کون تھے محمد علی کلے؟

ہفتے کی صبح جب امریکی ریاست کینٹکی کے قصبے لوئی وِل میں لوگ سو کر اٹھے تو انھیں خبر ملی کہ ان کے قصبے کے باسی اور شہرہ آفاق باکسر محمد علی انتقال کر گئے ہیں۔ویسے تو 74 سالہ محمد علی ایک عرصے سے پارکنسنز کی موذی بیماری سے نبرد آزما تھے لیکن اس کے باوجود ان کی موت نے بہت سوں کو صدمے میں مبتلا کر دیا۔ان کی موت پر سماج کے افراد کا کیا تاثر ہے وہ میں بی بی سی اردو کے حوالے سے پیش کر رہا ہوں۔آرا مشین پر کام کرنے والے کیون اشمائیل کہتے ہیں: ’میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اتنی جلدی چلے جائیں گے۔‘ اشمائیل لوئی ول میں دریا کے ساحل پر واقع محمد علی میوزیئم میں جا کر پھول چڑھانے والے اولین لوگوں میں شامل تھے۔محمد علی کے خاندان کے ایک ترجمان کے مطابق ان کا انتقال سیپٹک شاک سے ہوا۔لوئی ول ایئر پورٹ سے گاڑیوں کے ایک قافلے کی شکل میں محمد علی کے تابوت کو لوئی ول کے اسلامی سینٹر لایا گیا ہے۔لوئی ول اسلامی سینٹر میں منعقد ہونے والی دعائیہ تقریب میں مسلمان، مسیحی، یہودیوں سمیت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور انھیں خراجِ تحسین پیش کیا۔لوئی ول ایئر پورٹ سے گاڑیوں کے ایک قافلے کی شکل میں محمد علی کے تابوت کو لوئی ول کے اسلامی سینٹر لایا گیا ہے۔لوئی ول اسلامی سینٹر میں منعقد ہونے والی دعائیہ تقریب میں مسلمان، مسیحی، یہودیوں سمیت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور انھیں خراجِ تحسین پیش کیا۔امریکہ کے سابق پروفیشنل باکسر جارج فورمین نے محمد علی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ’محمد علی آپ کو ان سے پیار کرنے پر مجبور کرتے تھے۔‘جارج فورمین کا مزید کہنا تھا: ’ وہ ایک بہترین شخص تھے، آپ باکسنگ کو بھول جائیں، وہ ٹی وی اور میڈیا پر آنے والے دنیا کی بہترین شخصیات میں سے ایک تھے۔‘واضح رہے کہ محمد علی نے سنہ 1974 میں ہونے والے باکسنگ کے معروف مقابلے ’دی رمبل ان دی جنگل‘ میں جارج فورمین کو شکست دی تھی۔جارج فورمین اور محمد علی کے درمیان 42 برس پہلے ہونے والے اس مقابلے کو کھیل کے کسی بھی مقابلے میں سب سے زیادہ مشہور لمحات میں سے ایک کے طور پر کہا جاتا ہے۔اس سے پہلے خاندان کے ذرائع نے کہا ہے کہ جمعے کو ان کا بہت بڑا جنازہ منعقد کیا جائے گا تاکہ ’دنیا بھر کے لوگوں کو انھیں خداحافظ کہنے کا موقع مل سکے۔‘39 سالہ آرنلڈ میتھس کہتے ہیں: ’جب میں نے خبر سنی میں بچوں کی طرح رو دیا۔ مجھے یہ بہت عجیب لگتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ چل بسے ہیں لیکن یہ خبر ابھی میرے دل کو نہیں لگی۔‘ میتھس میوزیئم جا کر اپنے ہیرو کی یاد میں شمع روشن کریں گے۔محمد علی کے انتقال کی خبر ہر مقامی ٹیلی ویڑن اور ریڈیو سٹیشن پر تھی۔ مقامی اخبار کے پہلے صفحے پر صرف اتنا لکھا تھا: ’عظیم ترین،‘ اور ساتھ 1965 میں محمد علی کی سونی لسٹن کے خلاف میچ کی تصویر تھی۔صبح کے وقت لوئی ول کے سٹی ہال کے پرچم سرنگوں کر دیے گئے۔قصبے کے میئرگریگ فشر نے کہا: ’محمد علی پوری دنیا کی ملکیت ہیں، لیکن ان کا صرف ایک آبائی قصبہ تھا۔ لوئی ول لِپ (محمد علی) ساری دنیا سے مخاطب تھے لیکن جیسا ہم انھیں سنتے تھے ویسے کوئی اور نہیں سن سکتا تھا۔ وہ ہمارے بھائی، ہمارے چچا تھے، وہ ہمارے لیے تحریک کا باعث تھے۔‘لوئی ول میں ہر کسی کے پاس محمد علی کے بارے میں کوئی نہ کوئی ذاتی کہانی موجود ہے، چاہے وہ ان کی پسندیدہ لڑائی پر مبنی ہو، یا 3302 گرینڈ ایونیو پر واقع ان کے آبائی گھر کے بارے میں۔ اس گھر کو حال ہی میں میوزیئم کا درجہ دیا گیا ہے، اور اس کے اندر 1950 کی دہائی کا وہی ماحول دکھایا گیا جب ہے محمد علی باکسنگ کا فن سیکھ رہے تھے۔سہ پہر کے وقت تک یہ گھر غباروں، پھولوں اور تعزیتی کارڈوں سے بھر گیا۔وائلٹ اور لارنس منٹگمری سڑک کی دوسری طرف رہتے ہیں۔ وہ محمد علی کو پانچ برس کی عمر سے جانتے ہیں جب ان کا نام کیسیئس کلے تھا۔ علی اور ان کے بھائی رحمان منٹگمری کے تین چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال میں ہاتھ بٹاتے تھے، جس کے بدلے میں انھیں سینڈوچ ملا کرتے تھے۔لارنس کے پاس ایک کتبہ ہے جس پر محمد علی نے ان کے بارے میں لکھا تھا ’میرے پہلے باسلارنس نے کہا: ’مجھے دکھ ہے کہ میں نے ایک اچھا دوست کھو دیا ہے۔ لیکن دوسری طرف انھیں 30 سال سے یہ مرض لاحق تھا اور وہ سالہاسال تک اس سے نبرد آزما تھے۔‘علی ان سے ملنے اکثر آیا کرتے تھے جس کے شواہد وائلٹ کے البم سے ملتے ہیں جس میں باکسنگ چیمپیئن کی کئی تصاویر موجود ہیں جن میں وہ ان کے گھر جادوئی کرتب دکھاتے نظر آتے ہیں۔ایک نوٹ میں علی نے وائلٹ کو مخاطب کر کے لکھا: ’زندگی کا مزا لو، جتنا ہم سمجھتے ہیں اس سے زیادہ دیر ہو چکی ہے۔‘رحمان علی بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ پہنچ گئے۔ انھوں نے کہا: ’مجھے آنسو روکنا پڑ رہے ہیں۔ یہ میرے زندگی کا سب سے دکھی دن ہے۔ میرا بھائی چلا گیا، میری خواہش تھی کہ میں پہلے جاتا۔‘انھوں نے لوئی ول اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے بھائی کے مداحوں کا شکریہ ادا کیا۔ ’میں اسے بڑی عزت افزائی سمجھتا ہوں کہ میرے بھائی کو اس قدر توقیر اور پیار ملا۔ کوئی دوسرا محمد علی نہیں آئے گا۔ وہ عظمت کے لیے پیدا ہوئے تھے۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101566 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.