شادی بیاہ اسلامی شریعت میں

مولانا ڈاکٹر محمد عبدالسمیع ندوی

مذہب اسلام وہ آسمانی و آفاقی مذہب ہے جو رہتی دنیا تک خدا کی طرف سے ترقی یافتہ دنیا کے لئے امن و سلامتی نجات و حفاظت کا ضامن بن کر آیا اور تاقیامت حفاظت کی ضمانت خدا نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ حقیقت میں مذہب اسلام ایک کامل و مکمل جامع دستورحیات کا نام ہے جس کی تمام تر تعلیمات عام فہم ، سادہ ہیں کہ ہرکس و ناکس کو بخوبی و آسانی سمجھ میں آجاتی ہیں۔

مذہب اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو انسانی ، بشری، طبعی اور فطری تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر تعلیمات کا حکم دیا ہے۔ انسان کی فطرت میں خوشی و مسرت ، رنج و غم دونوں شامل ہیں۔ ہر انسان کی زندگی میں اس قسم کے مواقع یقینا پیش آتے ہیں۔ اس موقع پر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان (out of control) آپے سے باہر نہ ہو بلکہ انتہائی متانت و سنجیدگی، حلم و بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدا و رسول کی مرضیات کو دریافت کرنے کی کوشش کرے اور آزمائش کے اہم ترین موقع پر خواہشات نفسانی سے مغلوب و متاثر نہ ہوتے ہوئے یا حالات زمانہ اور اہل زمانہ کے رسوم و رواج اور بے جا خرافات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے شریعت مصطفوی سے سرمو انحراف کا ارتکاب نہ کریں کہ بسا اوقات انسان خوشی و مسرت کے موقع پر فخرومباہات ، کبروگھمنڈ ، ریا و نمود سستی شہرت کا طالب ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ خدا کے نافرمانوں میں ہو جاتا ہے اور نتیجتا ًخواہشاتِ نفسانی کی تکمیل میں شریعت خداوندی سے سرمو انحراف اور غیروں کے رسوم و خرافات پر عمل پیرا ہونا بڑی بے دینی اور دین بیزاری ہے جبکہ رسول مکرم ﷺ کا فرمانِ مقدس ہے ’’خدا کی قسم تم میں کوئی اس وقت تک کامل و مکمل مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی تمام خواہشات میرے دین کے تابع نہ ہو جائے۔‘‘

نکاح خوشی و مسرت کا انتہائی اہم ترین موقع ہو۔ اسلام میں نکاح ایک عبادت کا حکم رکھتی ہے۔ نکاح صرف جذبات کی تسکین کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ماسبق تمام پیغمبروں کی سنت و طریقہ ، اسلامی شریعت میں مسنون عبادت اور نصف ایمان کا درجہ رکھنے والی عبادت ہے۔

ہر دور میں تمام پیغمبروں کی چار سنتیں رہی ہیں : (۱) نماز (۲) خوشبو کا استعمال (۳)مسواک (۴) نکاح

مذہب اسلام میں نکاح عبادت کا حکم رکھتا ہے۔ فرمانِ رسالتمآب ﷺ ہے ’’نکاح میرا طریقہ ہے جس نے اس سے منہ موڑا وہ ہم سے نہیں۔‘‘ شادی جہاں ضروری ہے وہیں اسلام نے اس میں سہولت اور گنجائش بھی رکھی ہے۔ نکاح کے لئے ’’مہر‘‘ ضروری تو قرار دیا گیا مگر اس کی مقدار ایسی سہولت کی رکھی گئی ہے کہ اس پر عمل ہو تو دشواری پیش نہ آسکے لیکن بدقسمتی سے یہ کام بہت پیچیدہ اور مشکل بنا لیا گیا اور یہ اہم عبادت مصیبت بن گئی اور نوجوانوں کی شادی خانہ آبادی ایک دشوار ترین کام بن گئی۔ اس کے علاوہ لڑکیاں کوئی تجارتی سودا نہیں ہیں کہ بیچی یا خریدی جائیں بلکہ وہ عزت و آبرو ہیں ، ان کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے میں پیغام نکاح دینے والے کا تعاون بے حد ضروری ہے۔ لڑکی والوں کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ پیغام نکاح دینے والے کے دین و اخلاق سے رضامندی کی صورت میں ٹال مٹول کی کوئی روش اختیار نہ کرے ، اس صورت میں بزبانِ رسالتمآب ﷺ قہرخداوندی اور فسادِعریض کی پیشگوئی کی گئی ہے۔

نکاح ، بداخلاقی اور بے شمار اخلاقی برائیوں کے لئے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان جس طرح زبان کی بدولت بدزبانی ، بدگوئی ، فحش گوئی کا ارتکاب کر کے سوسائٹی اور معاشرہ میں اپنا کوئی مقام نہیں رکھتا۔ اسی طرح آنکھوں ، نظروں اور شرمگاہ کی عدم حفاظت کے سبب انسان اپنی عزت کھو دیتا ہے اور معاشرے میں اس قسم کی برائیوں کے مرتکب شخص کو کوئی بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ ان برائیوں سے حفاظت کی خاطر نکاح ایک موثر ذریعہ ہے۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان عظیم ہے : ’’اے نوجوانو! تم میں جو حق زوجیت اور نان و نفقہ کی ادائیگی کی استطاعت رکھتا ہو ، اُسے چاہئے کہ شادی کرے کیونکہ یہ طریقہ نگاہوں کو نیچے رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔‘‘

نکاح کے معاملہ میں اسلاف ، بزرگانِ دین اور صالحین کا سب سے پہلا کام یہ ہوتا تھا ، وہ یہ دیکھتے کہ نکاح کا پیغام دینے والا کیسا ہے؟ اس کا دین ، اس کے اخلاق و عادات کس معیار اور درجے کے ہیں ان کی نظر مادہ پرستانہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ لڑکی کے انتخاب کے سلسلہ میں دنیا کے دیگر مذاہب میں یہود کے یہاں لڑکی کے انتخاب کا معیار مالداری ہوا کرتی تھی جبکہ عیسائیوں کے یہاں حسن و جمال دیکھا جاتا ہے اور کفار و مشرکین ہندو اقوام میں حسب و نسب اور خاندان کو اولیت اور ترجیح دی جاتی ہے ان تمام باتوں سے ہٹ کر مذہب اسلام نے لڑکی کے انتخاب کے لئے جس قیمتی شئے کو معیار قرار دیا ہے وہ دینداری ہے۔

حدیث رسولؐ ان باتوں پر شاہد عدل ہے کہ ارشادِنبویؐ ہے : ’’عموماً عورتوں سے شادی کی جاتی ہے ، چار چیزوں کو پیش نظر رکھ کر (۱) عورت کی مالداری (۲)عورت کا حسن و جمال (۳)عورت کا حسب و نسب یعنی خاندان (۴) عورت کی دینداری و شرافت ۔ قائد انسانیت رہبر عالم سرکار دو عالم ﷺ نے امت مسلمہ کے نوجوانوں کو حکم دیا کہ ان مذکورہ اسبابِ انتخاب میں اگر تمھیں کسی ایک کو انتخاب کا معیار بنانا ہے تو دینداری کو بناؤ تو تمھارا یہ عمل باعث خیروبرکت ہوگا اور اس تقریب نکاح کو باعث خیروبرکت بتلایا گیا جس میں بہت کم خرچ ہوا ہو۔
٭٭٭
 
syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 45645 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.