رمضان کے تین عشرے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَریْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
حدیث (رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے نجات)کی مختصر تحقیق
ان دنوں سوشل میڈیا پر کسی بھی پیغام کو فارورڈ کرنے کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے حتی کہ اس کو خود پڑھنے یا اس کی تحقیق کرنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے کہ پیغام صحیح معلومات پر مشتمل بھی ہے یا نہیں۔ نیز مکاتب فکر کے درمیان بعض اختلافی مسائل میں بعض حضرات حد سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ حدیث: (رَمَضَان: اَوَّلُہُ رَحْمَۃٌ وَاَوْسَطُہُ مَغْفِرَۃٌ وَآخِرُہُ عِتْقٌ مِّنَ النَّار) کے متعلق محدثین کی ایک جماعت نے حدیث کی سند میں کمزوری کی وجہ سے ضعیف کہا ہے، بلکہ بعض علماء نے منکر تک کہا ہے، جبکہ تیسری ہجری میں پیدا ہونے والے بعض محدثین نے فضائل پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس حدیث کو تسلیم کرکے اپنی مشہور ومعروف کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ لیکن چونکہ یہ حدیث برصغیر کے بعض علماء نے اپنی کتابوں میں تحریر کررکھی ہے، اس لئے اس کے متعلق کافی سخت الفاظ استعمال کرکے سوشل میڈیا پر پیغام ارسال کئے جارہے ہیں، اور دوسرے حضرات اس کی تحقیق کے بغیر فارورڈ کررہے ہیں، حالانکہ عوامی طور پر اس نوعیت سے پیغام ارسال کرنے سے دین اسلام کے بنیادی ماخذ یعنی قرآن وحدیث پر شک وشبہات ہی پیدا ہوتے ہیں، جو بڑی خطرناک بات ہے۔

جہاں تک رمضان کے مبارک مہینہ میں اﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کے نازل ہونے، بندوں کے گناہوں کی مغفرت اور جہنم سے چھٹکارہ کا تعلق ہے، تو یہ تینوں فضیلتیں احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں، جس پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے۔ ماہ رمضان کا ایک ایک لمحہ ان تینوں فضیلتوں کو شامل ہونے کے ساتھ کیا رمضان کے تین عشروں میں سے ہر عشرہ کی خصوصی اہمیت وفضیلت بھی ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں مذکور ہے ؟ علماء کی ایک جماعت نے تسلیم نہیں کیا ہے جبکہ دوسری جماعت نے تسلیم کیا ہے۔
مذکورہ بالا حدیث عصر حاضر کے کسی عالم دین نے اپنی طرف سے تحریر نہیں کردی ہے کہ اس پر سخت الفاظ استعمال کرکے فتوے لگائے جائیں، بلکہ متعدد محدثین وفقہاء وعلماء نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ میں اس موقع پر صرف بعض بڑے محدثین کے ذکر پر اکتفاء کرتا ہوں۔ امام ابن خزیمہ نیساپوری ؒ (۲۳۳ھ۔۳۱۱ھ) نے حدیث کی مشہور ومعروف کتاب (صحیح ابن خزیمہ ۱۹۱/۳) میں ، امام ابوبکر بغدادیؒ (جو ابن ابی الدنیا کے نام سے معروف ہیں) (۲۰۸ھ۔۲۸۱ھ) نے اپنی مشہور کتاب (فضائل رمضان) میں، امام ابن شاہین بغدادی ؒ (۲۹۷ھ۔۳۸۵ھ) نے اپنی کتاب (فضائل شہر رمضان) میں، مشہور محدث امام بیہقی ؒ (۳۸۴ھ۔۴۵۸ھ) نے حدیث کی مشہور کتاب (شعب الایمان ۳۳۳۶ اور فضائل اوقات ۳۷) میں، امام ابوالقاسم اصبہانی ؒ (۴۵۷ھ۔۵۳۵ھ) (جو قوام السنہ کے نام سے معروف ہیں) نے اپنی مشہور کتاب (کتاب الترغیب والترہیب ۱۷۵۳) میں، امام بغوی ؒ (۴۳۳ھ۔۵۱۰ھ) (جو محی السنہ کے لقب سے مشہور ہیں) نے اپنی مشہور تفسیر قرآن (معالم التنزیل ۲۰۲/۱) میں ذکر کی ہے۔ اختصار کے پیش نظر میں نے صرف چند محدثین ومفسرین کے نام ان کی کتابوں کے حوالے کے ساتھ ذکر کردئے ہیں، ان کے علاوہ بھی بڑے بڑے محدثین نے فضائل پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس حدیث کو اپنی کتاب میں جگہ دی ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کے علاوہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی یہ حدیث دیگر کتابوں میں بھی مذکور ہے، اگرچہ ان کی سند میں ضعف ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رمضان کے متعلق یہ تینوں فضیلتیں (اﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کا نازل ہونا، بندوں کے گناہوں کی مغفرت کا ہونا اور بندوں کا جہنم سے آزاد کیا جانا) متعدد صحیح احادیث میں مذکور ہیں، البتہ ہر عشرہ کی خصوصی فضیلت کے متعلق اختلاف ہے، لہٰذا ہمیں مذکورہ بالا حدیث کو ذکر کرنے سے احتیاط کے ساتھ کام لینا چاہئے۔ نیز اگر علماء نے ذکر کیا ہے تو ہمیں بہت زیادہ شدت سے اس کی تردید نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ایسے ایسے محدثین نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے کہ ان کی علمی خدمات سے ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی امت مسلمہ کے تمام مکاتب فکر استفادہ کررہے ہیں۔ رمضان میں اﷲ کی رحمتوں کا نازل ہونا، گناہوں سے مغفرت کا ہونا اور جہنم سے چھٹکارہ کا فیصلہ ہونا، صحیح احادیث سے ثابت ہیں، البتہ ہر عشرہ کی خصوصی فضیلت جس کا اس حدیث میں ذکر ہوا ہے، سے کوئی شخص اختلاف تو کرسکتا ہے لیکن اس روایت کے ذکر کرنے والے پر سخت الفاظ استعمال کرکے فتویٰ لگانا جائز نہیں ہے کیونکہ بہرحال محدثین کی ایک جماعت نے فضائل پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مذکورہ حدیث کو تسلیم کیا ہے۔اگر کوئی شخص اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتا تو وہ اپنے بیانات اور کتابوں میں ذکر نہ کرے، لیکن اپنی رائے اور فیصلہ کو آخری فیصلہ سمجھ کر دوسروں پر تھوپنا صحیح نہیں ہے۔ بعض حضرات نے لوگوں کی سہولت کے لئے ہر عشرہ کی الگ الگ دعائیں بھی تحریر کردی ہیں، لیکن طواف اور سعی کے ہر چکر کی طرح رمضان کے ہر عشرہ کی خصوصی دعا یا رمضان کے ہر روزہ کی خاص دعا حضور اکرم ﷺ سے ثابت نہیں ہے، بلکہ آپ جو چاہیں اور جس زبان میں چاہیں دعائیں مانگیں۔یاد رکھیں کہ اصل دعا وہ ہے جو دھیان، توجـہ اور انکساری سے مانگی جائے چاہے جس زبان میں ہو۔
Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 133 Articles with 153619 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.