مولانا مطیع الرحمن نظامی ؒکی پھانسی

پاکستان کی مجرمانہ خاموشی سے کشمیر پر اثرات
 پاکستان کی بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو دی جانے والی پھانسیوں سے متعلق مکمل خاموشی نے اپنے اندر بے پناہ معنی اورمبہم و اجمالی پیغامات کا ڈھیر چھپا رکھے ہیں جو کشمیریوں کے لئے تشریح طلب ہی نہیں بلکہ سخت اضطراب کا باعث بنے ہو ئے ہیں ۔ برصغیر کی تقسیم کی المناک تاریخ کا جزجز پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔اس المیہ پر جب بھی بات ہوگی یا جب بھی اس کے اوراق اُلٹ دیئے جائیں گے پاکستان کے نا چاہتے ہو ئے بھی اس کا تذکرہ تا صبحِ قیامت ضرور آئے گا ۔پاکستان وہ خطہ ہے جس نے اسلام کے نام پر ملک کو توڑنے کا مطالبہ کیا ۔برصغیر کی سرزمین بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگین کر دی گئی ۔پاک و ہند کی سرحدی زمین آج بھی اس کی گواہی دے رہی ہے کہ ہزاروں قافلے میرے جانب آتے آتے راستوں میں ہی لٹ گئے یا گم کردئے گئے ۔دہشت گرد درندوں کے غول میں چیختی معصوم بہنوں کی صدائیں آج بھی سنی جاسکتی ہیں اگر کسی کے وجود میں قلب سلیم کے ساتھ انسانی سماعت سلامت ہو ۔نیزوں اور تلواروں پر اچھلتے بچوں کی پھٹے کلیجے اور سرحدی جانوروں کے جبڑوں میں ان کی بوٹیاں آج بھی نظر آسکتی ہیں اگر انسان کے وجود میں نفس مطمئنہ موجود ہو ۔مگرافسوس مادیت کے پرستاروں کے لئے یہ سبھی چیزیں بے معنی ہیں ۔

1947ء میں ہندوستان اسلام کے نام پر دو حصوں میں تقسیم کردیا گیاایک کا نام پہلے سے ہندوستان تھا جبکہ دوسرے کانام پاکستان رکھا گیا ۔تصور یہ قائم ہوا کہ پاکستان’’ دفاعِ دین‘‘ کا قلعہ ثابت گا اور جدید اسلامی ریاست کی تشکیل کے بعدیہ مسلم دنیا ہی نہیں غیر مسلم دنیا کے لئے بھی ایک نمونہ قائم ہوگا ۔اسلام پسندوں نے ان تصورات اورافکار کی بنیاد پر پاکستان کو اسلام کا قلعہ ہی قرار نہیں دیابلکہ مدح سرائی کی آخری حدیں پھلانگتے ہو ئے پاکستان کو با ضابطہ مدینہ طیبہ کے بعد دوسری ایسی ریاست قرار دیدیاجس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہو ۔پاکستان وجود میں آگیااور آج بھی پورے آب و تاب سے قائم ہے پر وہ ’’اسلام ‘‘پوری پون صدی گذرنے کے باوجود بھی قائم نہیں ہو سکا جس کو بعض ممالک میں اسلام پسندوں نے ملک حاصل ہوتے ہی دوسرے روز نافذ کردیا ۔یہ اس کے وجود میں ایک ایسا روگ ہے جس کے نتیجے میں آج تک اس ملک پر ظالم اور جارح سیکولر اور لبرل اقلیتی طبقہ حکومت کرتا رہا مگر ’’بے چارہ وہ اسلام نہیں‘‘جس کا مقدس نام بدنام کرتے ہو ئے اس کو حاصل کیا گیا ۔سچائی یہی ہے کہ آج بھی اس ملک کا سب سے بڑا مرض یہی ہے کہ وڈھیروں،چودھریوں ،ڈکٹیٹروں،ڈکیٹوں اور مہاجنوں کی اقلیت اس ملک پر حکومت کرتی ہے وہ اکثریت نہیں جس کی وجود میں اسلام داخل ہے ۔

ہندوستان ٹوٹنے کے بعد پاکستان بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور ایک تیسرا ملک بنگلہ دیش وجود میں آگیا ۔اس آپریشن میں بھارت کی بھر پور عسکری اور سیاسی سر پرستی بنگلہ دیشی قوم پرستوں کو حاصل رہی ۔جماعت اسلامی پاکستان نے اسلامی شریعت کی رو سے متحدہ پاکستان کو توڑنے کی مخالفت کرتے ہو ئے پاکستان کے دفاع کے لئے اپنی جانیں نچھاور کیں برعکس اس کے پاکستان کی نوے ہزار فوج نے سرنڈر کر کے بنگلہ دیش کے قیام کی ساری روکاوٹیں ختم کردیں ۔بنگلہ دیش قائم ہوا اور اس کے حصے میں جنم لینے والے کارکنان کو ہدف بنادیا گیا ۔جس کی چند روز قبل آخری ’’عبرت ناک مثال‘‘مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ کو تختہ دار پر چڑھا کر قائم کردی گئی ۔ان کا جرم یہی نہیں ہے کہ انھوں نے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ عملی طور پر آخری درجے کی قربانی دیکر اس مکروہ تصور کے راستے میں روکاوٹ بن گئے،اسے بھی سو قدم آگے یہ کہ ملک بنائے جانے کے مدت بعد جب انھیں اپنے وطن واپس آنے کی اجازت ملی تو انھوں نے اس کو بھارتی سامراج کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کی بھرپور مزاحمت کی ۔خطے کے بڑے سامراج نے بنگلہ سرکار پر کئی ناموں پر بے شمار دولت خرچ کی اور مسلسل دباؤ بھی بڑھائے رکھا اور نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ بنگلہ دیش کی بد بخت خاتون حکمران جان بوجھ کر بھارت کو خوش کرتے ہو ئے اسلام پسند رہنماؤں کو پھانسیوں پر چڑھا رہی ہے ۔

کشمیر کے سبھی مسلمان جماعت اسلامی سے وابستہ تو نہیں ہیں پر اس المناک واقع پر یہاں کے عوام بالکل اسی طرح بے چین اور مضطرب ہیں جس طرح افضل گورو کی پھانسی کے موقع پر یہاں کے عوام دردو کرب سے گذر چکی ہے ۔تمام تر مسلکی اور گروہی اختلافات سے بالاترہو کر یہاں کے دینی ،سیاسی اور حریت رہنماؤں نے اس کی بھر پور مذمت کی یہ دیکھے بغیر کہ مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ کا مسلک ،فرقہ یا تنظیم کیا ہے ۔یہاں کے عوام میں بالعموم اور لکھے پڑھے نوجوانوں میں بالخصوص اس المیہ کے حوالے سے پاکستان کے مجرمانہ رول پر سخت حیرت ہو رہی ہے ۔کشمیرمیں آزادی پسند حلقے میں ’’الحاق پاکستان‘‘کے حامی لوگوں میں اس رویہ پر نہ صرف چرچے جاری ہیں بلکہ باضابطہ پاکستان کے حوالے سے دوبارہ غور و فکر اور احتساب کی دعوت دی جاتی ہے کئی’’ محبان پاکستان ‘‘ اسلام اور اسلام پسندوں کے حوالے سے پاکستان کے منفی رجحان کے بعد تنفر کا اظہار کرتے ہیں ۔کئی حضرات اس حوالے بعض الحاق نوازوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ ایک ایسا ملک جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اورمستقبل میں ’’مفروضہ قیام دین‘‘کی بنیاد پر کشمیری قوم کو ایک ایسے فکری دلدل میں جھونک دیا گیا جہاں الحاق کے باوجود ’’غلبہ اسلام ‘‘دکھائی نہیں دیتا ہے ۔کئی نوجوانوں نے مجھ سے یہاں تک پوچھا کہ آخر جس ملک میں پون صدی تک اسلام نافذ نہیں ہوا اس کے ساتھ الحاق کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟میں نے جب الحاقیوں کی یہ دلیل پیش کی کہ چھوٹے چھوٹے علاقوں اور راجواڑوں کے قیام کی اجازت اسلام نہیں دیتا ہے اور پاکستان میں’’اقامت دین‘‘ کے امکانات زیادہ ہیں تو مجھ سے’’ مستقبل میں مفروضات‘‘کی بنیاد پر عمل کی شرعی دلیل مانگی گئی ۔ان نوجوانوں کا اصرار ہے کہ اس کے برعکس نبی پاکﷺ کی یہ سنت نظر آتی ہے کہ آپؐ نے مدینہ ہجرت فرما کر پہلے وہاں اسلام قائم کیا پھر پوری روئے زمین پر بسنے والے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیکر اس میں شمولیت کی دعوت دیدی ۔ اسلام پسندوں اور الحاق نواز حضرات کو اس نقطے پر غور کرنا چاہئے کہ آخر جس ملک کے ساتھ جڑنے کی دعوت وہ دے رہے ہیں اس ملک میں خود اسلام پسندوں اور الحاق نوازوں کی حالت کس قدر قابل رحم ہے ؟

پاکستان نے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے حوالے سے ہی یہ شرمناک رویہ نہیں اپنایا ہے بلکہ خود ہزار ہا جھوٹوں کو تخلیق کر کے وقت وقت پر پاکستانی اسلام پسندوں پر بھی بدترین مظالم ڈھائے ہیں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کے بانی علامہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پر بھی ’’جہاد کشمیر کے منکر ‘‘ہونے کی تہمت لگائی گئی؟کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان کی ریاست نے سید مودودیؒ کو پھانسی پر چڑھانے کی بھرپور تیاری کی اور پھر عالمی دباؤ کے نتیجے میں سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا ؟کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مولانا مودودیؒ پر قاتلانہ حملہ کرانے والے لوگ ان کے مسلکی مخالف نہیں بلکہ وہ پاکستان کے اعلیٰ ترین حکمران تھے!کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کے دوسرے امیر میاں طفیل محمدؒ کے ساتھ جیل میں شرمناک اور وحشیانہ برتاؤ کرانے والے کوئی عام انسان نہیں بلکہ خودپاکستانی حکمران تھے؟جماعت اسلامی پاکستان کے ایک عظیم دانشوراور پارلمنٹیرین ڈاکٹر نذیر احمد کو شہید کس نے اور کیوں کیاکون اس سانحہ سے واقف نہیں ہے؟کیا یہ بھی جھوٹ ہے پاکستان کے دوست اور ہندوستان کے دشمن ’’خالصتانی سکھوں‘‘ کی تحریک کو فنا کرنے والا بھارت نہیں خود وہ پاکستانی حکام تھے جنہوں میڈیا کے سامنے ببانگِ دہل بھارت پر احسان جتاتے ہو ئے باربار اس کارنامے کا ذکر کیا !کیا یہ بھی جھوٹ ہے کہ پاکستان کی ’’نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی جنگ لڑنے والے‘‘افغان مجاہدین نے جب روس کے چھکے اڑا دیئے تو ان پر ’’طالبان‘‘کو مسلط کر نے والے پاکستان کے ’’بہی خواہ‘‘تھے؟کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مجاہدین افغان کو طالبان کے ہاتھوں ذلیل کرنے اور پھر اس طالبان کو نیٹو کی بے رحم فوج کے ہاتھوں قتل کرانے والے پاکستان کے حکمران اور فوج تھی؟ملا ضعیف کو تمام تر سفارتی آداب و اخلاق کے برعکس گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کرنے والا کوئی اور نہیں پاکستان کا نامی جرنیل تھا!طالبان کے خلاف جنگ میں بمبار جہاز ہندوستان یا بنگلہ دیش سے نہیں بلکہ’’اسلامی پاکستان‘‘ کے ہوائی اڈوں سے اڑان بھر کر ہزاروں ٹن بارود بے گناہ افغانوں پر برسا کر ’’اخوت اسلامی کے تصور‘‘کو تار تار کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑ چکے ؟عرب مجاہدین کو روس کے خلاف جنگ میں’’ مجاہدین فی سبیل اﷲ‘‘اور امریکہ کے خلاف صف آرأہونے پر دہشت گرد قرار دینے والی مغربی دنیا کے سُرمیں سُرملاکر ان کی تھاپ پر ناچنے والا کوئی اور نہیں پاکستان کا حکمران طبقہ تھا۔

پاکستان کا یہ ظالمانہ رویہ اور امریکہ کی ’’وفادارانہ اطاعت‘‘کسی مسلک ،ملک اور جماعت کے حوالے سے خاص نہیں ہے بلکہ ہر مقام اور ہر دور میں ایسا ہی نظر آتا ہے۔کشمیر میں ہندوستان کی غلامی سے آزادی کے متمنی متحرک اور فعال معروف عسکری رہنما ؤں میں شہید محمد مقبول بٹ اور مرحوم عبدالحمید دیوانی کو طویل مدت تک پاکستان کی جیلوں میں وحشیانہ سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ۔اتنا ہی نہیں خود کشمیر میں ’’الحاقِ پاکستان اور اسلامی تحریکات ‘‘کے سوچ کی ترجمانی کرنے والے گیلانی صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اپنایا گیا ۔تحریک حریت سے قبل جب گیلانی صاحب جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم پر اس نظریئے کی ترجمانی کر رہے تھے تو گیلانی صاحب کو ’’گمنامی میں گم کرنے کے لئے بے چین ‘‘نئی دلی کے ساتھ اسلام آباد کی بھی آشیر باد حاصل تھی حتیٰ کہ مشرف نے اپنے دور میں گیلانی صاحب کو زچ کرنے اور کرانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور گیلانی صاحب کا قصور صرف اتنا تھا کہ انھوں نے مشرف کی افغانستان ،پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے اپنائی گئی پالیسی سے اختلاف کیا تھا ۔حیرت یہ کہ مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے دیگر رہنماؤں کی پھانسیوں کو پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر براجمان’’ عیاش خودساختہ دانشورطبقہ‘‘اس کو بنگلہ دیش کا اندرونی مسئلہ قرار دیتا ہے ! المیہ یہ کہ بعض لوگ حکومتِ بنگلہ دیش سے باضابطہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے افراد کو’’ نشانہ عبرت‘‘ بنانے کی بھی بات کرنے سے بھی نہیں چوکتے ہیں ۔جیو ٹی،وی چینل پر دن رات دانشوروں کے روپ میں احمقوں کا ایک ٹولہ ’’ عالمی اسلامی اخوت‘‘کے تصور کی دھجیاں بکھیرتے ہو ئے’’ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان ‘‘کے بنگلہ دیش کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور اپنے سفیر کوواپس بلانے پر بھی نالاں ہیں ۔جس ملک کے حکمرانوں اور دانشوروں کی بے غیرتی ،بد بختی اور دینداروں سے تنفر کو حال یہ ہو اور وہ دین کی تشریح اپنے تصورات سے برعکس پا کراس کو ’’کارمُلاکے چٹکلوں‘‘میں اڑاکر انتہاپسندی اور رجعت پسندی کی گالی سے بے اثر کرنے سے نہیں چوکتے ہوں اور ان کا ’’حاصلِ حیات‘‘اسلاف کو جاہل اور مغرب کے کنجروں اور کنجریوں سے داد وصول کر ان کو داد دیتے ہوئے مال بٹورنا ہووہ لوگ بھارت کی نگاہ میں ماڈریٹ اور لبرل کہلانے کے شوقین ہوں اور وہ مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کا سردرد قرار دیتے ہوں تو ایسے میں کشمیری لیڈروں اوردانشوروں کو زمینی سطح پر بنگلہ دیشی سانحات سے مرتب ہونے والے منفی اثرات کو مدِ نظر رکھتے ہو ئے آپ اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور کسی دردمند انسان کے مرثیہ کو ’’قوم پرستی ، وطن پرستی اور پاکستان سے نفرت‘‘کی تندوتیز کلمات سے بے اثر کرنے کی حماقت کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے اس لئے کہ کشمیری ایک ایسی ملت ہے جس کو افغانوں ،بنگالیوں اور عربوں سے بھی ہزار گنا زیادہ بدتر صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ سبھی آزاد فضاؤں میں سانس لینے اور جینے والے لوگ ہیں ہم تو اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہیں لہذا محاسبہ کے وقت دونوں کے حالات کو بھی مدِ نظر رکھا جائے ۔
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 83859 views writer
journalist
political analyst
.. View More