پاکستان میں لا ئبریری وانفارمیشن سائنس کی تعلیم کے سو سال(قسط 4 :)

پاکستان میں لا ئبریری وانفارمیشن سائنس کی تعلیم کے سو سال(1915-2015)
(یہ مضمون مصنف کے پی ایچ ڈی مقالے بعنوان ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں
کی تر قی میں شہید حکیم محمد سعید کا کردار‘‘ سے موخوذ ہے۔یہ مقالے کا چوتھا باب ہے۔
مقالے پر مصنف کو جامعہ ہمدرد سے 2009 میں ڈاکٹریٹ کی سند دی)

گزشتہ سے پیوستہ
بر ما جنوب مشرقی ایشیا کا ایک ملک جو ۱۹۳۵ء تک ہندوستان کا حصہ تھا۔بر ما میں آزادی کے بعد لا ئبریرین شپ کی جانب توجہ دی گئی۔ بر ما کے شہر رنگون میں نیشنل لا ئبریری ۱۹۵۲ء میں قائم ہو ئی، اس کے علاوہ مختلف تعلیمی اداروں سے منسلک کتب خانے بھی قائم ہوئے۔ برما میں مختلف ممالک خاص طور پر بھارت سے تعلق رکھنے والے ماہرین لا ئبریری سائنس مختلف پروگراموں کے تحت آتے رہے اسی امریکن لا ئبریری ایسو سی ایشن کے فورڈلا ئبریری پروجیکٹ کے تحت ۱۹۵۵ سے ۱۹۵۹ کے در میان بر ما سے بعض لو گوں کولا ئبریری سائنس کی تعلیم و تر بیت کے لئے امریکہ بھیجا گیا۔ ڈاکٹر انیس خورشید کے مطابق ’ نہار رنجن رائے (Nihar Ranjan Ray) کی رپورٹ میں لا ئبریرین شپ میں اسپیشل گریجویٹ کورس کا ذکر ملتا ہے یہ رپورٹ ۱۹۵۴ء میں پیش کی گئی۔ بر ما لا ئبریری ایسو سی ایشن (Burma Library Association)کا قیام بھی اسی سال عمل میں آیا۔۱۹۵۹ء میں لا ئبریری سائنس کا مختصر مدت کاکورس یونسکو کے ماہرنہاررنجن رائے(Nihar Ranjan Ray) کے تعاون سے منعقد ہوا۔ اس کورس کو
بر ما میں اولین کورس کا درجہ حاصل ہے جو ڈپلومہ کورس کی بھی بنیاد بنا‘‘۔یو نیورسٹی کی سطح پر رنگون آرٹس و سائنس یونیورسٹی ، سینٹرل لا ئبریری رنگون کے تحت ایک ماہ کا انڈرگریجویٹ کورس منعقد ہوا۔ نیشنل لا ئبریری نے بھی جنوری ۱۹۵۶ء میں ایک کورس کا اہتمام کیا۔ اشرف علی کے مطابق انڈونیشیا میں ۱۹۵۲ء میں لا ئبریری اسکول قائم ہوا، ۱۹۶۶ء میں فلپائن یونیورسٹی نے گریجویٹ سطح
کے دوکورسوں کا آغاز کیا، تھائی لینڈ میں ایک لا ئبر یری تعلیمی پروگرام ۱۹۵۱ء میں چولانگ کورن یونیورسٹی نے شروع کیا(۴۲)۔

بنگلہ دیش۱۹۷۱ء میں آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا اس سے قبل ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۰ء تک یہ پا کستان کا ایک صوبہ (مشرقی پا کستان ) تھا۔ ۱۹۵۵ء میں ڈھاکہ یو نیورسٹی نے لا ئبریری سائنس کا۳ ما ہ کا سرٹیفیکیٹ کورس شروع کیا ۔ اس کورس کے سربراہ فضل الہٰی مر حوم تھے۔۱۹۵۷ء میں ایم ایس خان نے ڈھاکہ یو نیورسٹی میں یہ کورس دوبارہ شروع کیا ۔۱۹۵۹ ء ڈھاکہ یو نیورسٹی پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ اور ۱۹۶۲ء ایم ایل ایس (ایم اے) شروع ہوا۔ آذادی کے بعد ایسٹ پا کستان لا ئبریری ایسو سی ایشن ’ لا ئبریری ایسو سی ایشن آف بنگلہ دیش‘ (Library Association of Bangladesh, LAB)بن گئی ڈھاکہ یو نیورسٹی نے ۱۹۷۶ء میں ایم فل اور۱۹۷۹ء میں پی ایچ ڈی پروگرام شروع کیا، جب کہ ایم اے پروگرام پہلے ہی سے موجود تھا۔ البتہ ۱۹۸۸ء میں آنرز (لا ئبریری و انفارمیشن سائنس ) بھی شروع کیا۔ راجشاہی یونیورسٹی نے بھی ۱۹۹۱ء میں ڈپلومہ کورس کا آغاز کیا(۴۳)۔

ہندوستان(بھارت) میں لا ئبریری سائنس کی تعلیم کی ابتداریاست بڑودہ میں ایک امریکی ماہر لا ئبریری سائنس ولیم بورڈن نے ۱۹۱۱ء میں کی۔ ریاست بڑودہ کے مہاراجہ سر سیا جی راؤ گائکوارڈ نے اپنی ریاست میں عوامی کتب خانوں کو منظم کر نے اور لا ئبریری سائنس کی تعلیم و تر بیت کے لئے ا مریکہ کے ایک معروف لا ئبریرین سر ولیم ایلانس بورڈن (William Alans Borden) کو کتب خانوں کا سر براہ مقرر کیا ۔ بورڈن جو کولمبیا لا ئبریری اسکول میں استاد رہ چکا تھا نے کتب خانو ں کو منظم کر نے کے علاوہ اسی سال لا ئبریری کلاس بھی شروع کی(۴۴)۔ اس کورس کے نصاب میں لکھنے کا طریقہ، جلد سازی، نظام اجراء، کتابیات وغیرہ شامل تھے۔چار سال بعد ۱۹۱۵ء میں پنجاب کی حکو مت نے ایک اور امریکی پروفیسر آسا ڈان ڈکنسن (Asa Don Dickinson)کو جو میلول ڈیوی کا شاگرد بھی تھا پنجاب یونیورسٹی لا ئبریری کے ذخیرہ (Collection) کو جدید طریقوں پر منظم و مرتب کر نے کی غرض سے بلایا۔ ڈکنسن نے لا ئبریری کو منظم کر نے کے علاوہ ۱۹۱۵ء میں لا ئبریری سائنس کا سرٹیفیکیٹ کورس شروع کیا۔سرٹیفیکیٹ کورس کی یہ کلاس پنجاب یونیورسٹی لا ئبریری کے عملے اور مقامی کالجوں کے لا ئبریرینز پر مشتمل تھی جن کی تعداد ۳۰ تھی۔ اس وقت کے حالات اور ضروریات کے مطابق اس کورس کا مقصد کتب خانوں میں زیر ملازمت عملے کو لا ئبریری سائنس کے جدید اصوں اور طریقوں سے واقف کرانا تھا (۴۵)۔ ڈا کٹر حیدر کے مطا بق یہ ایک مختصر مدت کا سرٹیفیکیٹ کورس تھا اوران لوگوں کے لیے شرو ع کیا گیا تھا جو لا ئبریرین شپ کو ایک پیشہ کے طور پر اختیار کر نا چاہتے تھے۔کورس کے نصاب میں درجہ بندی(نظری) ، کیٹلاگ سازی ، کتابیات اور انتخاب کتب اورانتظام کتب خانہ شا مل تھا۔ عملی کا م پر زیادہ زور دیا جاتا تھا جب کہ یونیورسٹی لا ئبریری میں عملی تربیت ضروری تھی۔اساتذہ میں ڈکنسن اور اس کی بیوی ھیلن(Helen) شامل تھے(۴۶)۔ قرشی کے مطابق ڈکنسن ۱۲ اکتوبر ۱۹۱۵ء کو لا ہور پہنچے ، نومبر میں انہو ں نے جدید لا ئبریری کے طریقہ کار پر متعدد لیکچرز کا اہتما م کیا ،وہ یونیورسٹی میں صرف نو ماہ قیام کر نے کے بعد جولائی ۱۹۱۶ء کو واپس امریکہ چلے گئے۔ ان کے چلے جا نے کے بعد تربیتی کلاس ۱۹۱۸ء میں دو سال بعد منعقد ہو ئی۔ وولنر(Woolner) نے بھی اس کلا س میں لیکچر دیا۔ وو لنر کی سر پرستی میں کور سیز کو توسیع دی گئی یہ کا م پہلے لالہ مکند لا ل (Lala Mukand Lal)اور پھر لالہ لبھو رام (Lala Labhu Ram) نے کیا۔یہ کورس لا ئبریری سائنس کے نظری اور عملی اسباقکا مرکب تھا۔وولنر اس دوران (۱۹۰۳ء۔ ۱۹۲۸ء ) پنجاب یو نیورسٹی کے اعزازی لا ئبریرین بھی تھے ساتھ ہی وہ یونیورسٹی لا ئبریری کمیٹی کے چیٗر مین تھے(۴۷)۔

ڈکنسن(Dickinson) نے لا ئبریری کی تنظیم نوکے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ سرگرمیوں کی سر پرستی بھی شروع کی جس کے نتیجہ میں ’پنجاب لا ئبریری ایسو سی ایشن‘ قائم ہو ئی ۔بر صغیر پا ک و ہند میں قا ئم ہونے وا لی یہ اولین پیشہ ورانہ ایسو سی ایشن تھی(۴۸)۔ ڈاکٹر شرما کے مطابق اکتوبر میں لا ہور سے تعلق رکھنے والے لا ئبریرینزایک جگہ جمع ہو ئے اور ایک ’ لا ئبریرینز کلب‘ (Librarians Club) کی بنیاد رکھی بعد میں اس کلب کو پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن کا نام دیا گیا۔ (۴۹)۔

۱۹۲۰ء میں آندھرا دیسا لا ئبریری ایسو سی ایشن(Andhra Desa Library Association) نے (Vijayawada)میں ٹریننگ کلاس شروع کی۔ ۱۹۲۹ء میں ڈاکٹر رانگا ناتھن (Dr.S.R.Ranganathan) نے جو اس وقت مدراس یونیورسٹی کے لا ئبریرین تھے مدراس لا ئبریری ایسو سی ایشن (Madras Library Association)کے تحت سرٹیفیکیٹ کورس کا آغاز کیا جسے ۱۹۳۱ء میں مدراس یونیورسٹی نے اپنی نگرانی میں لیتے ہو ئے اسے ڈپلومہ کورس میں بدل دیا۔ ہندوستان میں یونیورسٹی کے تحت لائبریری سائنس کی تعلیم کی یہ اولین کوشش تھی۔۱۹۳۵ء میں خان بہادر اسد اﷲکی سر پرستی میں امپیریل لا ئبریری کلکتہ( جو اب بھارت کی قومی لا ئبریری ہے) میں لا ئبریری اسکول قائم ہوا۔بنگال لا ئبریری ایسو سی ایشن (Bengal Library Association)نے ۱۹۳۷ء میں سر ٹیفیکیٹ کور س کا آغاز کیا۔ اس اسکول نے ۱۹۴۵ء تک لا ئبریری تعلیم کی تر بیت کا اہتمام کیا(۵۱)۔ ہندوستان میں لا ئبر یری سائنس کی تعلیم و تر بیت لا ئبریری انجمنوں کے علاوہ جامعات کی سطح پر شروع ہوئی اور مختلف ریاستوں کی جامعات نے ڈپلو مہ کورسیز شروع کئے ان میں آندھرا یونیورسٹی نے ۱۹۳۵ء میں ڈاکٹر تھامسM.O.Thomas) (Dr. کی سر پرستی میں ڈپلومہ کورس شروع کیاایک سال بعد ۱۹۳۶ء میں رنگاناتھن کی کوششوں سے مدراس یونیورسٹی میں ڈپلومہ شروع ہوا۔اسی طرح بنارس ہندو یونیورسٹی میں ۱۹۴۲ء، بمبئی یونیورسٹی میں ۱۹۴۳ء، کلکتہ یونیورسٹی میں ۱۹۴۴ء اور دہلی یونیورسٹی میں۱۹۴۵ء میں ڈپلومہ کورس شروع ہوئے۔

ڈاکٹر رنگا ناتھن کی سر پرستی میں لا ئبریری سائنس میں ڈگری پروگرام(ماسٹر انِ لا ئبریری سائنس) دہلی یونیورسٹی میں ۱۹۵۵ء میں شروع ہوا جس میں پی ایچ ڈی اور ایم فل پروگرام بھی تھا(۵۲)۔ اس وقت بھارت کی متعدد جامعات میں لا ئبریری سائنس کی تعلیم ڈپلومہ، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی تک رائج ہے۔ بمبئی یونیورسٹی(۵۳)، پنجاب یونیورسٹی، مدراس یونیورسٹی ، اِندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (۵۴)وغیرہ لا ئبریری سائنس کی تعلیم کے حوالے سے دنیا میں منفرد اور اعلیٰ مقام رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر رام شوبھت پرساد سنگھ کے مطابق ’ہندوستان میں ۱۹۴۷ء سے پہلے صرف پانچ یونیورسٹیوں میں لا ئبریری سائنس کی تعلیم دی جاتی تھی اب اس کی تعدادبڑھ کر ۳۴ ہو گئی ہے‘(۵۵)۔ آزادی کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لا ئبریری اسکول قائم ہوا جس نے ۱۹۵۱ء میں تعلیم کا آغاز کیاابتدا میں سر ٹیفیکیٹ کورس تھا جسے ۱۹۵۸ء کے بعد بیچلرز کورس میں تبدیل کر دیا گیا۔ ۱۹۵۶ء میں ڈاکٹر رنگا ناتھن نے اپنی تمام زندگی کی کمائی ایک لاکھ روپے مدراس یونیورسٹی میں لا ئبریری سائنس کی سرادا رنگا ناتھن چیر(Sarada
Ranganathan Chair of Library Science) قائم کر نے کے لیے دیے۔ چیئر کے قائم ہو جانے سے
مدراس یونیورسٹی میں لا ئبریری سائنس کا ایک علیحدہ شعبہ قائم ہو گیا جو آج بھی قائم ہے (۵۶)۔

جاپان میں بھی لا ئبریری سائنس کی تعلیم مختلف اداروں اور جامعات کی سطح پر رائج ہے ان میں اسکول آف لا ئبریری و انفارمیشن سائنس،Keioیونیورسٹی(۵۷)،Surugadaiیونیورسٹی(۵۸)،یونیورسٹی آف لا ئبریری اینڈ انفارمیشن سائنس، Tsukuba Science City (۵۹)،یونیورسٹی آف ٹوکیومیں انفارمیشن سائنس ڈیپارٹمنٹ قائم ہے(۶۰)۔ ملائیشیا میں یونیورسٹی آف ملا ئیشیا (۶۱)کے تحت MLISپروگرام منعقد کیا جا رہا ہے۔جنوبی کوریا کے کئی اداروں اور جامعات میں لا ئبریری و انفارمیشن سائنس کی تعلیم کا اہتمام ہے ان میںDaejin یونیورسٹی(۶۲)،Ewha Womans یونیورسٹی (۶۳) ، Kangnam یونیورسٹی (۶۴) ،Keimyungکالج میں لا ئبریری سائنس کاشعبہ قائم ہے(۶۵)۔Kongjuنیشنل یونیورسٹی کے تحت کالج آف ایجو کیشن و لا ئبریری و انفارمیشن سائنس قائم ہے(۶۶)۔Konkuk ونیورسٹی(۶۷)،Kwangju یونیورسٹی (۶۸)، Pusan نیشنل یونیورسٹی (۶۹)،Soong Eui Women'sکالج (۷۰) ،Sung Kyun
Kwan یونیورسٹی (۷۱)، Yonsei یونیورسٹی(۷۲)، میں لا ئبریری و انفارمیشن سائنس ڈیپارٹمنٹ قائم ہیں۔

ڈینمارک کے Biblioteksskoleمیں رائل اسکول آف لا ئبریری و انفارمیشن سائنس(Royal School of
Library and Information Science)(۷۳) میں ماسٹر پروگرام کا انعقاد کیا جارہا ہے۔فن لینڈ (Finland) کی Ouluیونیورسٹی (۷۴)میں شعبہ لا ئبریری و انفارمیشن سائنس قائم ہے۔آئرلینڈ میں یونیورسٹی کالج ڈبلن (Dublin) میں لا ئبریری و انفارمیشن سائنس ڈیپارٹمنٹ کے تحت لا ئبریری سائنس کی تعلیم ڈگری کی سطح پر دی جارہی ہے(۷۵)۔ اٹلی کی یونیورسٹی آف پارما(University of Parma)(۷۶) میں لائبریری سائنس انسٹی ٹیوٹ قائم ہے۔ پولینڈ میں Agiellonian یونیورسٹی(۷۷)،Nicholas Copernicus University of Torun (۷۸)اور Wroclaw (۷۹) یونیورسٹی میں لائبریری سائنس کی تعلیم نصاب کا حصہ ہے۔

روس اور مشرقی یورپ کے ممالک سے کتب خانو ں کی قدیم تاریخ وابستہ ہے ۔ پولینڈ، یوگوسلاویہ، جرمنی، ہنگری اور دیگر ممالک میں کتب خانوں کے ساتھ ساتھ لائبریری سائنس کی تعلیم کی جا نب بھی خصوصی توجہ دی گئی۔روس کی خازن(Kazan) اسٹیٹ اکیڈمی برائے فنون و ثقافت میں لا ئبریری و انفارمیشن کی فیکلٹی قائم ہے(۸۰)۔اسی طرح ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی (۸۱)کے تحت بھی لا ئبریری و انفارمیشن سائنس کی تعلیم کا اہتمام ہے۔اسرائیل کی تین جامعات Hebrew(۸۲)، Bar Ilan (۸۳) اور Haifaیونیورسٹی (۸۴)میں لا ئبریری سائنس کے شعبہ جات قائم ہیں۔

لا ئبریری و انفارمیشن سائنس کی تعلیم و تر بیت دنیا کے تقریباً تمام ہی مما لک میں انڈر گریجویٹ ، بیچلرز ڈگری ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر دی جا رہی ہے۔ انٹر نیٹ پر موجود معلومات اور یونیسکوکی ڈائریکٹری برائے لا ئبریری اسکول(۸۵) کے مطابق جن ممالک کی تفصیل اوپر بیان کی گئی ہے ان کے علاوہ لا ئبریری سائنس کی تعلیم و تر بیت افغانستان، آسٹریا، بلجیم، برازیل، بلغاریہ، چلی، کولمبیا، کوسٹا ریکا، چیکو سلواکیا، مصر، ایتھوپیا، فن لینڈ، گھانا، عراق، جمائیکہ، اردن، کوریا، میکسی کو، نیدرلینڈ، نیو زی لینڈ، نائیجیریا، پیراگوا، پیرو، فلپائن، ہالینڈ، پرتگال، رومانیہ، سعودی عرب، سینی گال، اسپین، سوئیڈن، سوئیزرلینڈ، تھائی لینڈ، تونیسیہ، یوگینڈا، یونوگوا، وینوزولا، یوگوسلاویہ اور ز یمبیا شامل ہیں۔

حواشی و حوالہ جات
42. Ray, Nihar Ranjan. Report of the Director-Organiser on the Working of
the Special Graduate Course of Training in Librarianhsip. April-July 1954.
quoted in Anis Khurshid. Standards for Library Education. ref.56, p. 320
۴۳۔ اشرف علی۔کتب اور کتب خانوں کی تاریخ ) اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان،۲۰۰۲ء( ، ص ۳۳۹۔۳۴۱
44. International Encyclopedia of Information and Library Science/ed. by John
Feather and Paul Sturges.- (London: Routledge,1997) , p.175
45. Sharma, Jagdish Saran. Libray Movement in India. ref. 20, p.5
46. Dickinson, Asa Don. Punjab University Library Training Class of 1915-
1916: Extracts from the Diary. PLA Journal. 2 (2): 71-71, April 1968
47. Haider, Syed Jalaluddin. 'Educating Future Librarians in Pakistan. a
library educator's perspective'. Education for Information.16 : (1998), 30
48. Qarshi, Afzal Haq. 'Dr. A. C. Woolner: An Architect of Department of
Library Science, University of the Punjab Lahore'. Pakistani Librarian.
no.3, (1997. ), 9
49. Anwar, Mumtaz A. 'Asa Don Dickinson: the Founding Father of Modern
Librarianship in British India'. Pakistan Library Bulletin. 21 no.2 (June
1990):18
50. Sharma, Jagdish Saran. Libray Movement in India. ref. 20, p.139
51. Ibid., p.5
52. Reddy, K. Siva and K. Somasekhara Rao. Library and Information Sciene
Eduation in India: A Case for need based Curriculum Development.
quoted in N. Guruswamy Naidu. Librarianship in Developing Countries.
(New Delhi: Ess Ess Publications,1992) , p.182.
53. Web Site: https://members.rediff.com/vidyarthi/dlishome.htm (Accessed
Dec. 25, 2004)
54. Indhrah Ghandi National Open Univerissty.
Web Site: https://www.ignou.ac.in/ (Accessed Dec. 25, 2004)
۵۵۔ سنگھ ‘ رام شوبھت پرساد،حوالہ ۲۶، ص۔ ۱۲۰
56. Anis Khurshid. "Standards for Library Education in Burma,Ceylon,
India and Pakistan". (Ph.D dissertation, USA: Pittsburgh,1973), pp.378-79
57. Web Site: https://www.slis.keio.ac.jp/index.html (Accessed Dec.25, 2004)
58. Web Site:https://www.surugadai.ac.jp/faculty/cir/ (Accessed Dec.25,2004)
59. Web Site : https://www.slis.tsukuba.ac.jp/inst/ (Accessed Dec.25, 2004)
60. Web Site: https://www.is.s.u-tokyo.ac.jp/ (Accessed Dec.25, 2004)
61. Web Site: https://www.fsktm.um.edu.my/ (Accessed Dec.25, 2004)
62. Web Site: https://dept.daejin.ac.kr/~djlis/main.htm (Accessed Dec.25 2004)
63. Web Site: https://www.ewha.ac.kr/ewhaeng/school/sch_aca_03_04.htm

(Accessed Dec.25, 2004)
64. Web Site: https://www.kangnam.ac.kr/eng/c/c3_a.htm (Accessed Dec.25,
2004)
65. Web Site: https://kmlis.keimyung-c.ac.kr/ (Accessed Dec.25, 2004)
66. Web Site: https://www.kongju.ac.kr/en/sub02_fr01_02.html (Accessed
Dec.25, 2004)
67. Web Site: https://lis.kku.edu/ (Accessed Dec.25, 2004)
68. WebSite:https://www1.mju.ac.kr/my2001/english/college/human/human6.
htm (Accessed Dec.25, 2004)
69. Web Site:https://mis.pusan.ac.kr/pnu/english/New/subpages/sub5/col
_02_05.htm (Accessed Dec.25, 2004)
70. Web Site: https://www.silla.ac.kr/eng/admission.htm
(Accessed Dec.25, 2004
71. Web Site: https://slisnet.skku.ac.kr/ (Accessed Dec.25, 2004)
72. Web Site: https://lis.yonsei.ac.kr/ (Accessed Dec.25, 2004)
73. Weeb Site: https://www.db.dk (Accessed Dec.25, 2004)
74. Web Site: https://syy.oulu.fi/kil.html (Accessed Dec.25, 2004)
75. Web Site: https://www.ucd.ie/~lis/index.html (Accessed Dec.25, 2004)
76. Web Site: https://www.aldus.unipr.it/ (Accessed Dec.25, 2004)
77. Web Site: https://bilon.miks.uj.edu.pl/index.html (Accessed Dec.25, 2004)
78. Web Site: https://www.his.uni.torun.pl/en/deplibais/deplibais.html
(Accessed Dec.25, 2004)
79. Web Site: https://www.ibi.uni.wroc.pl/indexen.html(Accessed Dec.25,2004)
80. Web Site: https://www.kgaki.kcn.ru/cpec1.htm (Accessed Dec.25, 2004)
81. Web Site: https://msuc.edu.ru/binf.htm (Accessed Dec.25, 2004)
82. Web Site: https://sites.huji.ac.il/slais/libschl.htm (Accessed Dec.25, 2004)
83. Web Site: https://www.is.biu.ac.il/ (Accessed Dec.25, 2004)
84. Web Site: https://lib-stu.haifa.ac.il/English/ (Accessed Dec.25, 2004)
85. World Guide to Library Schools and Training Coruses in Documentation.
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1278537 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More