بیان الفرقآن۔۔۔میر واعظ مولانامحمد یوسف شاہ صاحب کا عظیم کارنامہ

تحریک پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر کی اہم کارکن،سرینگر میں قائد اعظم کے میزبان، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری کے شاگرد، تحریک خلافت کے سرگرم کردار، 13جولائی 1931کے شہدائے کشمیر کے مدفن کے قائد،مسلم کانفرنس کے بانی،آزاد کشمیر کے دو بار صدر اوردیگر متعدد حوالوں سے ایک نامور شخصیت کا آج یوم وصال ہے۔ایسی شخصیت جن کا سب سے بڑا کارنامہ جو کہ کشمیریوں پر احسان کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، ’’بیان الفرقآن‘‘ ہے۔ یہ کشمیری زبان میں قرآن مجید کا بامحاورہ ترجمہ اور تفسیر ہے۔اسے شاہ فہدبن عبد العزیز اشاعتی ادارہ سعودی عرب نے خادم الحرمین الشریفین کی جانب سے شائع کر کے لاکھوں کی تعداد میں مفت تقسیم کی ہے۔ الحمد ﷲ اس تفسیر کی ایک کاپی میرے پاس بھیموجود ہے۔ جو کہ دین اسلام اورکشمیری زبان وادب کا ایک نایاب تحفہ ہے۔

میر واعظ محمد یوسف شاہ بن غلام رسول شاہ ثانی بن محمد یحیٰ کی ولادت 24شعبان بمطابق 10فروری 1896کو سرینگر میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم اور چحچا کی نگرانی میں حاصل کی۔ گھر میں علمی ماحول تھا۔ تفسیر وحدیث ، فقہ و اصول دین کا درس مولانا محمد حسین وفائی سے لیا۔ والد کی وفات کے بعد 22سال کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند چلے گئے۔ یہاں شیخ الحدیث کی نگرانی میں 8سال گزارے۔ 1925میں واپس وادی لوٹے۔ درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔ ساتھ ہی کشمیر میں سیاسی بیداری مہم شروع کی۔ کیوں کہ دیوبند میں تحریک خلافت کے ساتھ وابستہ رہ چکے تھے۔ کشمیر میں بھی خلاف کمیٹی تشکیل دی۔ کشمیر میں پہلا قومی پریس مسلم پرنٹنگ پریس کے نام سے شروع کیا۔ دو جرائد’’ اسلام‘‘ اور’’ راہنما‘‘ کے نام سے جاری کئے۔ ساتھ ہی کشمیر میں اورینٹل کالج قائم کیا۔ ان کا بنیادی مقصد دین کی تعلیم و تربیت تھا۔ دین کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے انھوں نے پوری عمر وقف کر دی۔

آپ کے جد امجد مولانا محمد یحیٰ نے بھی قرآن کا کشمیری زبان میں ترجمہ کرنے کا کام شروع کیا تھا۔ لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور اس خواب کو سجائے مالک حقیقی سے جا ملے۔ یہ خواب مولانا یوسف شاہ صاحب نے پورا کرنے کا عزم کیا ۔انہوں نے کچھ کام وادی میں شروع کیا۔ مگر پاکستان ہجرت کی وجہ سے یہ مشن ادھورہ رہ گیا۔ پاکستان میں پھر سے اس پر کام شروع کیا۔ سات سال تک دن رات کی ریاضت کے بعد اﷲ کی مدد سے قرآن پاک کا کشمیری زبان میں ترجمہ مکمل کر لیا۔ آپ رقم طراز ہیں’’ قرآن پاک کا ترجمہ آسان کام نہیں، یہ بہت مشکل کام ہے۔ مجھ میں کلام مجہد کا ترجمہ کرنے کی قابلیت نہ تھی۔ لیکن یہ اﷲ تعالیٰ کا ہی کرم ہے کہ اس نے مجھے توفیق دی اور میرے ہاتھوں یہ کام انجام پایا۔ مجھے امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ میرا یہ کام قبول فرمائیں گے اور مجھے ا ن لوگوں کی فہرست میں شامل کریں گے جنھوں نے قرآن مجید کی اس طرح خدمت کی ہے‘‘۔

اس عظیم کام کو تکمیل تک پہنچانے کے 12سال بعد16رمضان المبارک 1388بمطابق 7دسمبر1968بروز جمعۃ المبارک مفسرقرآن مولانا یوسف شاہ صاحب مالک حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات کے چھ سال بعد ابتدائی دس پارے آپ کے والد میر واعظ غلام رسول شاہ کے سرینگر میں قائم کردہ ادارہ’’ انجمن نصرۃ الا سلام ن‘‘ے1974میں طبع کئے۔ مولانا کا قلمی نسخہ آپ کے فرزند میر واعظ مولوی محمد احمد کے پاس محفوظ ہے۔ جو راولپنڈی میں مقیم ہیں۔ آپ آزاد کشمیر آئین 1974کی ڈرافٹنگ کمیٹی کے رکن اور کشمیر کونسل کے بانی ممبر رہ چکے ہیں۔ جبکہ میراواعظ مولوی عمر فاروق کے چاچا ، ماموں او رپھوپھا ہیں۔
مولانا محمد یوسف شاہ صاحب کی سرینگر سے پاکستان ہجرت کی مختلف وجوہات تھیں۔ 1947کو وہ قیام پاکستان کے 22دن بعد قائد اعظم سے ملاقات کے لئے لاہور آئے۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے واپسی پر پابندی لگا دی۔ 1949کو جب پاک بھارت سیز فائر اقوام متحدہ نے کرایا تو ساری فیملی سرینگر سے راولپنڈی آگئی۔ قیدیوں کا تبادلہ ہوا تو اس میں میر واعظ خاندان بھی پاکستان آ گیا۔ کے ایچ خورشید ، اے آر ساگر سمیت 31کشمیری حریت پسند بھی تبادلے میں پاکستان آئے۔

بھارت کے خلاف سب سے پہلے مسلح جدوجہد بھی میرواعظ مولوی محمد یوسف شاہ کی تحریک پر شروع ہوئی۔ انہوں نے ڈی اے وی کالج راولپنڈی کی عمارت حاصل کی۔ کشمیری نوجوان جو ممبئی ، کلکتہ اور دیگر شہروں میں تھے۔ وہ قیام پاکستان کی خوشی میں کشمیر جانے کے بجائے پاکستان آگئے۔ ان میں کشمیر کو آزاد کرانے کی زبردست خواہش تھی۔وہ جدوجہد کرنا چاہتے تھے۔ انہیں راولپنڈی کے اس کالج میں مسلح ٹریننگ دی گئی۔ ان میں غلام محی الدین، سیف الدین، عبد العزیز وانی بھی شامل تھے۔ وہ کشمیر جا کر مہاراجہ کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے۔ بعض وادی گئے۔ مگر کامیابی نہ ملی۔ میرواعظ یوسف شاہ نے وادی واپس جانے کی کئی کوششیں کیں۔ جب گوجرانوالہ میں مقیم ایک کشمیر شیخ دین محمد گورنر سندھ کے بعد پاکستان کا وزیرامور کشمیر بنا تو انھوں نے بھی میرواعظ کی واپسی میں مدد کی۔ نصف ماہ تک میرواعظ تمام سامان سمیت امرتسر میں رہے۔ پنڈت نہرو نے سمجھوتہ کے لئے ایلچی بھیجے ۔ کشمیر میں بخشی غلام محمد وزیراعظم تھے۔ نہرو سمجھوتے کے مسودے پر دستخط چاہتے تھے۔ مگر میرواعظ نے اسے مسترد کر دیا اور امرتسر سے ہی واپس پاکستان کی راہ لی۔ میرواعظ واپسی اس لئے چاہتے تھے کہ 20سال سے وادی میں وعظ و تبلیغ کا کام رک گیا تھا۔ میرواعظ نے بھارت سے ڈیل نہ کی۔ وہ نہ بکے۔ اقتدار پر پاکستان کو ترجیح دی۔

میرواعظ مولوی محمد احمد نے ایک بار بتایا کہ اصغر مال روڈراولپنڈی میں واقع ان کی رہائش گاہ پر ہی آزاد کشمیر حکومت کی بنیاد پڑی تھی۔ مولانا یوسف شاہ صاحب اس مکان میں بیس سال تک مقیم رہے۔ محترم غلام دین وانی،ثنا اﷲ شمیم ،قائدسردار ابراہیم خان صاحب اسی مکان میں رہے۔میر واعظ صاحب نے مسلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے کئی ممالک کے دورے کئے۔

میرواعظ مولوی یوسف شاہ صاحب کا آج یوم وصال ہے۔ ان کی تحریکی اور دینی بے مثال خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ مظفر آباد میں ان کا جسد خاکی امانتاً دفن ہے۔ کشمیر آزاد ہونے پر سرینگر میں سپردخاک کرنے کی وصیت کی گئی ہے۔ اﷲ آپ کو جنت نصیب کرے۔ آپ کے درجات بلند ہوں۔اﷲ تعالیٰ آپ کے پسماندگان اور ہمیں دین اور تحریک کی خدمت کے مشن پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 484000 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More