یومِ تکبیر...مجتبٰی رفیق اور گھانس کھاتی عوام

ایک کامیاب اور مضبوط ریاست کے لیے ضروری ہے کہ اُس کی دفاعی پالیسی کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کے پیشِ نظر فلفور ریاست کے تحفظ کو یقینی بنایاجاسکے یہی وجہ ہے کہ آج بحیثیت ریاست دنیا میں تقریباً تمام ممالک اِسی پالیسی کو اپناتے ہوئے جدید اسلحے اور ٹیکنالوجی کے حصول میں ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے نظر آتے ہیں جو کہ ایک طرف اسلحے کے فروغ میں اضافے کا باعث ہے تو دوسری جانب چھوٹے ممالک میں احساس محرومی کا سبب بھی۔

طاقت کے نشے میں دھت ہر بڑی ریاست اپنے سے کمزور اور چھوٹی ریاست کو اپنی کالونی بنانے پر بضد ہے جس کی وجہ سے چھوٹے ممالک بھی اپنی بقا اور سلامتی کے لیے اپنی ساری توانائی اپنے دفاع پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں جس کے باعث ان غریب ممالک میں غربت مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل میں مستقل اضافہ ہورہا ہے۔پاکستان کا شمار بھی چند ایسے غریب ممالک میں ہوتا ہے جسے اپنی سلامتی پر لاحق اُمڈتے خطرات کے پیش نظر مجبوراً اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا جس کے بعد سرحدیں مضبوط ہوتی گئیں اور قوم جیسے سوکھے کے مرض میں مبتلا ہوکر کمزور سے کمزورتر ہوتی رہی۔

51 سال پہلے دشمن کو للکارنے والا وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کا یہ بیان ہم گھانس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے قوم کے وجود پر ایک ایسی چھاپ چھوڑ گیا جس سے 51 برس بعد بھی جان نہ چھڑائی جاسکی مجتبیٰ رفیق سمیت ملک کے کروڑوں ہونہاروں کے مستقبل طاقت کے خونی کھیل میں رنگ دئیے گئے۔

کہنے کوآج کے دن ہمیں دنیا کے شر سے محفوظ رکھنے کے لیے ایٹمی لحاف سے ڈھانپ دیا گیا تھا صدر وزیراعظم سمیت قوم کا بچہ بچہ خوشی سے جھوم رہا تھا بیرون ملک سے پوسٹ گریجویشن کرکے آنے والے مجتبیٰ رفیق کا خوشی کے مارے ٹھکانانہ تھا ملک پر فخر کرتایہ نوجوان جھومتا جارہا تھاآج کے دن اِس سمیت ملک کا ہر نوجوان خود کو محفوظ سمجھتے ہوئے اپنا مستقبل روشن تصور کررہا تھا۔

آج کے اِس اہم دن کو قومی دن قرار دیدیا گیا بڑا دن تھا بڑا نام تجویز کیا جانا تھا وزیراعظم صاحب نے قوم سے رائے طلب کی ملک کے ہونہار مجتبیٰ رفیق نے اِس اہم دن کو یوم تکبیر کے نام سے پکارے جانے کی تجویز پیش کی جسے وزیراعظم نے سراہا اور قوم کے اس ہونہار کو قومی ہیرو قرار دے کر اسے اعزازی سرٹیفکیٹ سے نوازنے کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ نوکری اورانعام و اکرام سے نوازے جانے کا وعدہ بھی کیا لیکن صرف وعدہ۔جس کے بعد قوم کے نوجوانوں کی کتاب بند کردی گئی اور کہانی ختم کردی گئی وہ قومی ہیرو مجتبیٰ رفیق تاحال نوکری سے محروم ہے آج نہایت کسم پُرسی کی زندگی گزار رہا ہے بیروزگاری کے سبب گھر میں فاقہ کشی کی نوبت آچکی ہے حکمران جماعت کے دفتروں میں گورنمنٹ نوکری کے حصول کے لیے اپنی جوتیاں رگڑنے پر مجبور ہے آج بھی پنجاب کی سڑکیں اسکے پاؤں کے چھالوں سے رستا خون اپنے اندر جذب کررہی ہیں مجھ سمیت بیشتر کالم نگاروں نے اس کے لیے آوازِ حق بلند کی لیکن ہمارے چنگھاڑتے قلموں سے نکلنے والی گونج دونوں تینوں شریفوں کے آگے بے سود ثابت ہوئیں۔

ملک کا مضبوط ہونا انتہائی اہم ہے لیکن قوموں کا زندہ رہنا اُس سے کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے لہذا اِس طرف توجہ دینا بھی ریاست کی اولین ترجیح ہوناچاہیے۔

ایٹمی طاقت بنے 19 سال بیت چکے ہیں لیکن قوم آج بھی گھانس کھانے پر مجبور ہے کہنے کو ہماری سرحدیں مضبوط ہوگئیں لیکن ہم اندر سے اتنے ہی کمزور اور لاغر ہوتے جارہے ہیں ہم بحیثیت قوم اندر ہی اندر گھلتے جارہے ہیں کیونکہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی ہم پر ڈرون سے بم برسائے جارہے ہیں جو ہمارے ایٹمی حصاروں کو توڑکر آتے ہیں اور ہمیں منہ چڑا کر چلے جاتے ہیں اور ہم بے بس ولاچار دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
 
علی راج
About the Author: علی راج Read More Articles by علی راج: 128 Articles with 106563 views کالم نگار/بلاگر.. View More