لاعلمی‎

فرحین ذرا ادھر تو دیکھو !
تہنیت نے اس کو کہنی مارتے ہوئے سرگوشی کی...تو وہ چونک اٹھی .
اس وقت وہ بازار میں موجود تھیں اور ایک سٹال سے خریداری کررہی تھیں .
اس نےنظر اٹھا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ دائیں طرف موجود پلر کے ساتھ ٹیک لگائے ایک لڑکا کھڑا ہے جس کی نظریں انہی دونوں پر جمی ہیِں .خصوصا تہنیت کی آنکھوں میِں آنکھیں ڈال کر بےباکی سے دیکھ رہا ہے.

اور ادھر تہنیت بھی شاید نظر چرانے کو اپنی شکست سمجھ رہی تھی تبھی جوابا مسلسل گھورنے کا عمل جاری تھا...
یہ صورتحال دیکھ کر فرحین نے شانے اچکادئیے اور دوبارہ سٹال کا جائزہ لینے لگی...
کچھ فینسی پنیں خریدنے کے بعد اس نے تہنیت کو بازو سے پکڑا اور چل پڑی. وہ لڑکا ابھی تک وہیں موجود تھا ...
تہنیت ! کیا ہوگیا ہے تمہیں ؟
ارے بھئ کچھ بھی تو نہیں !
ایک دم لفنگا تھا ، ذرا شرم نہیں آتی ...
اس کی بڑبڑاہٹ جاری تھی. اسی دوران وہ مختلف دکانوں میں جاکر مطلوبہ خریداری کرتی رہیں.
باجی ! ادھر آئیں . لان کے سوٹوں پر سیل لگادی ہے . ایک طرف سے یہ آواز آتی تو دوسری جانب سے دوسری.....
دکانداروں کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ گاہک کو بازو سے پکڑ کر اپنی دکان میں لے جائیں !
ایک تو بازار میں گاہکوں کا رش اور دوسرا ان شریر لڑکوں کا جو حسیناوں کو خراج حسن و عقیدت پیش کرنے جیسا عظیم مقصد لے کر آئےتھے. انہی میں سے کچھ تو راہ چلتے چلتے کوئ چست سا فقرہ اچھال دیتے تو کچھ اشارے کنائے سے کام چلالیتے...
تہنیت سب کو گھورتی ہوئ غصے سے تن فن کرتی چلی جارہی تھی. فرحین البتہ راستے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھی مگر ساری صورتحال سے باخبر تھی.
کچھ تو عجیب رویوں کے مالک عجیب ہی لوگ ہوتے ہیں.دکانداروں کو خواتین خریداروں سے بحث کرنے کا لطف آتا ہے شاید ! یہ ان کی ذاتی رائے تھی....
جبکہ دکانداروں کی رائے اس کے برعکس تھی.ان کے خیال میں خواتین حسب عادت خوامخواہ کی بحث کرتی ہیں جو لاحاصل ہی ہوتی یے.
آج کی شاپنگ نے تو ان کو تھکا ہی ڈالا تھا . تہنیت کے اصرار پر انہوں نے واپسی کا فیصلہ کیا.
چنانچہ انہوں نے رکشہ لیا اور گھر کی راہ لی .ان کے الٹرا ماڈرن قسم کےحلیے کو دیکھ کر رکشے والے نے فل والیوم میں گانا چلادیا. تہنیت حسب عادت کچھ بولنے ہی لگی تھی کہ فرحین کے ٹہوکا دینے پرخون کے گھونٹ پی کر رہ گئ ....
خدا خدا کرکے گھر پہنچے، اندر داخل ہوتے ہی دونوں نے سامان ایک طرف ڈالا اور بستر پر ڈھیر ہوگئیں ...
آپی شاید رکشے کی آواز سن کر آئ تھیں.
کیا ہوا تم دونوں کو ؟ انہیں اس حالت میں دیکھ کر انہیں تشویش لاحق ہوگئ !
آپی! گرمی سے برا حال ہے اوپر سے روزہ بھی .......
فرحین آہستگی سے بس اتنا ہی کہہ سکی .
تہنیت یکدم اٹھ کر بیٹھ گئ .
آپی میں بتاتی ہوں . مجھے آپ ایک بات بتائیے !
آپی یہ لڑکوں کا بازاروں میں کیا کام ہوتا ہے بھلا ؟ سوائے اس کے کہ یہ چوکوں اور چوراہوں میں کھڑے ہو کر خواتین کو تاکتے ہیں اور ہراساں کرتے ہیں . بعض تو اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں .....
وہ بولی تو پھر بولتی ہی چلی گئ ... دل کے پھپھولےخوب پھوڑے....
فرحین دیوار کی طرف کروٹ بدل چکی تھی.
آپی مسکرا کر اس کی باتیں سنتی رہیں .ان کی یہ بہن شروع ہی سے کچھ جذباتی سی تھی . وہ جانتی تھیں کہ اس وقت ان کا کچھ بھی کہنا ٹھنڈے لوہے پر چوٹ لگانے کی طرح بے سود ہوگا .مزید یہ کہ اپنی بھڑاس نکال کر تہنیت قدرے پرسکون ہوگئ تھی . سو انہوں نے خاموشی ہی میں عافیت جانی ، کھڑکیوں کے پردے برابر کیے اور کمرے کی لائٹ آف کرکے چلی گئیں .
کچن میں آکر انہوں نے افطاری کے لئے کچھ سامان تیار کیا ، جانتی تھیں کہ فرحین اور تہنیت تھکی ہونے کی وجہ سے اب کچن میں نہیں گھسیں گی.سو آج انہیں اضافی کام کرنا تھا .
وہ جب امریکہ میں تھیں تو انہوں نے قریبی اسلامک سنٹر جوائن کر رکھا تھا . اس لئے ان کی دینی معلومات کی شرح کافی اچھی تھی . حال ہی میں وہ بچوں کی چھٹیوں میں والدین سے ملنے پاکستان آئ تھیں .
وہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں .فرحین اور تہنیت دونوں ان کی چھوٹی بہنیں تھیں جو کالج کی سٹوڈنٹس تھیں. ان کا حلیہ ویسا ہی تھا جیسا کہ عموما ہماری آزاد خیال بچیوں کا ہوتا ہے .
کچے ذہن کی بچیاں جس ماحول میں جاتی ہیں اسی کو اپنا لیتی ہیں . کیونکہ ان کی ناپختہ ذہنیت ان کی عمر کی مرہون منت ہوتی ہے.
یہی سب سوچیں ان کے ذہن میں گردش کررہی تھیں ، وہ جب سے آئ تھیں یہی حالات دیکھ رہی تھیں.آج تہنیت کے خیالات جان کر انہوں نے موقع غنیمت جانا اور ٹھان لیا کہ انہیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا ہے .
حسب معمول افطاری اور نماز مغرب کے بعد گھر کی سب خواتین لاونج میں اکٹھی تھیں ، چونکہ ان کے ہاں تراویح کے بعد کھانا کھانے کا معمول تھا ، سو اس وقت کچھ فرصت میسر ہوتی...
اور یہی وہ وقت ہوتا جس کا سب کو انتظار ہوا کرتا کیونکہ اس وقت آپی اپنا دن بھر کا حاصل مطالعہ ان سب کو سنایا کرتیں ...
آج بھی ایسا ہی ہوا ، امی کہنے لگیں ... فائزہ بیٹا ! آج ہم کیا سیکھیں گے ؟
آپی نے حاضرین پر اک نظر ڈالی اور اپنی بات کا آغاز کیا .
آج ہم ایک ایسے موضوع پر بات کرنے جارہے ہیں جو بےحد حساس ہے مگر اس کے باوجود ہماری توجہ اس کی طرف نہ ہونے کے برابر ہے !
اور وہ ہے ...... نظروں کی حفاظت
اتنا کہہ کر آپی نے رک کر سب خواتین کو دیکھا جو ایک دم چونک سی گئ تھیں . تہنیت جو فرحین کی گود میں سر رکھ کر لیٹی تھی یکدم اٹھ کر بیٹھ گئ ...
کیا مطلب ؟
یہ تو طب کا کوئ موضوع لگتا ہے آپی !
سدا کی جلد باز تہنیت سے رہا نہیں گیا تو بول ہی پڑی ..
نہیں. یہ صرف طب ہی کا نہیں بلکہ ہمارے دین کی تعلیمات کا بھی ایک اہم حصہ ہے ... اس کے ذریعے اپنے ایمان کی حفاظت بھی کی جاسکتی ہے اور ایمان کو خطرے میں بھی ڈالا جاسکتا ہے.
اسلام کی رو سےکسی مرد کو غیر محرم عورت پر نگاہ ڈالنے کی اجازت نہیں اور نہ ہی کسی عورت کو اجازت ہے کہ وہ کسی غیر محرم مرد کو نگاہ بھر کر دیکھے...

اب میں اس سلسلے میں کچھ احادیث علی صاحبھا الصلوات و التسلیمات پیش کرتی ہوں تاکہ اس بات کی وضاحت ہوسکے...
1-دونوں آنکھوں کا زنا (شہوت سے) نگاہ ڈالنا ہے،دونوں کانوں کا زنا (شہوت سے)باتیں سننا، ہاتھ کا زنا (شہوت سے) ہاتھ لگانا ہے ،پاوں کا زنا (شہوت سے)قدم اٹھا کر چلنا ہے اور قلب کا زنا یہ ہے کہ (شہوت سے)وہ خواہش کرتا ہے اور تمنا کرتا ہے. (مسلم)
2- اللہ لعنت برسائے دیکھنے والے پر اور دیکھنے کا موقع دینے والی پر (مشکوہ)
3- تم اپنی نگاہوں کو نیچا رکھو ورنہ اللہ تمہاری شکلوں کو تبدیل کردے گا.
4- نگاہ ابلیس کے تیروں میں سے زہر کا بجھا ہوا ایک تیر ہے.
5- میں نے اپنی وفات کے بعد اپنی امت میں عورتوں سے بڑھ کر کوئ فتنہ نہیں چھوڑا .
6- پوچھا گیا ، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! اچانک نظر پڑ جانے کا کیا حکم ہے ؟
ارشاد فرمایا: " اصرف بصرک"
اپنی نگاہ کوپھیر لو.
فرحین کے ہاتھ کھڑا کرنے پر آپی نے اپنی بات روک دی اور اس کی جانب استفھامیہ نظروں سے دیکھا !
مگر آپی ! یہ سب تو مردوں کے لئیے ہے .انہیں اس پر سوچنا چاہئیےناں ! ہم خواتین کا تو اس میں کوئ قصور نہیں !
آپی دوبارہ سلسلہ کلام جوڑتے ہوئے گویا ہوئیں .
7- ایک مرتبہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس دو ازواج مطھرات حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنھما موجود تھیں کہ اسی دوران ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے حاضری کا اذن چاہا ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ازواج مطھرات سے فرمایا . پردہ کر لو ،
وہ فرمانے لگیں کہ عبداللہ تو نابینا ہیں ، ہم کو نہیں دیکھ سکتے !
ارشاد ہوا : تم دونوں تو نابینا نہیں ہو ، تم تو اس کو دیکھ سکتی ہو !
یہ بتا کر آپی نے حاضرین کی طرف دیکھا تو سب کے چہرے حیرت کا نمونہ بنے دکھائ دئیے....
آپی ! ہم تو آج تک یہی سمجھتے آئے ہیں کہ اس میں سراسر مردوں کا قصور ہے اور ہم خواتین بالکل بے قصور ہیں .
اسی لئیے کبھی دھیان ہی نہیں دیا کہ ہم بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں. اف میرے خدایا !
تہنیت سر پکڑےبیٹھی تھی.
اسی لئیے تو فرمایا ہے کہ دیکھنے کا موقع دینے والی بھی جرم میں برابر کی شریک ہے.کیونکہ اس نے بھی اپنے آپ کو نمائش کے لئیے پیش کردیا ہے. دونوں ہی اپنی حدود سے تجاوز کررہے ہیں.
ایسی عورتوں کو فتنہ شاید اسی لئے کہا گیا ہے کہ وہ مردوں کے ایمان کے لئے آزمائش ثابت ہوتی ہیں....
یہ فرحین تھی.

درست کہا تم نے ! اللہ کے نبی حضرت یحی علیہ السلام سےپوچھا گیا کہ زنا کی ابتداء کہاں سے ہوتی ہے تو فرمایا: آنکھوں سے !
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جس کی نظر قابو میں نہیں اس کا دل قابو میں نہیں اور جس کا دل قابو میں نہیں اس کی شرم گاہ قابو میں نہیں !
امی کہنے لگیں . اب اس گناہ سے بچنے کا طریقہ بھی تم ہی بتاو !
آپی نے مسکرا کر کہا .
اللہ رب العزت نے اپنےآخری کلام میں ہر بات بیان فرما دی ہے.
قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فروجھم....
وقل للمؤمنت یغضضن من ابصارھن و یحفظن فروجھن و لا یبدین زینتھن الا ما ظھرمنھا... (سورہ نور 30,31)
حق تعالی شانہ ارشاد فرماتے ہیں:
کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم ) مسلمان مردوں سے کہہ دیجئےکہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں......
اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئےکہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں .اور اپنا بناو سنگھار نہ دکھائیں .....
گویا بتا دیا کہ شرم گاہ کی حفاظت،آنکھوں کی حفاظت پر ہی موقوف ہے.اور اصول یہ ہےکہ حرام چیز کا مقدمہ بھی حرام ہی ہوتا ہے.
ارشاد باری تعالی ہے:
یایھا النبی قل لازواجک و بنتک و نساء المؤمنین یدنین علیھن من جلابیبھن . و کان اللہ غفورا رحیما . (سورہ احزاب 59)
اےنبی ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں . یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائ نہ جائیں.اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے.
حضرات مفسرین نے اس کی تشریح میں لکھا ہے :
یعنی چادر اوڑھ کر اوپر سےگھونگھٹ ڈال لیا کریں،بالفاظ دیگر منہ کھولے نہ پھریں اور...
پہچان لی جائیں سے مراد یہ ہے کہ ان کو اس سادہ اور حیادار لباس میں دیکھ کر ہر دیکھنے والا جان لے کہ وہ شریف اور باعصمت عورتیں ہیں،آوارہ اور کھلاڑی نہیں ہیں کہ کوئ بدکردار انسان ان سے اپنے دل کی تمنا پوری کرسکے...اور
نہ ستائ جائیں سے مراد یہ ہے کہ....ان کو چھیڑا نہ جائے اور ان سے تعرض نہ کیا جائے.
گویا عورت کو پردے کا حکم دیکر یہ باور کروادیا کہ تم گوہر بے بہا ہو لھذا خود کو موتی کی طرح سیپ میں چھپالو تاکہ ہوسناک نگاہوں سے محفوظ رہ سکو اور ...
دوسری طرف مردوں کو غض بصر کا حکم دے دیا کہ خبردار ان آبگینوں کو نظر بھر کر نہ دیکھنا....
ایک اللہ والے خوب فرماتے ہیں کہ :
بد نظری محبت الہی کی وجہ سے چھوڑو نہ کہ خوف الہی کی وجہ سے....
مسند احمد میں ہے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا :
جس نے میرے ڈر کی وجہ سےبدنظری چھوڑ دی ، میں اسے ایسا ایمان عطا کروں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا ....

بات مکمل ہو چکی تھی اور.....
حاضرین کے جھکے ہوئے سر اپنے رب کے حضور شرمندہ تھے.
از قلم: بنت میر
Sadia Javed
About the Author: Sadia Javed Read More Articles by Sadia Javed: 5 Articles with 3365 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.