میں بھی مظلوم نسواں سے ہوں غمناک بہت

بدقسمتی سے آج میں بھی اس معاشرے کا حصہ ہوں جس میں مظلوم نسواں کا راج ہے۔ اسی غم کے سبب آج میں بھی قلم اٹھانے اور اس معاشرے کی بیٹیوں کے لیے آواز بلندکرنے پر مجبور ہوں۔کیونکہ اس معاشرے میں عورت کو دوسرے درجے کا انسان سمجھا جا تا ہے،پیدا ہوتے ہی یا تو زندہ درگو کر دیا جا تا ہے نہیں تو زندگی کے ساتھ اس کے ۵۷فیصد حقوق سلب کر لیے جاتے ہیں۔ مرد کی عورت پر حا کمیت زمانہ جاہلیت کے ناسور کے طرح آج بھی یہاں موجود ہے۔جہان عورت کو اس کا مقام عطا نہیں کیا جاتاوہاں شوہر یا جنس مخالف کی طرف سے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں ۔جن کے تصویر کشی محال ہے۔روزانہ میڈیا پر ایسے واقعات دکھائے جاتے ہیں جن سے آنکھ اشک بار ااور دل دھک جا تے ہیں۔ ان میں جنس مخالف کے گروہ کی طرف سے ایزاء دینا،خاوندکی بدسلوکی ،مارپٹ، جلاؤ گھیراؤ اور سب سے اذیت اور قرب ناک تیزاب پھینکنے کے واقعات شامل ہیں۔یہاں تک کے ایک تقریبا ایک تہائی واقعا ت ایسے ہیں جن کی خبر نشر ہوتی ہے ۔باقی سب کا کسی کو علم نہیں۔

آخر ان تمام کی کیا وجوہات ہیں ؟ ان حوا کی بیٹیوں کا کیا قصور ہے ؟ یہ کس چیز کی مجرم ہیں؟ کیا یہ سب کچھ ان کو اس لیے سہنا پڑ رہا ہے کیونکہ انہوں نے پاکستانی معاشرے میں جنم لیا؟ ٰاس معاشرے میں اس طرح کی وارداتیں عام ہیں،یہاں احتساب کے لیے اور اور ان کی غم خواری کے لیے کوئی اوجود نہیں،یہاں انصاف کے ادارے کمزور ہیں۔یا یہ سب یس لیے کے سماجی طور پر کمزور اور غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔یا سسرال میں جہیز نہیں لائیں؟کیا سماجی کمزوری ،غربت اور جہیز جیسی لعنت یہ سب ایسے ناسور ہیں ،جن کے سبب خاوند یا سسرال والوں کی طرف سے ایسا سلوک کیا جا تا ہے۔

باپ کے پیار اور ممتا کی دعاووٗں کے سائے میں جب دوسرے گھررخصت ہوتی ہیں تو کیا معلوم کے وہاں روز مر کے روز جئیں گئیں۔وہاں ایسا ظلم کیا جائے گا جس کے زخموں کے تاب زندگی بھر محسوس ہوگئی۔کیا خبر ہوتی کے ظالم شوہر یا سسرال والوں کی طرف سے معمولی وجوہات کی بنا پر پیٹرول پھینک کر آگ لگا دی جائے گئی یا تیزاب کے مدد سے جلا دیا جائے گا۔یس صنف نازک جس کے دل سے آہ و فریاد کے علاوہ کچھ بھی نہیں نکلتا کبھی سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ انسانیت اس کا نام ہے۔پھر جب جلتی ہوئی آگ کے انگاروں اور دہکتے ہوئے شعلوں یا تیزابکب پھئینکنے کے بعد چیخوں کی آواز سے اہلِ محلہ کو خبر پہنچتی ہے اور جب اس صنف نازک کے آدھی جان جا چکی ہوتی ہے تو ہسپتال لے جایا جا تا ہے۔جہاں پہنچنے سے پہلے ہی اکژ دم توڑ دیتی ہیں۔اور کچھ جب ہسپتال پہنچتی ہیں تو وہاں ان کے علاج کے لیے رقم موجود نہیں ہوتی۔ فلاحی اداروں اور نجی سماجی بہبود کی ٹیموں سے رابطے کے بعد علاج ممکن ہوتا ہے۔تو اس قابل ہوتی ہیں کے زندگی کی موہوم سی امید جنم لیتی ہے۔جب واقعہ کی افواہ پھیلتی ہے میڈیا پر خبر نشر ہوتی ہے توپولیس حرکت میں آتی ہے ایف ائی آر درج کرتی ہے۔چونکہ آدھی جان جاچکی ہے زندگی بھر کے زخم لگ چکے تو چیف جسٹس بھی سو موٹو ایکشن لے لیتے ہیں۔معاشرے میں عزت سے زندگی گزارنے کے لیے عدالتوں میں انصاف ڈھوندنے جاتیں ہیں تو وکیلوں کا جمعہ بازار لگ جا تا ہے ۔ملزم کو عدالت میں پیش کیا جا تا ہے تو یا تو پیسے لے کر رہائی دے د ی جاتی ہے ۔یا پھر یس دکھ سے بھری زندگی سے ہاری مخلوق کے کچہریوں میں چکر لگوائے جاتے ہیں۔اس کے باوجود بہت سی ایسی ہیں جن کو انصاف نہیں مل پاتا۔اور ملزم کی رہائی کے بعد اس بات سے پریشان کھپ اندھیروں اور بند کمروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی میںں کے کہیں دوبارہ نہ ماردیا جائے۔

اس کے ساتھ اپنے بچوں کی پرورش کے لیے بھی غمزدہ نظر آتی ہیں۔زندگی کی گاڑی کے پہیے کی حرکت کے لیے گھروں سے باہر کام کے لیے بھی نکلنا پڑتا ہے۔تو پھر معاشرے سے اجنبیت کی فضاء دیکھنے کو ملتی ہے۔جس کے سبب زندگی کو آگے بڑھا نے اور نئی زندگی کے عزم کو کھو دیتی ہیں۔ اور جھلسے ہوئے چہرے کے سبب معاشرہ انہیں قبول کرنے سے بھی انکار کرتا ہے۔جب کہ یہ اس معاشرے کے درندوں کا ہی نشانہ بنے ہوتی ہیں۔تو پھر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اس معاشرے میں دو طرح کے لوگ بستے ہیں ایک وہ ظالم درندے جنھوں نے یہ ظلم ڈھائے تو دوسری طرف ینسانیت کی خدمت کے لیے وہ لوگ موجود ہیں جنھوں نے ان کو علاج کے ساتھ ساتھ رہنے کے لیے ٹھکانے بھی فراہم کیے ۔میں ان اداروں اوران کے اہلکاروں کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہوں جن کو قدرت کی طرف سے ہی شرف حاصل ہے کی وہ اتنا عظیم کام سر انجام سے رہے۔

زندگی کوخوبصورت بنانے کے سفر میں کیا خبر تھی کہ زندگی کو جن ظالم درندوں کے ہاتھ چڑھا رہی ہیں ان میں خون پینے کی ہوس ہوجود ہے ۔ان میں انسانیت کو رسوا کرنے کا مادہ موجود ہے ۔ان میں عورت کی بدن کی مشعل جلانے کا رواج عام ہے۔ین کو زندگی کی قدروقیمت معلوم نہیں،ان میں انسانیت سے محبت کا جذبہ موجود نہیں۔

مجھے تو بس اتنا معلوم ہے کی عورت فضائے عالم کی وہ خوبصورت قوس قزح ہے جس کے ایک ایک رنگ سے زندگی کے سوسو سوتے پھوٹتے ہیں ۔جس کی سانس کارگہ کائنات کے سینے میں چلتی ہے ۔تو پھر صنف نازک پر یہ کیسا ظلم کیا اس کے ذمہ دار وہ درندے ہیں یا حکومت کے ہو کارندے جو اس کے لیے قانون تو بناتی ہے لیکن طاقت کے خوف کے سبب عملی اقدامات نہیں کر پاتی۔تو خدارا اس بربریت کو ختم کیا جائے ۔اس جنت کو بچایا جائے۔ ان کو انصاف دلایا جائے۔اور اس عقدۂ مشکل کے کشوز کو ممکن بنایا جائے۔
Maria REhman
About the Author: Maria REhman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.