عوامی ہڑتالیں یا ذاتی بھوک ہڑتالیں

آجکل پاکستان میں تو کوئی ایسا رواج بن چکا ہے کہ ذاتی مسائل کے لیے بھی عام ہڑتال کی کالیں دی جاتی ہیں اور ساتھ ہی پہیہ جام کروانے کے لیے بھی کہہ ڈالا جاتا ہے کراچی جو ہمارا معاشی حب ہے ساٹھ فیصد سے زیادہ صنعتیں بھی وہاں ہیں اورپورے ملک سے زائد ٹیکس بھی وہیں سے حاصل ہوتا ہے پھر ایشیا میں موجود بہت بڑی بندر گاہ ہے اور ہماری بحری افواج کا ہیڈ کوارٹربھی یہیں ہے ۔اب وہاں آئے دن اگر ہڑتالوں کی کالیں دی جائیں گی تو بتائیں کہ معیشت کا پھر کتنا نقصان ہو گا؟ اور جوپراڈکٹس تیار کی جانی ہیں ان میں بحر حال کمی آئے گی۔بیرونی تجارت متاثر ہوگی تو زر مبادلہ کہاں سے آئے گا۔پرانے وقتوں کے لیڈر خود بھوک ہڑتال کرکے ذاتی جان کو نقصان پہنچانا فخر محسوس کرتے تھے۔گو کہ بھوک ہڑتال کرنا کوئی احسن عمل نہ ہے پھر بھی احتجاج کا یہی مؤثرذریعہ ہوتا تھا۔اب راہنمایان تو ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں ،کنٹینروں میں سفر کرتے ہیں اور عوام کو ہڑتا لوں پر لگا ڈالتے ہیں یعنی اپنی جان کو پیاری اورپرائی جان کو دکھیاری کرڈالنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔آغا شورش کاشمیری نے کئی گھنٹوں تک بھوک ہڑتال کی۔انڈیا میں تو راہنما اسی عمل سے مطالبات منواتے ہیں ۔وہ عوام کو ہلہ گلہ کی شہ نہیں دیتے نہ ہی فضول قسم کے جلوس نکالتے ہیں تاکہ ان کے کارکن اور عوام تکالیف سے نہ گزریں۔ٹریفک کا مسئلہ بھی پیدا نہ ہو۔پاکستانی لیڈروں پر چونکہ مفاد پرستی اور اقتدار پرستی کا ہی بھوت نہیں سوار بلکہ ہر شخص خود کو سب سے اوپر والی سیٹ پر بٹھانا اور پھر اپنی من مرضیاں کرنے کا خواہشمند ہے۔ اس لیے وہ بھوک ہڑتال تو کیا کریں گے وہ صرف چاہتے ہیں کہ کسی ہلہ گلہ کے نتیجے میں ان کے جذباتی کارکن بھڑک کرتوڑ پھوڑ کریں۔آپس میں دست و گریبان ہوں کوئی جان سے جائے تو مزہ چوکھا آوے گا۔ایک"شہید "کی لاش کو لے کر خوب سیاسی دوکانداری چمکے گی۔بیچارا جان سے گیا اور انھیں استعمال کرنے کے لیے لاشہ مل گیا۔ایوبی دور کی بات ہے کہ بیرونی ممالک کے سفارتخانے اور ایجنسیاں باقاعدہ طلباء و عوام کو بھڑکانے والے لیڈروں کو چوکھا مال لگاتی تھیں کہ اگر آپ ہڑتا ل کرواؤ گے تو اتنی رقم ملے گی اگر لاٹھی چارج کروانے اور آنسو گیس بھی مجمع پر پھنکوانے میں کامیاب رہے تو پھر رقم کئی گنابڑھ جاتی۔وہ کھلم کھلا سود ا کرتے تھے کہ اگر کوئی لاش یا لاشیں بھی گرواسکو تو پھر تو وارے کے نیارے ہو جاتے اور ڈھیروں مال مل جاتا تھا۔بیرونی ممالک خصوصاً سامراجی و کیمونسٹ ممالک نے طلباء ،مزدوروں (سبھی محنت کشوں)میں اپنی تنظیمیں قائم کر رکھی تھیں جو کہ خالصتاً ان کے اشارے پر اور ان کے مفاد کے لیے کام کرتی اور انہی کے نعروں کی آبیاری کرتی تھی۔اس دور میں سرخ ہے سرخ ہے۔سبز ہے سبز ہے کے نعرے ایجاد ہوئے۔بحر حال جو بھی حالات رہے ملک بھر میں اسلام پسند طلباء تنظیموں اور بائیں بازو کی تنظیموں میں زبردست مقابلے ہوئے طلباء یونینوں پر تو زیادہ آئی ۔جے۔ٹی کے راہنما منتخب ہوتے رہے جو کہ ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔اور مزدور یونینوں پر بحر حال لیفٹ غالب رہا ۔ضیاء نے ایوبی آمریت کاطلباء تحریکوں کے نتیجہ میں حشر نشر ہوتا دیکھا تھا اس لیے طلباء یونینوں پر ہی پابندی عائد کرڈالی ۔جسے کسی سیاسی راہنما نے بطور ایشو مؤثر طریقہ پر نہیں اٹھایا کیونکہ طلباء تو ہر اقتدار کے آگے ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے رہے ہیں۔اور طلباء تحریکوں نے ہی کسی سیاسی تحریک کو جدت و حدت دی۔اور بعض ایجی ٹیشن تو اپو زیشنی سیاسی اتحادوں کی طرف سے طلباء کی قیادت میں ہی شروع ہوئے جیسے متحدہ مجلس عمل(یو ڈی ا یف)کی سول نافرمانی تحریک1973 کا پہلا جلوس مسلم لیگ ہاؤس لاہور سے راقم الحروف کی قیادت میں نکلنے کا طے ہوا۔گیٹ سے باہر نکلا ہی تھا کہ سرکاری غنڈوں نے حملہ کردیا۔ اورپولیس نے آنسو گیس پھینکنا شروع کردی ۔سر پھٹاہفتوں جنرل ہسپتال میں بے ہوش پڑا رہا "زندہ شہید"کا لقب دینی راہنماؤں نے عنایت کیا۔طلباء نے مختلف ادوار میں جدوجہدکے ذریعے مقتدر افراد کے تخت الٹا دیے ۔ایوبی ،یحیٰی خانی آمریت ہو یابھٹو کی آمرانہ جمہوریت ،ضیاء الحقی اسلامی مارشل لاء طلباء کا کردار اس میں سب سے زیادہ بھاری بھرکم رہا ہے۔طلباء جلوس نکلتے ہی فوراً ان کے مطالبات کو پذیرائی مل جاتی تھی ۔احتجاج کی نوعیت کبھی توڑ پھوڑ یا کاروباری حضرات کو تنگ نہ کرتی تھی۔موجودہ سیاسی لیڈر صرف عوام کو تکالیف پہنچاتے اور کاروباری حضرات کاتو ناطقہ بند کرڈالتے ہیں۔غریب مزدوردیہاڑی پر رزق کمانے والے ،تازی کما کر شام کو کھانے والے ریڑھی پر معمول کا مال فروخت کرنے والے،سبزی و فروٹ فروش سبھی ہڑتا لوں جلسوں جلوسوں،ددھرنوں سے کروڑوں کا نقصان برادشت کرتے ہیں۔اسلیے سیاسی مچھندروں کوانتہائی ضروری معاملات اور ہنگامی صورتحال کے بغیر ہڑتا لوں ،دھرنوں جلوسوں کے ذریعے عوام کو قربانی کا بکرا بنانے سے احتراظ کرنا چاہیے۔گو عمل اچھا نہیں مگر خود کو بھوک ہڑتالوں یا دوسرے احتجاجی طریقوں پر ڈالیں ۔

خود تکلیف برداشت کریں تاکہ عوام کا خون نہ بہے اور آپ کے مطالبات بھی پورے ہوجائیں۔ملکی معیشت کا پہیہ بند نہ ہو بلکہ مسلسل رواں دواں رہے۔ اور آمد ورفت و رسل و رسائل کے ذرائع مخدوش نہ ہوں۔میں خود نشتر میڈیکل کالج ملتان سٹوڈنٹ یونین کا منتخب عہدیدار تھاپورے ملک کے پیرا میڈیکل سٹاف اورنوجوان ڈاکٹروں کی تنظیم کا بھی صدر تھااور 1973میں196گھنٹے بھوک ہڑتا ل کرکے درینہ مطالبہ پورا کروایا۔لیڈروں کو ہمیشہ چوپڑی اور دو دو کھانے کی عادت پڑی ہوئی ہے کبھی کبھار انھیں بھی بھوکوں رہنے کی پریکٹس ہونی چاہیے ۔تکلیف کے بعد ہی راحت نصیب ہوتی ہے اور ہمارے سیاسی راہنماایکڑوں پر مشتمل رہائش گاہوں میں رہتے اور پر تعیش زندگی گزارتے ہوئے اقتدار کے تخت پر براجمان رہنا چاہتے ہیں یا کسی سے چھین کر کوئی دوسرا قابض ہوجانا چاہتا ہے۔آخر کیوں ؟سرمایہ پرستی کا سفینہ کب ڈوبے گا ؟اور سود در سود سینکڑوں گنا منافع کمانے والے صنعتکارانہ مقتدرافراد کب کیفر کردار کو پہنچیں گے۔بحر حال ا خدا کی حکومت قائم ہو کر جغادری پہلوان نما سیاستدانوں سے تخت بذریعہ بیلٹ چھن جانے کے دور کی آمد آمد ہے۔کبھی سیاسی راہنما عظمت کے پہاڑ ہوتے تھے آجکل بے آب و گیاہ جنگل میں گھومنے والے درندے اور بھیڑیے بنے ہیں جو اپنے شکار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں کہ شکار ہاتھ آئے تو اس کا خون پی جائیں۔اسی طرح مقتدر سیاستدان ہر صورت قائم دائم رہنے کے ہتھکنڈے اختیار کرتے اور اپوزیشنی افراد کسی بھی جائز ناجائز ذریعے سے اقتدارپر قابض ہو جانے کی خواہشات سے مغلوب ہیں تاکہ سابقہ حکمرانوں کی طرح خزانوں پر مکمل قبضہ ہو اپنی اولادوں،رشتہ داروں کو ساری اقتدرای کرسیوں پر براجمان کرکے اقتدار کو مستقل بنانے کے خوا ہاں ہیں۔ایوبی آمریت کے خلاف تحریک کے ابتدائی ادوار تھے ۔لوگ کوئی صورت نہیں سمجھ رہے تھے کہ ایوب خان سے بھی کوئی اقتدار چھین سکتا ہے۔ قائد اعظم ؒ کی بہن محترمہ فاطمہ جنا ح کو جعلی صدارتی انتخابات میں ہرا کر مستقبل پکا صدر بن بیٹھا تھا ۔دس سالہ ترقیاتی کاموں کے جشن منائے جارہے تھے۔اپوزیشنی پارٹیوں کے اتحاد ڈیک کے لاہور کے منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مودودی نے کہا تھا کہ" ڈکٹیٹر اپنے اردگرد بالشتیے ہی جمع کرتا ہے تاکہ اس کا قد سب سے نمایاں نظر آئے "مزید فرمایا" ڈکٹیٹر جب اقتدار کی تبدیلی کے سب راستے بند کردیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب اسے کوئی نہیں نکال سکتا تو ایک راستہ کھلا رہ جاتا ہے جس میں سے اس نے بحر حال جانا ہوتا ہے اوروہ ہے خدائی راستہ۔ اس پر لاہوری جھومنے لگے اورجب لاہوری چل پڑیں تو سمجھیں کہ پورا ملک چل پڑا۔اور ایوب اقتدار سے رخصت ہو کر رہا۔
Mian Ihsan Bari
About the Author: Mian Ihsan Bari Read More Articles by Mian Ihsan Bari: 278 Articles with 180703 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.