پاکستان میں لا ئبریری وانفارمیشن سائنس کی تعلیم کے سو سال(قسط 5 :)

لائبریری و انفارمیشن سائنس ایک علم ہے جو عرصہ دراز سے دنیا کی جامعات کے نصاب میں شامل ہے۔ پاکستان میں اس علم کی باقاعدہ تعلیم کی ابتدا سو سا قبل 1915میں جامعہ پنجاب سے ہوئی تھی۔ آج یہ علم پاکستان کی متعدد جامعات کے نصاب کا حصہ ہے۔ اس علم کی سو سالہ تاریخ کو اختصار سے بیان کیا گیا ہے ، تعلیم کے ساتھ ساتھ اس علم میں ہونے والی تحقیق کی تفصیل بھی درج کی گئی ہے۔ یہ مضمون مصنف کے پی ایچ ڈی مقالے سے ماخوذ ہے۔
(1915-2015)
(یہ مضمون مصنف کے پی ایچ ڈی مقالے بعنوان ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں
کی تر قی میں شہید حکیم محمد سعید کا کردار‘‘ سے موخوذ ہے۔یہ مقالے کا چوتھا باب ہے۔
مقالے پر مصنف کو جامعہ ہمدرد سے 2009 میں ڈاکٹریٹ کی سند دی)

گزشتہ سے پیوستہ
پاکستان میں لا ئبریری سائنس کی تعلیم، تر بیت اور تحقیق
پاکستان ۱۹۴۷ء میں معر ض وجود میں آیا توپنجاب یونیورسٹی لاہور کا’’ڈکنسن لا ئبریری اسکول‘‘ وقتی طور پربند ہو چکا تھا۔اس وقت پا کستان میں موجود کتب خانو ں کی حالت انتہائی ابترتھی ، ملک میں لا ئبریری سائنس کی تعلیم و تر بیت کاکوئی ادارہ موجود نہ تھا۔پنجاب لا ئبریری اسکول کے علاوہ تمام کے تما م لا ئبریری اسکول اور لا ئبریری سائنس کی تربیت کے مراکز ہندوستان میں ہی قائم تھے۔ڈ اکٹر رنگا ناتھن (۱۸۹۲ء ۔ ۱۹۷۲ء) جنہیں ہندوستان لا ئبریرین شپ کے بانی ہو نے کا اعزاز حاصل ہے‘ کی لا ئبریری خدمات کا دائرہ صرف ان علاقوں تک محدود رہا جو تقسیم ہند کے نتیجے میں بھارت کا حصہ بنے۔ اس صورت حال میں پاکستان میں دیگر شعبوں کی طرح لا ئبریری سائنس کی تعلیم و تر بیت کا اہتمام ابتدا سے شروع ہو ناایک لازمی امر تھا۔ ہندوستان سے پا کستان ہجرت کر کے آنے والے لا ئبریرین شپ کے پیشے سے وابستہ شخصیات نے مکمل خلوص،عقیدت محنت اور جذبے کے ساتھ ملک میں کتب خانو ں کی ترقی اور فروغ کے ساتھ ساتھ لا ئبریری سائنس کی تعلیم و تر بیت کے لیے بھی عملی جدوجہد کی۔ انہو ں نے از خود لا ئبریری انجمنوں کے تحت لا ئبریری سائنس کی تربیت کے کورسیز کا اہتمام کیاساتھ ہی حکومت اور جامعات کو بھی اس جانب مائل کیا کہ وہ بھی اس شعبہ کی ترقی اور فروغ کے اقدامات کر تے ہو ئے لا ئبریری سائنس کو اپنے نصاب میں شامل کریں۔ ڈاکٹر انیس خورشید کے مطابق ’’ان لوگوں میں جنہوں نے ملک میں لا ئبریری تعلیم کی روایات کو از سر نو تعمیر کی منزل سے ہمکنار کیاان میں سید ولایت حسین، خواجہ نور الٰہی اور عبد ا لصبوح قاسمی (پنجاب لا ئبریری اسکول سے تر بیت حاصل کر چکے تھے)، عبدالمعید (رنگا ناتھن کے تحت دہلی لا ئبریری اسکول کے فارغ التحصیل تھے)۔جمیل نقوی مرحوم( کے ایم اسد اﷲ کی امپیریل لا ئبریری کلاس میں شامل تھے‘‘(۸۶)۔ ان شخصیات کے علاوہ فضل الٰہی مر حوم (لندن اسکول سے ڈپلومہ حاصل کر چکے تھے)، عبدالرحیم خان ( B.L.S. ( ٹورنٹو، الحاج محمد شفیع (بانی رکن انڈین لا ئبریری ایسو سی ایشن) اور الطاف شوکت اُن شخصیا ت میں سے تھے کہ جنہو ں نے پا کستان میں لا ئبریری تعلیم و تر بیت کی داغ بیل ڈالی۔ امپیریل لا ئبریری کلکتہ کے سابق لا ئبریرین، انڈین لا ئبریری ایسو سی ایشن کے با نی سیکریٹری اور لا ئبریری ایسو سی ایشن لندن کے فیلو خان بہادر خلیفہ محمداسد اﷲ خان(۱۸۹۰ء ۔ ۱۹۴۹ء) ، نے ۱۹۴۷ء میں پا کستان ہجرت کی۔ خان بہادرہندوستان لا ئبریرین شپ کی ایک اہم شخصیت تھے ، ان سے بے شمار امیدیں وابستہ تھیں،حکومت پا کستان کی جا نب سے آپ کو وزارت تعلیم میں افسر بکار خاص (Officer on Special Duty)مقرر کر لیا گیاتھا لیکن موت نے آپ کو مہلت ہی نہ دی اور آپ ۱۹۴۸ء میں اﷲکو پیارے ہو گئے۔

پاکستان میں لا ئبریری سائنس کی تعلیم و تر بیت کی تحریک میں لا ئبریرین شپ کے علاوہ بعض شخصیات (جو تعلیم اور کتب خانو ں سے والہانہ لگاؤ رکھتی تھیں) کی خدمات بھی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں اورہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جائیں گی ۔ پروفیسر ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی کی سر پرستی میں جامعہ کراچی میں پہلا پوسٹ گریجویٹ لا ئبریری اسکول قائم ہوا جسے پا کستان لا ئبریرین شپ کی تاریخ میں ہمیشہ ایک منفرد مقام حاصل رہے گا، پروفیسر ڈاکٹرمحمود حسین مرحوم جنہو ں نے ہمیشہ اس پیشے کی سر پرستی کی اور پاکستان لا ئبریر ی ایسو سی ایشن (۱۹۵۷ء) کے تاسیسی صدر ہو نے کے علاوہ اپنے انتقال تک ملک میں کتب خانوں کے قیام ، ترقی اور فروغ کی جدوجہد میں لا ئبریرینز کی رہنمائی اور سرپر ستی کر تے رہے۔ پاکستان میں کتب خانو ں کی ترقی اور لا ئبریری تحریک کے فروغ میں حکیم محمد سعید شہید کی خدمات نصف صدی پر محیط ہیں ۔ آپ انجمن فروغ و تر قی کتب خانہ جات (Society for the Promotion and Improvemnt of Libraries, SPIL)کے تاسیسی صدر (۱۹۶۰ء ۔ ۱۹۹۸ء) ہو نے کے ساتھ ساتھ ملک میں کتب خانو ں کی ضرورت ، تر قی ، فروغ اور لا ئبریرین شپ کے پیشے کی اہمیت کا بہ خوبی ادراک رکھتے تھے۔ہمدر د
یونیورسٹی میں بیت الحکمہ(لا ئبریری)جو بجا طور پر ایشیا کا ایک عظیم کتب خانہ ہے کا قیام کتب خانو ں سے آپ کے والہانہ محبت کا عملی ثبو ت ہے۔ ہمدرد یو نیورسٹی میں بیت الحکمہ کے علاوہ مختلف تعلیمی اداروں میں تقریباً ۱۶ کتب خانے، اسپل (SPIL)کے زیر اہتمام ملک میں متعدد کتب خانو ں کا قیام، قومی نوعیت کے سیمینار ، ورکشاپ اور کانفر نسوں کا انعقاد، لا ئبریری سائنس کی تعلیم اور تر بیت کے کورسیز کے ا ہتمام کے علاوہ آپ نے ہمیشہ لا ئبریرین شپ کے پیشے کی سر پرستی کی۔

لا ئبریری سائنس کی تعلیم و تر بیت جو ابتدائی سطح (سرٹیفیکیٹ کورس) سے شروع ہو ئی تھی مختلف مراحل طے کر تی ہو ئی مختلف پا کستانی جامعات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح تک عام ہو چکی ہے۔انڈر گریجویٹ سطح پرلا ئبریری سائنس کی تعلیم پاکستان میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے ۔ پاکستان میں لا ئبریری سائنس کے لکھنے والوں میں ڈاکٹر عبدالمعید(۸۷)، ڈاکٹر انیس خورشید(۸۸) ،محمد عادل عثمانی(۸۹)،ڈاکٹرغنی الا کرم سبزواری(۹۰)،اور ڈاکٹر جلال الدین حیدر(۹۱) کی تحریریں اس موضوع پر بنیادی معلومات فراہم کر تی ہیں۔سجاد الر حمن ،ڈاکٹر عبد الستارچودھری اورا فضل حق قرشی کی مر تب کردہ کتاب(۹۲) لا ئبریری سائنس کی تعلیم و تر بیت کے بارے میں عمدہ کوشش ہے۔ پاکستان لا ئبریری سائنس کی تعلیم کے مدارج حسب ذیل ہیں۔
۱۔ سر ٹیفیکیٹ کورس(Certificate Course)
۲۔ پوسٹ گریجویٹ (ڈپلومہ کورس)(Post-Graduate Diploma Course)
۳۔ ایم اے (لا ئبریری سائنس ) (Master's in Library and Information Science)
۴۔ ایم فل؍پی ایچ دی (M Phil/Ph D in Library and Information Science)
۵۔ فاصلاتی نظام کے تحت لا ئبریری سائنس کی تعلیم(Library Education through Distance System)
۶۔ لا ئبریری سائنس بطور اختیاری مضمون انٹر اور بی اے میں (Library Science as an Optional
Subject at Intermediate and B. A. level)
سر ٹیفیکیٹ کورسز (Certificate Courses)

قیام پا کستان کے بعد لا ہورمیں لا ئبریری سرگرمیوں کی ابتدا ہو ئی۔پنجاب لا ئبریری ایسو سی ایشن (۱۹۲۹ء) کو از سر نو منظم کر نے کی ابتداکی گئی اور اسے مغربی پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن کا نا م دیا گیالیکن صوبوں کے ادغام کے بعد اسے دوبارہ پنجاب لا ئبریری ایسو سی ایشن (Punjab Library Association) بنا دیا گیا۔۱۹۴۸ء میں پنجاب لا ئبریری ایسو سی ایشن نے لائبریری سائنس میں سر ٹیفیکیٹ کورس شروع کیا لیکن یہ ا یک ہی سال میں بند ہو گیا(۹۳) ۔انڈر گریجویٹ سطح پر لا ئبریری تعلیم و تر بیت کی یہ پہلی کوشش تھی۔ فضل الٰہی مر حوم کورس کے نگراں تھے ۔ ڈاکٹر عبدالمعید پنجاب لا ئبریری ایسو سی ایشن کے تحت جاری ہو نے والے سرٹیفیکیٹ کورس کے بانی ہو نے کے علاوہ اساتذہ میں سے ایک تھے(۹۴)۔اختر صدیقی کے مطابق ’’خواجہ نو ر الٰہی اور محمد امین بھی اس کورس کے بانیوں میں سے تھے۔ ۱۹۵۰ء میں پنجاب لا ئبریری اسکول کو سابقہ حیثیت میں بحال کر نے کی کوشش کی گئی ، کورس کی مدت بھی وہی رہی، ۱۹۵۵ء میں اس کورس کو گریجویٹس کے لیے محدود کرکے ڈپلومہ کورس میں بدل دیا گیا یہ کورس ایک سال کی مدت پر مبنی تھا‘‘(۹۵)اور ۱۹۵۹ء تک جاری رہا جب پنجاب یو نیورسٹی میں شعبہ لا ئبریری سائنس کا قیام عمل میں آیا اور پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کا آغاز ہوا۔

کراچی لا ئبریری ایسو سی ایشن ۱۹۴۹ء میں قائم ہو ئی ۔ اس ایسو سی ایشن نے۱۹۵۲ء میں لا ئبریری اسکول قائم کیا ، محمد شفیع مر حوم اس کے ڈائریکٹر تھے جب کہ جمیل نقوی مرحوم اور نور محمد خان اساتذہ میں سے تھے۔ چار ماہ کا یہ سرٹیفیکیٹ کور س کراچی میں اپنی نوعیت کا اولین کورس تھاجس نے لا ئبریرین شپ کوبنیادفراہم کر نے میں مدد دی ۔ ڈاکٹر انیس خورشید ، محمد عادل عثما نی اس کورس کے اولین طلبہ میں سے تھے جنہو ں نے اپنی صلاحیتوں اور کا وشوں سے پاکستان لا ئبریرین شپ کو ایک عظیم قوت عطا کی ۔ کورس میں داخلے کی بنیاد انٹر میڈیٹ تھی لیکن میٹرک پاس طلبہ جنہیں کم ازکم دو سال کسی بھی لا ئبریری میں کام کر نے کا تجربہ ہوتا اس کورس میں داخلے کے اہل تھے، ایک سال میں ایک کورس ہی منعقد کیا جاتا، اس اسکول کے کل پانچ سیشن مکمل ہوئے جن میں تقریباً ایک سوسے ز ائد امیدواروں نے لا ئبریری کی تر بیت حاصل کی(۹۶)۔ڈاکٹر حیدر کے مطابق ’۱۹۶۳ء تک اس اسکول میں داخلہ لینے والے ۲۱۰ طلبہ میں سے ۱۵۱ طلبہ نے کا میابی حاصل کی(۹۷)۔۱۹۵۶ء میں پشاور یو نیورسٹی نے تین ماہ کے سرٹیفیکیٹ( ریفریشر کورس)  کا انعقاد کیا، کورس انچارچ ایک غیر ملکی ماہر لا ئبریری سائنس جی۔ایم کوبل (Gerald M. Coble)تھے ، ڈاکٹر عبدا لصبو ح قاسمی اس کورس کے ایک استاد تھے۔۱۹۵۶ء سے ۱۹۵۸ء کے درمیان سابقہ مشرقی پا کستان میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے تحت بھی سر ٹیفیکیٹ کورسیزمنعقد ہو ئے۔

حواشی و حوالہ جات
86. Anis Khurshid. (Ph. D. dissertation), ref. 56, p.381
87. Abdul Moid. ''Library Education in Pakistan'. PLA Journal. 2 no. 2
(April 1968) : 83-93.
88. Anis Khurshid. 'Library Training in Pakistan'. UNESCO Bulletin for
Libraries. 151 (1961): 31-33
89. Usmani, M. Adil. 'Certificate Courses in Library Science.' (Editorial)
Pakistan Library Bulletin. 18 nos. 2-3 (June - September 1987)
90. Sabzwari, Ghaniul Akram. 'Library Education and Manpower in Pakistan'.
Pakistan Library Bulletin. 4 nos. 3-4, (March-June 1972) : 55-71
91. Haider, Syed Jalauddin 'Library Education in Iran and Pakistan'. ref. 35,
pp. 91-106.
92. Sajjadur Rehman, A. S. Chaudhry and Afzal Haq Qarshi. ed., Library
Education in Pakistan: Past, Present and Future. (Lahore: PULSAA,
1992) 218p.
93. Qureshi, Naeemuddin. ''Twenty Years of Librarianhsip in Pakistan''. 1947
- 67. Pakitan Library Review. (New Series). 1no.1 (March 1968): 61
94. Usmani, M. Adil. 'Dr. Abdul Moid: A Tribute to the departed soul'.
(Editorial). Pakistan Library Bulletin. 15(1-2): March-June 1984.
95. Anis Khurshid. (Ph.D dissertation) , ref. 56, p.381
96. Anis Khurshid. 'Library Trainning in Pakistan'. Pakistan Library Review.
no.1 (March 1958) : 37
۹۷۔ حیدر ‘سید جلال الدین۔ پاکستان میں کتب خانو ں کی انجمنیں؍ ترجمہ سید عزیز ہمدانی۔ ماہ نامہ کتاب، ۵ نمبر ۱۱۔۲۱ ،
(جولائی۔اگست، ۱۹۷۱ء ) : ۸
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1272936 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More