لڑکیوں کی شادی کے بڑھتے ہوئے مسائل

پاکستان کی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق 20کروڑ تک پہنچ چکی ۔ آبادی کا 51فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے جبکہ چند سال قبل ہونے والے ایک سروے کے مطابق ہمارے گھروں میں 4کروڑ کی تعداد میں بالغ خواتین رشتے نہ ہونے کے باعث موجود ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مادیت پرستی نے جس طرح دیگر خرابیاں پیدا کردی ہیں ان میں سے ایک خرابی بروقت رشتوں کا نہ ہونا بھی ہے۔ ہم نے جس طرح جہیز، مال، عہدہ، مرتبہ، خاندان، حسن، سرکاری ملازمت ، تعلیم اور دیگر کئی وجوہات کو بنیاد بناکر رشتوں کو مشکل بنادیا ہے اسکے باعث زناء عام ہورہاہے۔ لڑکیاں شادی کرنے کی عمر سے نکل رہی ہیں لیکن اس اہم مسئلے کی طرف کوئی بھی توجہ دینے میں مخلص نہیں ہے۔ ہمارے دین نے رشتوں میں تین اہم باتوں کو مدنظر رکھنے کی تلقین کی ہے۔ خاندان ، شرافت اور حسن ۔ ہم اپنے رشتوں میں حسن اور مال کو مقدم رکھتے ہیں ۔ شرافت اور خاندانوں کو پس پشت ڈالنے کے باعث کئی شادیاں بھی ناکام ہوجاتی ہیں۔ طلا ق کی شرح میں ہونے والے اضافہ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے جبکہ لڑکی والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ لڑکا مالدار ہو چاہے شرافت چھوکر بھی نہ گزری ہو۔ اسی طرح جو بھی لڑکی یونیورسٹی ، کالج سے پڑھ کر فارغ ہوتی ہے اکثراپنے سے کم تعلیم یافتہ سے شادی کرنے کو تیا ر ہی نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر کوئی لڑکی ملازمت کرتی ہے تو وہ اپنے سے کم ملازمت کرنے والے کو گھاس نہیں ڈالتی جس کے باعث گھروں میں بیٹھی رہتی ہیں۔ عمر ڈھل جاتی ہے بعد ازاں والدین اور اپنے لئے بھی پریشانی کا باعث بنتی ہیں ۔ میں نے اپنے ارد گرد کتنے ایسے رشتے اور لڑکیاں دیکھی ہیں جو اپنے سے کم تعلیم یافتہ لڑکے سے شادی نہ کرنے کے باعث بیٹھی رہ گئی اور بڑھاپے کی دہلیز کو پہنچ گئیں۔ حالانکہ اگر کوئی لڑکا شریف اور خاندانی ہے تو کم پڑھے لکھے کی رکاوٹ کو برداشت کرکے رشتوں کو قبول کرنا چاہئے۔ اسی طرح لڑکو ں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ بھی لڑکیوں کی شادیوں میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر ہم دونوں جانب سے رشتوں میں شرافت، خاندان، سادگی کو اپنائیں تو شادیوں میں رکاوٹ کا سلسلہ بقدرے بہتر ہوسکتاہے۔ ہمارے مالدار لوگ اپنے عروسی جوڑوں پر لاکھوں روپے کی رقم برباد کردیتے ہیں جن سے کئی غریب لڑکیوں کو رخصت کیا جاسکتاہے لیکن نمود و نمائش، جھوٹی خاندانی آن بان اور شان کیلئے ہم پانی کی طرح شادیوں پر رقم برباد کردیتے ہیں۔ لیکن زکوۃ و عشر ادا کرنے کو کہا جائے جس کی مدد سے کئی کنواری لڑکیاں شادی کے بندھن میں بندھ سکتی ہیں تو ہمیں سانپ سونگھ جاتاہے۔ 90فیصد لوگ زکوۃو عشر جو کہ بیواؤں، یتیموں، بیماروں، غریبوں کا حق ہے ، کو دباکر بیٹھے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ KPKاور بلوچستان میں پٹھانوں کی کئی قومیں اپنی بیٹیوں کی شادی کے عوض بھاری رقم وصول کرتے ہیں جسے ان کے بقول وہ کھانہ، جہیز اور دیگر رسومات میں خرچ کرتے ہیں۔ ایسے رواجات میں غریب کیلئے شادی کرنا محال ہوجاتاہے کیوں کہ وہ خطیر رقم کا بندوبست کرنے سے قاصر ہوتاہے جسکے باعث لڑکیاں گھروں میں بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ اسکے علاوہ ہمارے اکثر وڈیرے، جاگیردار، سرمایہ دار، جائیداد کے تقسیم ہونے کے خطرے کے باعث بھی اپنی لڑکیو ں کی شادی سے جان بوجھ کر کتراتے ہیں بعض علاقوں میں تو خصوصا سندھ میں قرآن کیساتھ شادی کا ڈھونگ رچاکر ایک فطری عمل اور سنت نبوی ﷺ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ ہمارے مذہب اسلام نے مسلمان کو چار شادیوں کی اجازت دے رکھی ہے۔ ہاں اگر وہ انصاف کرسکے تمام کے حقوق کو پورا کرے تمام کے ساتھ یکساں اور برابری کا سلوک رواں رکھے لیکن بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ کیوں کہ ہندوؤں کے ساتھ زمانہ قدیم سے رہتا چلا آیا ہے ، اسلئے تاحال ہمارے اندر ان کی رسومات او رطور طریقے موجود ہیں۔ ہندوؤں میں دوسری شادی کو بہت معیوب سمجھاجاتاہے جبکہ بیوہ سے شادی بھی معیوب اورنحوست سمجھی جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے مذہب میں چار شادیوں کے علاوہ بیوہ سے شادی کی بڑی فضیلت بتائی گئی ہے۔ آپ اگر براعظم افریقہ ، عرب ممالک وغیرہ جائیں تو وہاں پر جھگیوں میں رہنے والوں نے بھی چار چار شادیاں کی ہوتی ہیں۔ وہ ہم پاکستانیوں کو یتیم، مسکین، غریب کہتے ہیں۔ وہاں کی عورتیں اور مرد دونوں ہماری ایک شادی پر حیران ہوتے ہیں اﷲ ہماری عوتوں کو یہ توفیق اور ہمت دے کہ وہ یہاں کے مردوں کو مزید شادیوں کی اجازت دے دیں تو مرد و زن دونوں کے کافی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ چند دن قبل میں نے سعودی عر ب کے ایک مفتی کا مفتوی انٹرنیٹ پر پڑھا تھا جس میں غالبا انہوں نے کہا تھا جسکا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان وسائل کے ہوتے ہوئے مزید شادیاں نہیں کرتا تو اسے جوابدہ ہونا پڑے گا(واﷲ اعلم) کیوں کہ لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے اسلئے اگر فراخدلی کا مظاہرہ کریں تو کافی حد تک مسئلے پر قابو پایاجاسکتاہے۔

ہمیں اپنے اندر موجود ہندوانہ رسومات اور سوچ کو بھی تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ شادیوں، رشتوں میں اسوہ حسنہ کو اپنانا چائے۔ ہمارا مذہب ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسمیں زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس کی رہنمائی ہمیں نہ ملتی ہو۔ ہم نے یہود و نصاری کی تقلید میں اپنی بچیوں کے سروں سے دوپٹے اتاردئیے ، پردے ختم کرنے پر زور ہے، میری اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں سے ان سطور میں گذارش ہے کہ عورت کیلئے حیاء، پاکیزگی اسکا بڑا زیور ہے۔ اکثر مرد چاہے وہ جتنا بھی عیاش اور گناہ گار کیوں نہ ہو چاہتاہے کہ اسکی بیوی حیاء اور پردہ دار ہو۔ ایک وقت تھا مجھے یاد ہے کہ کراچی میں لوگ پردہ کرنے والی لڑکیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر بیاہ کر لے گئے۔ اﷲ تعالی نے عورت کا حسن اسکے پردہ میں رکھاہے۔ ہم جتنا زیادہ اسلامی شعائر کو اپنائیں گے اپنی خواہشات کو اپنے دین کے تابع رکھیں گے اتنی ہی آسانیاں اور اﷲ کی مدد و نصرت ہمیں حاصل ہوگی۔ ہمارے نبی ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا جسکا مفہوم ہ کہ جب جنازہ تیار ہو تو اسکے کفن دفن میں جلدی کرو اور جب لڑکی کے جوڑ کا ساتھی مل جائے تو نکاح میں جلدی کرو۔ کیوں کہ لڑکی کی شادی میں غیر ضروری تاخیر بہت سی قباحتوں اور خرابیوں کا باعث بنتی ہے۔ آجکل بعض تنظیموں کی جانب سے اجتماعی شادیوں کا سلسلہ بھی چل پڑاہے اچھی بات ہے لیکن ہماری حکومتوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔ والدین بچوں کو موبائل، کمپیوٹر و دیگر لغوباتوں سے دور رکھیں کیوں کہ ان کے بے جا استعمال کے باعث طلاق کی شرح، گھروں سے بھاگ کر پسند کی شادیوں کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے جس کا ہمارا معاشرہ متحمل نہیں ہوسکتا۔
Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 137262 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.