اینکر پرسنز کی ذمہ داریاں

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے پھیلتے جال نے پورے پاکستان با لخصوص شہری علاقوں کو پوری طرح اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے ۔شام ہوتے ہی تمام ٹی ۔وی چینلز پر حالاتِ حاضرہ کے پروگرامز میں اینکرز پرسنز ،سیاسی جماعتوں کے کچھ مخصوص چہروں کے ساتھ داخلہ و خارجہ پالیسیز پر اظہارِ خیال کرتے ہیں اور کرواتے بھی ہیں ۔پرائم ٹائم کے علاوہ دن کے اوقات میں یہ پروگرام دوبارہ بھی دکھائے جاتے ہیں ۔
الیکٹرانک میڈیا کے پھیلتے نیٹ ورک کے حوالے سے چند گزارشات اور تجاویز پیش کی جارہی ہیں جو کسی چینل یا کسی ایک اینکر پرسن کی ذات کے حوالے سے قطعاََ نہیں ۔یہ بہت سے دلوں کی آواز ہے۔

ٹی۔وی چینلز پر آنے والے اینکر پرسنز کی ایک قسم وہ ہے جس نے صحافت کی تپتی دھوپ میں بال سفید نہیں کئے۔دوسری قسم وہ ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی ماہ و سال اس پیشے میں لگا دیے ۔انہوں نے در اصل اپنی صحافتی زندگی کا آغاز پرنٹ میڈیا سے کیا ۔نیوز ڈیسک پر نیوز ایڈیٹرز اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر ز کی جھاڑیں کھائیں ۔رپورٹنگ کے تپتے صحرا میں اپنے آپ کو کندن بنایا ۔اپنی تنخواہوں کے پیسے بھی اشتہار دینے والی کمپنی کے مالکان کے گھروں اور دفتروں سے اشتہارات کے پیسے اکٹھے کر کے پورے کئے۔اس طرح کے جتنے لوگ ہیں ان کی گفتگو اور اظہارِ خیا ل کے طور اطوار سے تمانت اور سنجیدگی کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔

پہلی قسم در اصل ’’ ڈرون ‘‘ اینکر پرسنز ہیں ۔جو اپنی دانست میں تو کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں اوردوسری قسم کے صحافیوں کے کان تو کیا سب کچھ ہی کترتے ہیں ۔ مگر اپنے تئیں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والے ان قابلِ احترام اینکر پرسنز کو حکومتِ وقت کو رخصت کر دینے کے علاوہ بھی موضوعات کووقت دینا چاہیے ۔ان سے بے حد احترام کے ساتھ گزارش یہ بھی ہے کہ دنیا بھر کے آزاد الیکٹرانک میڈیا کے پروگرامز کے ساتھ اپنا اور اپنے پروگرامز کا موازنہ ضرور کریں تا کہ اندازہ ہو سکے کہ موضوع صرف سیاست ہی نہیں اور بھی ہو سکتا ہے اور بد ترین حکومتیں بھی کچھ نہ کچھ اچھا بھی کر رہی ہوتی ہیں ،جنہیں ذیادہ نہ سہی مناسب وقت اور جگہ ملنی چاہیے۔

تمام اینکر پرسنز الیکٹرانک میڈیا کے پلیٹ فارم کو اپنی باندی سمجھ کر دِلی خواہشات کو فیصلوں کی صورت میں مسلط نہ کریں تو یقیناََ قابلِ داد ہو گا ۔وہ یہ حقیقت کبھی فراموش نہ کریں کہ ان کی زبان سے نکلی ہوئی بے شمار باتوں پر سننے والوں نے اپنی رائے قائم یا پختہ کرنی ہوتی ہے اوراگر کسی ایک اینکر پرسنز کی ذاتی پسند و نا پسند کی وجہ سے کسی نے غلط رائے قائم کر لی تو اﷲ کے احتساب کا شکنجہ اسے پکڑ بھی سکتا ہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک بڑا نام ،جو تمام چینلز بشمول سرکاری ٹی۔وی کے ،چکر لگا چکا، ایک سابق صدر کی رخصتی کا دن اور وقت اکثر بتاتا رہتا تھا مگر ان کی خواہش پوری نہ ہو سکی اور وہ صدر مقررہ مدت کے بعد ہی ایوانِ صدر سے رخصت ہوئے ۔آج کل وہ اور اسی طرح کے کچھ اور ، لمحوں میں حکومتِ وقت کو ختم کرنے کے لئے تڑپ رہے ہیں ۔میڈیا اور سیاست کے ایوانوں میں بیٹھے سیاستدانوں نے اس وقت جو بیڑا اٹھایا ہوا ہے اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یاد رکھیں جس ’’ قوت ‘‘ کو وہ پھر سے پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں ، کے آنے پراس کے وزن تلے آزادیٔ صحافت زندہ در گور ہو جائے گی اور شتر بے مہار پرائم ٹائم کی بھی قبر بنے گی۔

ایسا لگتا ہے پاکستان میں سوائے سیاست کے موضوع کے اور وہ بھی ہر جماعت کے چند عہدیداروں کی سیاست ، ہر موضوع ختم ہو چکا ہے ۔ کتنے ہی اور موضوعات ہیں جن پر بات ہو سکتی ہے ۔تعلیم ، سماجی معاشی،معاشرتی مسائل پر بات ہو سکتی ہے ۔سول سوسائٹی بھی اسی پاکستان کا حصہ ہے۔بہت کم ایسا ہوا کہ سول سوسائٹی کے لوگوں کو پرائم ٹائم میں موقع ملتا ہے۔

اکثرمیڈیا مالکان صحافت کے ریگزاروں کے مسافر نہیں ، ٹھیکیداری نظام کے تحت اُنہوں نے بھی اپنی رینکنگ بہتر بنانے کے لئے (کچھ نے)اپنا چینل ایسے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جنہیں یہ جاننے کی ضرورت بہر حال ہے کہ کب کیا اچھا لگے گا ؟

حکومتِ وقت پر تنقید کرنا سب کا حق ہے مگر یہ مشن نہیں ہونا چاہیے۔ایک اور گزارش ہے کہ سوالات کے جوابات کے لئے صرف متعلقہ وزیر کو ہی بلایا جائے ،یا کسی اور عہدیدار کو ،حکومتی پالیسی صرف حکومتی ترجمان کے ذریعے سامنے آئے۔مثلاََ وزیر ریلوے صرف اپنے محکمہ کے بارے میں جواب دینے کا پابند ہو اینکر پرسنز سختی سے اس پر عمل کریں تو ایک ہی قیمت میں مختلف آراء کو روکا جا سکتا ہے۔ اچھی جمہوریت میں اپوزیشن کی شیڈو کابینہ بنتی ہے اور متعلقہ شیڈو وزیر ہی حکومتی وزیر کے بارے میں بیان دیتا ہے ۔ پاکستان میں بات تو مغربی جمہوریتوں کی کی جاتی ہے مگر ان کے بنائے اصولوں پر عمل نہیں کیا جاتا ۔اینکر پرسنز حکومتوں اور اپوزیشن کو اگر عوام کے سامنے لڑانا ہی چاہتے ہیں تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ حکومتی وزیر سے پروگرام میں آنے سے پہلے گزارش کی جائے کہ اس کی گذشتہ ایک برس کی کارکردگی پر بحث ہو گی ۔وہ وزیر اپنے متعلقہ عملے کے ساتھ اپنی کارکردگی بتائے ،اپوزیشن اس پر اظہارِ خیال کرے آخر میں کوئی نتیجہ بھی نکالا جائے۔ وقت ختم ہونے کا کہہ کر پروگرام ادھورا نہ چھوڑا جائے ۔

آجکل اینکر پرسنز نے ایک اور کام یہ کیا ہے کہ دوسرے چینلز کے اینکر پرسنز کو بلا کر بھی پروگرام کا پیٹ بھرتے ہیں حتیٰ کہ ایک بیوی کے پروگرام میں اس کے میاں بھی نظر آتے ہیں ۔

ایک اور گزارش یہ بھی ہے کہ پروگرام کے آغاز ، درمیان اور اختتام پر اپنی پسند و نا پسند کا نتیجہ اخذنہ کیا جائے ۔پروگرام کا پلیٹ فارم ایک امانت ہے جس کا تقاضہ یہ ہے کہ بالکل غیر جانبدار ہو کر پروگرام کیا جائے۔
آخر میں آخری گزارش یہ ہے کہ یہ پاکستان ہم سب کا ہے۔ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے ۔شام کے بعد الیکٹرانک میڈیا پر حکومتوں کے گرانے اور پاکستان کے ٹوٹنے کے علاوہ اور بھی بے شمار موضوعات ہیں جن پر بات ہو سکتی ہے ۔سارے اینکر پرسنز ایک ایک پروگرام ہر شہر کے ارد گرد زرعی زمینوں کو نِگلتی شتر بے مہار ہاؤسنگ سکیمز پر کر لیں تو کافی اچھے پروگرام ہو سکتے ہیں ۔ رہائشی علاقوں میں کمرشلزم کے سیلاب پر بھی بہتر پروگرام ہو سکتے ہیں۔ سارے نہیں مگر وہ اینکر پرسنز جو صرف اپنی خواہشات کے غلام ہیں اور ہر آنے والی حکومت کے پَر کاٹنے کے لئے بے چین رہتے ہیں وہ سکھ چین سے رہیں اور رہنے بھی دیں ۔
Tariq Javed Mashhadi
About the Author: Tariq Javed Mashhadi Read More Articles by Tariq Javed Mashhadi: 24 Articles with 23942 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.