حسینہ واجد کو مطعون کرنے کے جنون میں حقائق کو مت جھٹلائیے

بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کی حکومت منتخب جمہوری حکومت ہے وہ اپنے ملک کے اندرونی اور بیرونی حالات سے متعلق فیصلے کرنے کا اسی طرح حق رکھتی ہے جیسے ہم اور دیگر ممالک کی حکومتیں یہ حق بجانب ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے بنگلہ دیش کی حکومت کے قائم کردہ ٹربیونلز بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک میں رکاوٹیں ڈالنے، اس تحریک کو کچلنے میں پاک فوج کے مدد گار و معاون افراد کو جنگی جرائم کے الزام میں پھانسیاں دینے کے فیصلے دے رہے ہیں، بد قسمتی کہیے یا خوش قسمتی اب تک ان ٹربیونلز کے فیصلوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے جن افراد کو موت کی نیند سلایا گیا ہے ان کا تعلق ہماری جماعت اسلامی کی بنگلہ دیش شاخ سے ہے۔

ان پھانسیوں سے جماعت اسلامی کا سیخ پا ہونا ، سراپا احتجاج ہونا فطر ی عمل ہے، لیکن جماعت اسلامی کے آہ و بقاء میں ہماری حکومت بھی شامل ہوکر بنگلہ دیش کی منتخب حکومت کی مذمت کرتی اور اسے مستقبل میں ایسے فیصلوں سے گریز اور اپنی پالیسی میں تبدیلی لانے کی نصیحتیں بھی کررہی ہے،جو کہ میری رائے میں غیر اصولی اور نامسانب بات ہے،اسکی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش اب ہمارا حصہ نہیں بلکہ وہ ایک آزاد کود مختار ریاست ہے اپنے فیصلے کرنے میں وہ آزاد ہے اس کے لی کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے اس کا اسے مکمل ادراک ہے۔ جب وہ ہمارا بازو تھا تب ہم نے اسکی رائے کو کبھی بھی قابل غور نہیں جانا تھا اب تو وہ خیر سے ہم سے بہت آگے ہے ،اب بھلا وہ ہمارے باتوں ،نصیحتوں کو کیا اہمیت دیگا۔

پاکستان کو ماضی میں دو بار ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہونا پرا ہے، پہلی مرتبہ اس وقت جب بنگلہ دیش مشرقی پاکستان تھا اور ہمار ایک صوبہ ہوتا تھا، تو پاکستان کی فوجی حکومت یعنی ایوب خان حکومت کی ایک عدالت نے جو غالبا فوجی عدالت تھی ،نیجماعت اسلامی پاکستان کے بانی اور امیر مولانا سید ابولااعلی مودودی کو سزائے موت سنائی تو عالمی برادری میں سے کچھ نے اسکی مذمت کی تو ہم نے بہت برا منایا تھا ،پھر اپنے برادر ایمانی سعودی عرب کی مداخلت پر ہم نے مودودی صاحب کی سزائے موت ختم کردی ۔ دوسری بار بھی ایک فوجی اور ناجائز حکومت جس کی سربراہی جنرل ضیاء الحق کررہا تھا ،کیخصوصی انتظامات کے تحت پاکستان کے منتخب عوامی اور جمہوری حکومت کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی گئی تو پوری عالمی برادری نے جان بخشی کی اپیلیں کیں ہوسکتا ہے کہ یہ اپیلیں کرنے والوں میں سے چند نے منہ رکھنے کی خاطر کی ہوں اور وہ دل سے ایسا نہ چاہتے ہوں ……لیکن اس بار ہمارے پکے مسلمان جنرل ضیاء نے اپنے برادر ایمانی سعودی عرب کی اپیلی بھی مسترد کردی تھی اور تمام اپیلوں کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا تھا، ہاں دنیا کے نقشے پر موجود ایک ملک ایسا تھا جس نے ذوالفقار علی بھٹو کے لیے جان بخشی کی اپیل نہیں کی تھی وہ ملک ہمارا ازلی دشمن بھارت تھا، ہمارے مومن جنرل ضیاء الحق کو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کی یہ عادت عین اسلام دکھائی دی اور انہوں نے خوش ہو کر مرارجی ڈیسائی کو پاکستان کے اعلی ترین اعزاز سے نوازا۔بھارتی وزیر اعظم اور پاکستانی جنرل دونوں کے درمیان بھٹو دشمنی قدر مشترک تھی، ورنہ مرارجی ڈیسائی کشمیر سے نکل جانے پر رضامند نہ تھا۔جب ہم اپنے اندرونی معاملات میں کسی کو مداخلت کا حق نہیں دیتے تو پھر ہم بنگلہ دیش جو ایک آزاد خود مختار ریاست ہے، کے اندرونی معاملات میں کیوں دخل اندازی کرتے ہیں، جس طرح ہم اپنے اندرونی معاملات میں بیرونی ’’تاک جھانک‘‘ کو نامناسب خیال کرتے ہیں اسی طرح ہمیں دوسروں کے اندرونی معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کرنے سے گریز کی راہ اپنانی چاہیے۔

مولانا مطیع الررحمان کو سزائے موت دئیے جانے کا غم،دکھ اور افسوس ہر پاکستانی کو ہوا ہے جماعت اسلامی کی قیادت کا حکومت پاکستان کے طرز عمل وکردارپر اظہار ناراضگی کرنا اپنی جگہ جائز ہے کیونکہ دونوں ایک ہی سکہ ہیں دونوں اسٹبلشمنٹ کے تابع سیاست کرتی ہیں۔ لیکن پاکستان کی لبرل اور جمہوری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کو بنگلہ دیش کی’’ حسینہ واجد‘‘ حکومت کی مذمت کرنے کے جنون اور جوش میں مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کے شرمناک کردار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اسے تاریخ کے اوراق سے کھرچنے کی کوشش کو کامیاب ہونے دیں۔ اگر جماعت اسلامی کا مشرقی پاکستان میں مثبت اور جمہوری کردار ہوتا تو عالم اسلامی کی سب سے بڑی اور بہادر افواج کو غیر مسلم فوج کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنے کی ہزمیت نہ اٹھانا پڑتی۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی جماعت اسلامی نے جمہور دشمن پالیسیاں جاری رکھیں ان پالیسیوں کے تحت اس نے ہر آمر اور اسکی غیر آئینی حکومت کی بیساکھیاں بن کر اسے تقویت پہنچائی اور مضبوط کیا، اس کی مدد و تعاون کے باعث ہی جمہور اور عوام دوست سیاسی جماعتوں پر قیامت ٹوٹتی رہی ہے،بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ اب جماعت اسلامی تبدیل ہو رہی ہے لیکن یہ حقیقت سے بہت کوسوں دور والی بات ہے۔ویسے قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی ،متحدہ مجلس عمل اور ملی یکجئتی کونسل کے پلیٹ فارم سے جماعت اسلامی کی قیادت کی اصلاح کرنے کی اپنے تئیں بہت کوشش کر چکے ہیں اور ہنوز انکی جدجہد جاری ہے، لیکن شائد یہ بات علامہ ساجد علی نقوی کے مشاہدات میں نہیں کہ جماعت اسلامی آسانی سے اپنے موقف اور پالیسی سے دستبردار نہیں ہوتی۔حسینہ واجد اور اسکی حکومت کو سہ ملکی معاہدہ کی پاسداری کرنی چاہیے کیونکہ جمہوریت اور جمہوری معاشروں میں دنیا ’’زبان کے پکے ‘‘ افراد اور ممالک کو قدر کی نظروں سے دیکھتی ہے اور بے زبان افراد اور ممالک کا حقہ پانی بند کرنے کی سزا بھی دیتی ہے، عراق ،ایران سیمت دیگر ممالک کی مثال ہمارے اور حسینہ واجد کے سامنے موجود ہے۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 143037 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.