فرعون اور موسیٰ کی جنگ

گزرے دنوں کی بات ہے کہ ایک ریاست میں جنگل کا قانون تو تھا ہی، لیکن اس کے دارلحکومت میں تواس کے آئین وقانون کی دھجیاں بکھیری جارہی تھیں ،دارلحکومت کے انتظام وانصرام چلانے والے ادارے DSAکی افسرشاہی عوام تودور،بادشاہ سلامت کے درباریوں کوبھی گھاس نہ ڈالتی ۔رعایا ہردن ذلیل ورسوا ہوتی لیکن شنوائی ہوتی توکہاں ہوتی کیونکہ افسرشاہی توبادشاہ سلامت کی آشیرواد سے غنڈہ گردی کررہی تھی اوربادشاہ سلامت خودبہتی گنگا میں ہاتھ ہی نہیں دھورہے تھے بلکہ پورا غسل کررہے تھے ۔

کہتے ہیں اﷲ کی لاٹھی بے آوازہے ،اورجب وہ برستی ہے تونظربھی آتی ہے ،ہوا یوں کہ دارالحکومت میں ایک ایسا قاضی تعینا ت ہوگیا جونہ صرف یہ کہ کرپٹ اوربددیانت نہ تھا بلکہ نڈراورجی داربھی تھا،اس نے آتے ہی کچھ ایسے اقدام کئے کہ اس کے فیصلے بولنے لگے ،بڑے بڑے اداروں کے سربراہ قانون شکنی کے جرم میں کٹہرے میں کھڑ ے نظرآئے ،پھرایک ایسا وقت بھی آیاکہ DSA کے کچھ آفیسرزبھی کٹہرے میں کھڑے کردئیے گئے، لیکن ہرآنے والا افسرایک ہی شخصیت کی جانب اشارہ کرتا کہ ادارے کا سربراہ بھی اتنی پاورزنہیں رکھتا جواسٹیرنگ کمیٹی کا ’’بے تاج بادشاہ ‘‘رکھتا ہے اورہم اس کے سامنے بے بس ہیں ،قاضی کوان صاحب کی شان وشوکت دیکھنے کااشتیاق ہوا کہ اس شخصیت کا دیدارتوکیاجائے جس کے سامنے ادارے کا سربراہ بھی بے بس ہے،چنانچہ سمن ہوئے اور’’بے تاج بادشاہ‘‘اپنے کروفرکے ساتھ قاضی کی عدالت میں پیش ہوا ،سوال ہوئے کہ جناب آپ کس قانون کے تحت ادارے کے معاملات چلا رہے ہیں ،گویا ہوئے کہ بس مجھے اسٹیرنگ کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا اورمیرے پاس اختیارہے کہ میں معاملات کوچلاؤں ،قاضی صاحب نے کہالیکن قانون میں توایسی کوئی گنجائش نہیں ،لیکن موصوف مصررہے کہ نہیں مجھے تویہ عہدہ دیا گیا ہے،توقاضی صاحب نے آئین وقانون کی روشنی میں انھیں کہا کہ یہ عدالت کا حکم ہے کہ آپ اسی وقت سے ادارے کے معاملات سے الگ ہوجائیں اورآئندہ فیصلے تک آپ ادارے کے کسی معاملے میں مداخلت نہیں کریں گے ،قاضی صاحب نے توفیصلہ سنا دیا لیکن کیسے ممکن تھا کہ ’’بے تاج بادشاہ ‘‘اپنی سلطنت کواتنی آسانی سے چھوڑ دیتے چنانچہ ان کے درباری ان کے حق میں سامنے آگئے بیچ چوراہے کے پریس کانفرنس کردی کہ ہم ’’بے تاج بادشاہ‘‘کے ساتھ ہیں اوریہ کام جاری رکھیں گے،لیکن قاضی صاحب صرف فیصلہ کرنا نہیں اس پر عملدرآمدکروانا بھی جانتے تھے چنانچہ ان درباریو ں کے نام توہین عدالت کے سمن جاری ہوگئے اوراگلے دن وہ بڑے بڑے عہدوں پر براجمان آفیسرزعدالت کے کٹہرے میں کھڑے تھے ،لیکن چونکہ ان کے دماغ ساتویں آسمان پر تھے اس سے قبل عوام ان کے پاؤں میں بیٹھتے تھے اوروہ انھیں ٹھڈے مارتے تھے، آج جب انھیں عدالت کے سامنے کھڑا ہونا پڑا تواسے اپنی تذلیل سمجھا اورصرف سمجھا نہیں، بلکہ اس کا عملی اظہاربھی کردیا ،اورقاضی صاحب کوگھورنے لگے ،لیکن وہ موصوف شاید کسی اورقاضی کے دربارکے عادی تھے جب قاضی صاحب نے ان کا گستاخانہ رویہ دیکھا توپولیس کوبلا کرکہاکہ انھیں لے جاکرجیل میں بندکردیں اورکل عدالت کے روبروپیش کریں ،چنانچہ ایسا ہی ہوا ،اگلے دن افسراعلیٰ صاحب کوجب عدالت میں پیش کیا گیا تووہ تہذیب جوپچاس سال میں نہ سیکھ سکے تھے ایک ہی رات میں سیکھ کرانتہائی مودب اندازمیں عدالت کے روبروپیش ہوئے ۔

اب بے تاج بادشاہ اوران کے درباری آفیسرزسمجھ گئے کہ سامنے سے وارتوممکن نہیں چنانچہ کوئی ایسی سازش تیارکی جائے کہ قاضی صاحب کوگھربھیجا جائے تاکہ ہم اپنی دنیا میں مست رہیں اورہمیں چھیڑنے والا کوئی نہ ہو،سازشیں جاری ہیں ،پیٹھ پیچھے وارہورہے ہیں ،خیروشرکی یہ جنگ ازل سے جاری ہے تاابدجاری رہے گی ،لیکن ہم نے دیکھنا ہے کہ ہماراوزن حق کے پلڑے میں ہے یا باطل کے پلڑے میں ۔
INAM UL HAQ AWAN
About the Author: INAM UL HAQ AWAN Read More Articles by INAM UL HAQ AWAN: 24 Articles with 25093 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.