بھیک برائے تعلیم

جامعہ کراچی سے روز ہی کوئی نہ کوئی پروانہ طلبہ و طالبات کے نام جاری کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے بھی ایک ایسا حکم نامہ جاری ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ جامعہ میں فیس ڈیفالٹر طلبہ و طالبات کو سمسٹر امتحانات میں بیٹھنے نہیں دیا جائے گا۔ یہ بات ایسی تھی کہ جس کو سنتے ہی وہ طلبہ و طالبات جو فیس کی ادائیگی کی بروقت استطاعت نہیں رکھتے وہ ذہنی طور پر شدید پریشانی کا شکار ہوئے ہوں گے۔ابھی یہ فیصلہ ہوا ہے اور شاید کالم کے چھپنے تک کچھ رد و بدل تک عملدآمد بھی کیا جاچکا ہوگا۔

مذکورہ خبر پڑھ کر مجھے ارسلان ثاقب یاد آگیا۔ وہ کہا رہا تھا’’مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ ہم معاشی طور بھی کافی کمزور ہیں ۔ گھریلو اخراجات سے کچھ بچتا ہی نہیں کہ جو میں اپنی تعلیم پر خرچ کر سکوں۔ جہاں بھی جاؤں فیسوں کی مد میں اتنے پیسے مانگے جاتے ہیں کہ کچھ پل کو سوچنے کے بعد کچھ سو میں خریدا ہوا داخلہ فارم گھر ہی لے آتا ہوں۔ ایک طرف ماں کا بیمار اور افسردہ چہرہ اور دوسری طرف میری تعلیم۔ بہت کوشش کر کے ایک دو بڑی جماعتیں پاس کر لیں مگر اب اونچے لیول کی تعلیم کے لیے اونچے پیسے کہاں سے لائیں۔ بس چھوڑ دی اور اب چائے بنا کر تعلیم یافتہ لوگوں کی خدمت کر تا ہوں ۔ پڑھ نہ سکا کم از کم پڑھے لکھے لوگوں کی خدمت تو کرتا ہوں‘‘۔ یہ الفاظ تھے آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ایک بڑی خوبصورت عمارت کے بڑے سے دفتر کے پیون کے۔ اعلیٰ ثانوی تعلیم یافتہ کے ہاتھ کی چائے بھی کافی سلجھی ہوئی تھی۔ صفائی ستھرائی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ اس دفتر میں انٹر پاس پیون کی ہی ضرورت تھی۔

ارسلان ثاقب اپنی تعلیم کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چائے پلانے پر ہی خوش ہے۔ کیوں کہ اسے تعلیم پر لگانے پڑتے جو اس کے پاس تھے نہیں مگر یہاں سے کچھ مل جاتا ہے جس سے وہ گھر کی گاڑی کو چلا سکتا ہے۔ ابھی حال ہی کہ بات ہے کہ ہمارے کالج میں ایک طالبعلم کاشف کے پاس فیس ادا کرنے کے پیسے نہیں تھے۔ پرنسپل نے ایک ہی جملہ کہا اور چل دیے۔’’ فیس کے بغیر کسی کو بھی امتحان میں شریک نہیں ہونے دیا جائے گا‘‘۔ انہوں نے فیس کی ادائیگی کے لیے نہ جانے کیا کچھ نہیں کیا مگر ان کے پاس پھر بھی پیسے کم پڑ گئے اور ایک دن بعد امتحان شروع ہوگئے۔ ان کی جگہ ایک اور دوست نے قربانی دی اور خود کی فیس کی جگہ انہیں بیٹھا دیا۔خود امتحانات سے باہر آگئے۔ مگر حیرت اس بات پر کہ پرنسپل صاحب کو کوئی فرق نہیں پڑا کہ کسی کا سال ضائع ہو رہا ہے۔

لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ کیا کوئی کاشف جیسے طلبہ کی تھوڑی سی بھی مدد نہیں کرسکتا۔؟ کاشف کو چند ہزار کی ضرورت تھی جس سے اس کا مستقبل جڑا تھا۔ اس نے نم آنکھوں اور گلو گیر لہجے کے ساتھ بتایا کہ اس نے فیس کی ادائیگی کے لیے نہ جانے کیا کچھ نہیں کیا۔ ہر غم اور دکھ بھلا کر ہر کسی سے مانگے مگر کوئی فراڈیہ کے لقب سے نوازتا تو کوئی کہتا جھوٹی کہانی گھڑی ہوئی ہے۔ ہم روزانہ کی بنیا دپر ناجانے کہاں کہاں کیا کچھ خرچ نہیں کرتے۔ صرف 5ہزار کی وجہ سے کاشف کا سال ضائع ہوجاتا اور یہ بھی ممکن تھا کہ وہ آئندہ کبھی بھی نہ پڑھ پاتا۔ کس قدر افسوس کی بات تھی کہ کسی کو محسوس تک نہیں ہوتا کہ کون مجبور ہے اور کون فراڈیہ ہے، کسے کیا ضرورت ہے۔ لو گوں کے لیے منہ سے الفاظ نکالنا بہت آسان ہوتا ہے مگر کوئی ایک پل کو یہ نہیں سوچتا کہ اس کے الفاظ متعلقہ فرد پر کیا اثر چھوڑیں گے۔ مجھے اس وقت ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا کہ کہیں کاشف دلبرداشت ہو کر کچھ کر نہ بیٹھے۔

شاید ہماری قوم کے کچھ بے حس افراد اب فراڈیوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ ایک شخص کھمبے پر چڑھ کر احتجاج کر رہا تھا۔ خاتون صحافی نے تجزیہ نگار سے سوال کیا کہ آخر مظاہرین کو کھمبے پر چڑھ کر احتجاج کرنے ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ ۔ انہوں نے جواب دیا۔ ’’شاید اس لیے کہ اب ان کی بات زمین پر آرام سے کھڑے ہوکر کوئی نہیں سنتا۔ جب تک وہ کھمبے پر نہیں چڑھیں کسی کو یقین ہی نہیں آتا کہ وہ مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘‘ کیا اب ایسا ہے کہ جب تک کوئی روپ نہ بدلے، ہاتھ پاؤں نہ تڑوائے، مسکینوں جیسی حالت نہ بنائے کسی کو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ ضرورت مند ہے۔ یہ بات صرف ضرورت مند طلبہ و طالبات کے لیے نہیں بلکہ عموما بھی ہمیں اپنے ارد گرد میں حقیقی ضرورت مندوں کا اندازہ ہونا چاہیے۔

یاد رکھیں یہ بچے قوم کے معمار ہیں۔ آج اگر آپ ان کی تعلیم و تربیت میں ان کا ساتھ دیں گے، ان کا ہاتھ بٹائیں گے، تو آنے والے دنوں میں یہ اسی قوم کا فخر ہوں گے۔ یہ وہ قوم ہے جنہیں آپ کی توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر آج توجہ نہیں دی تو کل کو یہیں وہ بچے ہوں گے جو جوان بھی ہوں گے، طاقتور بھی ہوں گے مگر قو م کا فخر نہیں بلکہ معاشرے کا سب سے بڑا بوجھ ہوں گے۔ کوئی منشیات میں لت پت ملے گا، تو کسی سے بارود کی بو آئے گی۔ تب بھی آپ ہوں گے لٹنے والے اور یہ لوٹنے والے ہوں گے، آپ مرنے والے ہوں گے اور یہ مارنے والے ہوں گے۔ آپ مظلوم کہلائیں گے اور یہ ظالم کہلوائیں گے۔ شاید تب آپ کو بھی احساس ہوگا کہ آپ نے ہاتھ نہیں پکڑا تھا اور تب یہ احساس کسی کام کا نہیں ہوگا۔

آج ان ابھرتے نوجوان کا ہاتھ تھامیں۔ انہیں آپ کی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں اس بات پر مسر نہ کریں کہ کماؤ اور پڑھو۔ ایک چھوٹا سا بچہ کیا کمائے گا۔ اس ستم گر معاشرے میں کون اسے کمانے دے گا۔ اس ظلمت خیز معاشرے کے ہاتھوں رسوا کرنے پر مجبور کرنے کے بجائے آج ان کو تھوڑی سی آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ آنے والے دنوں میں وہ خود ہی اپنے قدموں پر کھڑا ہوجائے گا۔ تعلیم اسے سب اچھا برا سمجھا دے گی۔
اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں۔ آپ کو اوپر والے نے اگر نوازا ہے تو اس میں سے خرچ کریں ۔ ان محلے، بستی اور گلی کے بچوں کی تعلیم پر خرچ کریں۔ انہیں اپنے ہاتھوں سے کتابیں، کاپیاں، بیگ اور یونیفارم لا کردیں۔ کسی ایک یا دو بچوں کی فیس کی ادائیگی کی ذمہ داری اٹھائیں۔ اوپر کی سطح پر کالجز اور یونیورسٹی کی فیسوں میں نوجوان ضرورت مندوں کی معاونت کریں۔ خود اسکول، مدرسہ اور تعلیمی اداروں میں جاکر آپ بچوں میں رغبت دلانے کے لیے انہیں وظیفے دیں۔ یاد رکھیں یہ وہ سرمایا ہے کہ جو آپ کا اپنا ہے۔ جس پر جتنا لاگت آئے گی منافع اس کے بانسبت اور آپ کی سوچ سے بڑھ کر ہوگا۔ روز محشر یہ سرمایاآپ کے لیے نور ثابت ہوگا۔ جب تک آپ کی دی ہوئی رقم سے تعلیمی پرورش پانے والے بچے دنیا میں اچھائی کا سبب بنتے رہیں گے آپ کو اس سرمائے سے منافع ملتارہے گا۔

میں اپنے ان چند لفظوں سے ان اساتذہ اور پرنسپلز سے بھی کہوں گا کہ خدارا ان ناتواں طلبہ پر کچھ تو رحم کریں ۔ کیا جائے گا آپ کا، چند ٹکوں کے عوض ان کے مستقبل کو داؤ پر نہ لگائیں۔ چند روپوں سے آپ کو اچھا کھانے کو مل جائے گا، اچھا پہننے کو مل جائے گا بس۔ مگر ذرا سوچئے ان بچوں کا جنہیں آپ نے امتحانات میں نہیں بیٹھنے دیا اور ان کا سال ضائع کردیا اور وہ اپنی زندگی کے ایک قیمت وقت میں ایک سال پیچھے چلے گئے۔اور کچھ ان کے لیے جنہیں ایسے طلبہ فراڈ لگتے ہیں۔ جن کی سوچ کا دائرہ کار صرف ایک خاص زاویہ کے گرد گھومتا ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی جوائن کی جائے تو وہ مدد کریں گے۔ بس کچھ زیادہ نہ کریں اتنا سوچ لیں کہ تعلیم کا تعلق نہ تو کسی فراڈ سے ہوتا ہے ، نہ کسی مذہب یا فرقے سے اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی سے ۔ تعلیم کا تعلق شعور کو اجاگر کرنے سے ہوتا ہے۔ انسان کو انسان بنانے سے ہوتا ہے اور انسانیت آزاد ہوتی ہے وہ کسی گروپ، گروہ، بھیک ، فراڈ یا دھوکے سے تعلق نہیں رکھتی۔
 
Arif Jatoi
About the Author: Arif Jatoi Read More Articles by Arif Jatoi: 81 Articles with 69221 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.