تعلیمی اداروں کو سیاسی اکھاڑا بنانے کا رحجان خطرناک

تعلیمی اداروں میں آر ایس ایس نظریہ کو مسلط کرنے ، ان اداروں پر آر ایس ایس کی بالادستی قائم کرنے اور غیر آر ایس ایس نظریہ کے حامل تعلیمی وپروفیشنل اداروں کو بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے کے لئے وزیر اعظم ہندنریندرمودی قیادت والی این ڈی اے (قومی جمہوری اتحاد)حکومت کی زیر سرپرستی شروع خفیہ منظم ومنصوبہ بند مشن کا اثر گذشتہ دنوں جموں وکشمیر ریاست کے خطہ پیر پنچال میں بھی دیکھنے کو ملا۔یہ اثر عظیم روحانی شخصیت کے نام سے منسوب اعلیٰ تعلیم کی دانش گاہ”باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری“میں دیکھنے کو ملا جہاں طلبہ کے مابین کلاس کے اندر جانے یا نہ جانے کے معاملہ پر ہوئی معمولی نوک جھونک کو بنیاد بناکرچند سماج مخالف عناصر نے ادارہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔
باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری ملت کا عظیم اثاثہ!

تعلیمی اداروں میں آر ایس ایس نظریہ کو مسلط کرنے ، ان اداروں پر آر ایس ایس کی بالادستی قائم کرنے اور غیر آر ایس ایس نظریہ کے حامل تعلیمی وپروفیشنل اداروں کو بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے کے لئے وزیر اعظم ہندنریندرمودی قیادت والی این ڈی اے (قومی جمہوری اتحاد)حکومت کی زیر سرپرستی شروع خفیہ منظم ومنصوبہ بند مشن کا اثر گذشتہ دنوں جموں وکشمیر ریاست کے خطہ پیر پنچال میں بھی دیکھنے کو ملا۔یہ اثر عظیم روحانی شخصیت کے نام سے منسوب اعلیٰ تعلیم کی دانش گاہ”باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری“میں دیکھنے کو ملا جہاں طلبہ کے مابین کلاس کے اندر جانے یا نہ جانے کے معاملہ پر ہوئی معمولی نوک جھونک کو بنیاد بناکرچند سماج مخالف عناصر نے ادارہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔وہ مقدس جگہ جہاں انصاف پسند، حق، اخلاقیات،سماجی برابری، آپسی بھائی چارہ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، یگانگت، رواداری ، اتفاق واتحاد،یکجہتی، سلامتی کا درس دیاجاتا ہے، وہاں پر طلبہ وطالبات آپس میں بغلگیردکھائی دیئے، آگ زنی ہوئی، گاڑیوں کو نذر آتش کیاگیا۔دیکھتے ہی دیکھتے باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی سے متعلق خبریں قومی نجی چینلوں کی شہ سرخیاں بن گئیں۔جانبدارانہ اور زمینی حقائق کے برعکس نشر کی گئی ان خبروں میں فرقہ وارانہ رنگت دیکر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی جیسے یہاں اقلیتی طبقہ سے وابستہ طلبہ عدم تحفظ کا شکا رہیں اور ان پر ظلم وستم ہوا ہے۔ سرمائی راجدھانی جموں، جہاں اکثر نیشنل میڈیا بالخصوص الیکٹرانک چینلوں کے کیمرہ مین اور رپورٹرز/بیورو چیف رہتے ہیں، متحرک ہوگئے،کچھ نے راجوری کا رخ کیا تو کچھ نے اپنے وہاں موجود ذرائع سے رابطے قائم کرنا شروع کر دیئے اور چینلوں کے ذریعہ سنسنی پھیلانے کی کوشش کی۔ راجوری یونیورسٹی واقعہ کو این آئی ٹی سرینگر واقعہ کے ساتھ مشابہت دی گئی۔ریاست سے شائع ہونے والے چند انگریزی اور اردو اخبارات نے راجوری یونیورسٹی واقعہ کو صحیح طریقہ سے سامنے لانے کی کوشش کی جس سے کچھ حد تک توازن برقرار رکھا ،نہیں تو نیشنل چینلوں نے تو اس کو ایک معمولی واقعہ کو ’دھماکہ خیز‘طریقہ سے پیش کر کے ملک بھر کی راے عامہ کو گمراہ کرنے کی جی توڑکوشش کی تھی۔ضلع راجوری انتہائی حساس علاقہ ہے جہاں پر ایک معمولی سے بھی لاپرواہی یاغفلت سے کام لیاجائے تو اس کے دو رس نتائج برآمد ہوتے ہیں پر افسوس کا مقام ہے کہ جب سے مرکز میں این ڈی اے سرکار اقتدا رمیں آئی ہے، اس ضلع کے اندر چند طاقتیں نام نہاد ’حب الوطنی، قومی یکجہتی‘کی آڑ میں دو طبقوں کے مابین دراڑیں پیدا کرنے، سماج کو تقسیم کرنے کیلئے زیادہ سرگرم ہیں اور ان کے حوصلے کافی بلند دکھائی دے رہے ہیں۔آئے روز کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر یہ طاقتیں حالات کو خراب کرنے کی کوششیں کر تی رہتی ہیں۔ راجوری یونیورسٹی کا حالیہ معاملہ اصل میں یہ حیدر آباد یونیورسٹی، علی گڑھ مسلی یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور ملک کے دیگر درجنوں اعلیٰ تعلیمی اداروں، جہاں پر آر ایس ایس آئیڈیالوجی کی پیروی کرنے والے کم ہیں، کے خلاف شروع مہم کی ہی ایک کڑی کا حصہ ہے۔ این آئی ٹی سرینگر معاملہ کو’رائی کا پہاڑ‘بناکر پیش کر کے دوہفتوں تک نیشنل میڈیا نے خوب جانبدارانہ اور یکطرفہ خبریں شائع کر کے اپنی جھوٹی حب الوطنی کا ثبوت پیش کیا۔ جس طرح نیشنل میڈیا نے این آئی ٹی سرینگر معاملہ کو تشہیر دی، ا س سے راجوری میںموقع پرست اور سماج دشمن طاقتوں کے حوصلے بھی کافی بلند دکھائی دیئے جنہوں نے راجوری یونیورسٹی کے اندر ایک معمولی نوعیت کے معاملہ کو قومی میڈیا میں جگہ پانے کا نادر موقع سمجھا۔ کوئی سکول ، کالج یا یونیورسٹی ایسی نہیں جہاں طلبہ کے درمیان نوک جھونک یا تلخ کلامی نہ ہو، ایسی چھوٹی موٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں، جنہیں طلبا از خود ہی سلجھادیتے ہیں، زیادہ نوبت آئے تو متعلقہ انتظامیہ اس کو افہام وتفہیم سے حل کرادیتی ہے۔ باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری میں ایک ایسا معاملہ جوچند طلبا کا تھا، جس سے وہ خود ہی حل کرسکتے تھے ، پر مشتعل ہوکر ہندو ¿ انتہائی پسند تنظیموں بشمول ویشو ہندو پریشد کے کارکنان کا ادارہ کے اندر داخل ہونا، پھر ایک طبقہ کے طلبہ کو حالات خراب کرنے پر اُکسانے سے ملکی سطح پر اقلیتی طبقوں میں قائم اس تاثر کو تقویت ملتی ہے، کہ یہ ملکی سطح پر جاری مشن کی عمل آوری کوانجام دیاجارہاہے جس میں انہیں مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ اضلاع راجوری وپونچھ کا شمار جموں وکشمیر ریاست کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں ہمیشہ متعلقہ برسر اقتدار حکمرانوں کی نظریں آخر میں ہی جاکر پہنچتی ہیں۔ اگر ریاستی سطح پر 100روپے مختص ہوتے ہیں تو خطہ پیر پنچال کی بدقسمت عوام کو بمشکل 2یااڑھائی روپے ہی مل پاتے ہیں۔آج تک اگر اس خطہ کے لئے حکومتی سطح پر کوئی مخلصانہ اور تاریخی قدم اٹھایاگیا ہے ،وہ باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کاقیام ہی ہے، اس ادارہ کی بدولت اس خطہ کے ہونہار طلبہ وطالبات اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آرہستہ ہوکر آج ریاستی وملکی سطح پر زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں لیکن بہت سارے عناصر کو یہ بات ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی جس سے وقف اسلامیہ کے تحت قائم کیاگیا ہے میں ، غیر مسلم طلبہ وطالبات کے لئے اچھی خاصی ریزرویشن رکھی گئی ہے ، یہ ادارہ سیکولر ازم کی ایک بہترین مثال ہے، اس کے برعکس شری ماتاویشنو دیوی شرائین بورڈ کی طرف سے تعمیر کردہ شری ماتاویشنو دیوی یونیورسٹی کٹرہ میں ایسا نہیں ہے، وہاں پر غیر مسلم تدریسی وغیرتدریسی عملہ یا پھر طلبہ کی تعداد2فیصد سے بھی کم ہے۔ ایک ادارہ ، ایک دانش گاہ جس نے خطہ پیر پنچال میں علم کی شمع روشن کی، ہزاروں گھروں کو منور کیا۔ وہ چمن جس میں تیار ہوئے پھولوں کی مہک ریاستی وملکی سطح پر زندگی کے ہرشعبہ جات میں محسوس کی جارہی ہے، کو طرح طرح سے بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کچھ اپنوں نے اس کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹا تو رہی سہی کثر بےگانے نکال رہے ہیں۔یہاں زیر تعلیم طلبہ وطالبات کو چاہئے کہ وہ بیرونی عناصر کو کبھی کامیاب نہ ہونے دیں، ان کے اکسانے یا پشت پناہی پر کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے ان کی خود کی ذات پر اثر پڑے اور ساتھ ہی عظیم روحانی شخصیت سے منسوب اس ادارہ کی شبہہ خراب ہو۔طلبہ کو سمجھنا چاہئے کہ بیرونی طاقتیں، ان کا استعمال کر کے اپنی سیاسی روٹیاں سینکنا چاہتی ہیں، جس کا آپ کا زرا بھر فائیدہ نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہے۔ یہ وقت تعلیم وتربیت کا ہے۔ آج منفی ، غلط اور مخصوص ومحدود سیاسی مشن کی آبیاری کے لئے مہرے کے طور استعمال ہونے سے نہ صرف اپنا، بلکہ والدین، سماج اور قوم کا نقصان ہی ہوگا۔ تعلیم خطہ پیر پنچال کی سول سوسائٹی، دانشور طبقہ، ذی شعور افراد پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ادارہ کے خلاف رچی جارہی سازشوں کا توڑ کرنے کے لئے انفرادی واجتماعی طور مثبت رول ادا کریں اور ا س عظیم اثاثہ کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔یہ یونیورسٹی ایک ملی اثاثہ ہے جس کی تعمیر وترقی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس کو چھوٹے چھوٹے معاملات میں الجھا کر بدنام کرنے کے بجائے، اس کی مزید ترقی کے لئے اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ شری ماتاویشنو دیوی شرائین بورڈ کے تحت قائم ماتا ویشنو دیوی یونیورسٹی نے جس طرح قلیل مدت میں ترقی کے زینے طے کئے ہیں، وہ قابل رشک بات ہے، اس سے ہمیں تحریک لیکر اس دانش گاہ کی ترقی میں بھی چار چاند لگانے چاہئے۔ گذشتہ روز وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے ماتاویشنو دیوی شرائین بورڈ کے تحت تعمیر نرائین سپر سپشلٹی اسپتال کا افتتاح کیا جوکہ قابل رشک اور ہمارے لئے درس بھی ہے۔ ہمیں یہ سبق سیکھنا چاہئے کہ کس طرح غریب عوام کے دیئے ہوئے پیسے کا شرائین بورڈ منصفانہ استعمال کر رہی ہے، اسی طرح وقف اسلامیہ کی جائیدادکا بھی منصفانہ اور جائز استعمال ہو۔اسی شان وشوکت کوباباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کو بھی قائم ودائم رکھنا ہوگا۔تعلیمی ادارے ، دانش گاہیں اور پروفیشنل ادارے کو سیاسی اکھاڑہ بنانے کا جورحجان ملکی سطح پر مودی قیادت والی سرکار نے شروع کیا ہے اس کو اگر بند نہ کیاگیا تو مستقبل میں اس کے بہت برے اثرات مرتب ہونگے۔تعلیمی اداروں کو سیاست سے مبرا ہی رکھاجائے تو اس میں ہی سب کی بھلائی ہے۔اقتدار کے نشے میں چور ہوکر تعلیمی اداروں پر مخصوص آئیڈیالوجی کو مسلط کرنے، ان پر کنٹرول حاصل کرنے کی جوناکام کوشش کی جارہی ہے،ا س سے راجوری یونیورسٹی ادارہ کو محفوظ رکھنا ہوگا۔ کالج اور یونیورسٹی سطح تک طلباوطالبات کو جتنا زیادہ آزاد خیال چھوڑا جائے، اتنا ہی بہتر ہے تبھی وہ اچھے، برے کی تمیز کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں، تبھی انہیں ہر ایک کا احترام کرنے، ان کی عزت کرنے کا شعور پیدا ہوگا۔ طلبابرادری کو کسی مخصوص سوچ، خیال اور نظریہ کا پابند نہیں بنایاجاسکتا ، اگر بنانے کی کوشش کی جائے گی تو وہ ایک مہذب شہری نہیں بلکہ انتہاپسند تیار ہونگے جوکہ مستقبل میں قوم کی بربادی کا سبب بنیں گے۔
Altaf Hussain Janjua
About the Author: Altaf Hussain Janjua Read More Articles by Altaf Hussain Janjua: 35 Articles with 52851 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.