قرآن کریم کی تلاوت ہوگی ،رکعات کی تعداد کی گنتی اور دیگر تمام چیزوں کو ذہنوں میں رکھتے ہوئے تراویح کی نماز پڑھائی جاتی ہے جس کا انداز تروایح پڑھانے والا ہے کرسکتاہے اور جب تک وہ تراویح پڑھاکر فارغ نہیں ہوجاتاہے اسے ذرہ برابر سکون نہیں ملتاہے ،ایک امام تروایح کا پورا رمضان تروایح پڑھانے کی نذر ہوجاتاہے اور وہ کچھ اور کام نہیں کرپاتاہے ،اس لئے نماز یوں اور مقتدیوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے امام تروایح کی بہتر انداز میں حوصلہ افزائی کرے ،انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرے ،وافر مقدار میں ہدیہ وتحائف سے انہیں نوازے ۔ساتھ حفاظ کرام کی کثرت کے پیش نظر یہ بھی ضروری ہوگیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مقامات پر تروایح کا انقعاد کیا جائے تاکہ حفاظ کرام کو قرآن کریم سنانے کا موقع مل سکے اور یہ کوشش ہوکہ کسی حافظ کا رمضان خالی نہ جائے۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 162319 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More