پاکستانی پختونوں کا مستقبل

پاکستان کے وزرات داخلہ کی مثال بھی ایسی ہے کہ کسی نے کہا کہ کان کوا کاٹ کھایا تو اپنے کان کو دیکھنے کے بجائے ، کوے کے پیچھے دوڑتے پھرتے ہیں ۔ کچھ ایسا ہی اب پاکستان میں شناختی کارڈ کے معاملے میں ہونے جا رہا ہے ، پہلے تو نادرا میں سیاسی اثر رسوخ پر میرٹ کے بغیرتقرریاں کیں ، پھر من پسند افراد کی نادرا آفسز میں تعیناتیاں کیں اور اس کے بعد نادارا میں کھلے عام رشوت کی اجازت دی ، عوام چیخ چیخ کر تھک گئے کہ نادرا عوام کی پریشانی رشوت نہ دینے کے سبب بن رہا ہے اور جعلی شناختی کارڈ ایجنٹوں کے توسط سے بنائے جا رہے ہیں لیکن وزرات داخلہ کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔پہلے مرحلے میں اگر کوئی واقعہ رونما ہوا تو سے سے پہلے نادرا نے پختونوں پر پابندیاں عائد کرنا شروع کردیں ۔ پاکستان میں کہیں بھی کسی بھی قسم کے واقع میں صرف حکومت کو پختون ہی دہشت گرد نظر آتا تھا اس لئے اس نے نادرا کے مرکزی دروازوں پر لکھ دیا کہ فاٹا اور پاٹا کے شہری کارڈ بنانے کے لئے رجوع نہ کریں ۔ یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رکھا بلکہ شناختی کارڈ کے حصول کیلئے نت نئی شرائط عائد کی جانے لگی ۔پہلے پیدائشی سٹریفکیٹ ، سے بات چلی تو نکاح نامے پر بات جا کر رکی ۔ پختون اپنی روایت کے مطابق ایوب خان دور کے دیئے گئے تحریری نکاح ناموں کے بجائے روایتی طریقے سے سے ہی نکاح کیا کرتے ہیں ، جس میں لڑکا اور لڑکی کی جگہ اس کا ولی اختیار لیکر رشتے کرتا ہے ۔ اب پختونوں کی دوڑیں مولویوں کے پیچھے لگ گئی کہ پچاس سال پہلے کا نکا ح نامہ بنا دو ، وہ شخص اب دادا ، نانا ہے لیکن اسے اپنے نواسے ، پوتے کے لئے نکاح دوبارہ کرنے کی ضرورت پیش آگئی ہے ۔ آگے چلتے ہوئے مشرف دور میں نادرا کے ڈیٹا پر پیدائشی اندارج و اموات کے ساتھ نکاح و تنسخ طلاق کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اب یونین کونسل والوں کے مزے ہوگئے اور جی بھر رشوت لیکر 50روپے روپے سٹریفکیٹ کے ہزاروں روپے وصول کئے جانے لگے ، جب نادرا نے یہ دیکھا کہ معاملہ تو رک نہیں رہا تو ب فارم کی شرط عائد کردی کہ اس کے بغیر کارڈ نہیں بنیں گے ، اب جو بچے اٹھارہ سال کے ہوگئے ہیں انھوں نے دوبارہ جاکر اپنی عمریں کم کرائیں اور ب فام میں اندراج کرانے لگے ۔ گھنٹوں طویل لائنوں میں کھڑے ہونے کے بعد کا نمبر آتا تو یہ کہہ کر واپس کردیا جاتا کہ یہ ہمارا علاقہ نہیں ہے ۔ نادرا بھی نو گو ایریا بن گئے ۔ سیاسی جماعتوں کے کرپٹ کارکنان ایجنٹوں کا کام کرنے لگے جس علاقے میں جس سیاسی جماعت کا اثر رسوخ زیادہ ہے وہاں اس کے ایجنٹ زیادہ۔عوام نے لائن کی زحمت سے بچنے کیلئے اسمارٹ کارڈ کی بھاری فیس بھرنا منظور کی کچھ دن تو معاملہ ٹھیک رہا لیکن پھر جب رشوت میں کمی دیکھی تو انھیں بھی عام لائن میں کھڑا کردیا جاتا اور بھاری فیس وصول کیں جاتیں۔اب آئیے کہ پختون قوم کواپنا شناختی کارڈ بنانے کیلئے اور اس کی تصدیق کیلئے نیشنل اسٹیٹس انکوئری کی شرائط کیا ہیں اور وہ کیا کاغذات طلب کرتے ہیں ۔ سب سے پہلے درخواست گذار کا برتھ سٹریفیکٹ ، درخواست گزار کا ب فارم ، درخواست گزار کا این آئی سی ، کے ساتھ کمپوٹر این آئی سی ، درخواست گذار کا پاسپورٹ، درخواست گزار کا ڈومی سائل و پی آر سی ، درخواست گزار کا نکاح نامہ ، درخواست کا سروس سڑیفکیٹ ، درخواست گزار کے والدین کے این آئی سی ، کے ساتھ کمپوٹر این آئی سی ان کے بھی پاسپورٹ ، تعلیمی سٹریفکیٹ ، نکاح نامہ ، ڈومی سائل سروس سر ٹیفکیٹ وغیرہ، درخواست گزار کے بہن بھائیوں کے این آئی سی ، کے ساتھ کمپوٹر این آئی سی پاسپورٹس تعلیمی سڑیفکیٹ نکاح نامہ ڈومی سائل وغیرہ، درخواست گزار کے دادا ، دادی چچا ، تایا کے این آئی سی ، کے ساتھ کمپوٹر این آئی سی پاسپورٹس ، ڈومی سائل نکاح نامہ راشن کارڈ وغیرہ ۔ جائیداد کے کاغذات بنام درخواست گذار اس کے آبا و اجداد کراچی کے یا آبائی گاؤں ، دو عدد گزیٹڈ افسرانک سڑیفیکٹ ، دو عدد گوہان بمعہ حلف نامہ ، بجلی گیس کے بل اور1978سے پہلے کی دستاویزات۔

اتنی تفصیلات پڑھ کر انسان کو ویسے ہی چکر آجاتے ہیں ، جب ان سے کہا جاتا ہے کہ والدین کے کارڈ ہیں ان کے پرانے ریکارڈ ہیں تو بھی انھیں کیوں پریشان کیا جاتا ہے تو جواب ملتا کہ ہمیں اپنی گردن بھی تو بچانی ہے ۔یہ صرف پختونوں کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ غیر قانونی طور پر کارڈ بنوانے والوں کو اس زحمت کی ضرورت نہیں ہے ۔ایسے نادرا آفس کے باہر کھڑے ایجنٹ کو اپنے گھر میں بلا کر اچھے کھانے کے ساتھ موٹے لفافے کی ادائیگی کے بعد پندرہ دن میں کارڈ مل جاتا ہے ۔ پھر نادرا اپنے ایجنٹ سے نہیں پوچھتا کہ اس کے دادا دادی ، تایا کہاں ہیں ، اس کے جائیداد کے کاغذات کہاں ہیں راشن کارڈ کہاں ہے؟ڈومی سائل پی آر سی کا بھی یہی مسئلہ ہے ۔ سب کچھ رشوت کے بل بوتے پر چل رہا ہے ۔ اب نادرا پختون کے کارڈ بنانے سے قبل ایک فارم تھما دیتا ہے اپنے پورے خاندان کے کوائف لکھ کر آؤ اور دو گواہان کے دستخط بھی ۔ وہ پہلے اپنے پورے خاندان میں ان سے بھی ملتا ہے جس سے وہ سالوں نہیں ملا ، اگر ناچاقی ہے تو اس کا سلسلہ وہیں رک گیا ۔نام کے ساتھ خان لکھا ہوا ہو ، تو کارڈ بلاک ، داڑھی لمبی ہو تو کارڈ بلاک ، چہرے پر پہلی بار داڑھی ہو تو کارڈ بلاک ، اردو میں کا کی جگہ کی، بولتا کی جگہ بولتی ہوتو ، کارڈ بلاک ، کردیا جاتا ہے۔ نیشنل اسٹیٹس انکوئری میں ایک لفظ ’ وغیرہ ‘ لکھا ہوا ہے ۔ یہی وہ لفظ ہے جس سے سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں ، آپ وغیرہ والی ضرورت پوری کردیں پھر آپ پاکستانی ہیں ، اگر وغیرہ والی ضرورت پوری نہیں کی تو آپ افغانی ہیں۔

سارا بگاڑ تو خود نادرا کا ہے ۔ کیا وزیر اعظم کے پاس 1978کا راشن کارڈ ہوگا ۔ کیا وزیر داخلہ کے پاس 1978کا راشن کارڈ موجود ہے ۔ چلیں تصدیق کا عمل ارباب اختیار سے کرتے ہیں ، پاکستان کے ایک نگران وزیر اعظم کے پاس تو پاکستانی شناخت ہی نہیں تھی لیکن ان کو نگران وزیر اعظم بنا دیا گیا ۔ ہم آف شور کمپنیوں کی طرح اثاثے کسی سیاست دان سے طلب نہیں کرتے ۔پہلے وہ قوم کے سامنے اپنی پاکستانی ہونے کی شناخت رکھیں کہ ان کے پاس تمام دستاویزات مکمل ہیں جو عوام اور خاص طور پر پختون قوم سے مانگے جا رہے ہیں ۔کم ازکم وزیر اعظم نہیں تو وزیرداخلہ ہی سہی اپنے شناختی کارڈ کیلئے مطلوب دستاویزات عوام کے سامنے رکھے ، اور اگر پختون عوام ان دستاویزات کو پورا نہ کرسکے تو انھیں ایک کاغذ پر لکھ کر دے دے کہتم پاکستانی نہیں ہے ۔نادرا قومیتوں کو بغاوت پر مجبور کرتے ہیں عتصبانہ رویہ اختیار کرتے ہیں لسانیت کی بنیاد پر انھیں حقارت سے دیکھتے ہیں ، صوبائی حکومتوں کی ہدایات پر پختونوں کیلئے نادرا کے دروزاے پر لکھ دیا جاتا ہے کہ پاٹا اور فاٹا کے عوام رابطہ نہ کریں ۔پاکستان میں رہتے ہوئے بھی پاکستانی ہونے کے باوجودخود کو علاقہ غیر کے رہائشی کہلاتے ہیں ۔لیکن رشوت دیکر جو کام کرالیا جائے وہ سب سے آسان ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے نادرا کا نظام ٹھیک کریں ، دوبارہ تصدیق کے مرحلے کیلئے ان کے رشوت کے ریٹ مت بڑھائیں ۔ عوام کو مزید پریشان مت کریں ۔ غیر ملکیوں کو شناختی کارد جاری کرنے والوں کے خلاف پہلے ایکشن لیں ، سیاسی بھرتی والوں کو نادرا سے باہر نکالیں ، میرٹ پر نادرا کا نظام لائیں ، سیاسی جماعتوں کے ایجنٹوں کو نادرا آفس سے ہٹائیں ، یونین کونسل کی سطح پر نادرا آفس کھولیں ۔ جس کا مکمل ذمے دار وہاں کا چیئرمین ہو ۔ایسا معتصبانہ رویہ ختم کریں ، لسانیت صوبائیت کے نام پر نا انصافیاں ختم کریں ۔غیر قانونی کارڈ صرف پختون کے کھاتے میں نہ ڈالیں ۔ ایرانی ، ازبک ، تاجک ، بنگالی ، برما وغیرہ کی بہت بڑی تعداد ہے جنھوں نے نادرا کو رشوت دیکر کارڈ بنائے ہیں ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تصدیق نہ ہو ، کڑی تصدیق ہو ، لیکن تعصب ، لسانیت اورصوبائیت نہ ہو کہ اس بہانے دوسری قوم کی تعداد بڑھا دی جائے اور اقلیت ، اکثریت کے چکر میں بے گناہ عوام کے ساتھ نا انصافی ہو ۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 659088 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.