عورت کے حقوق اور اسلام

زہرہ جبیں

حدیث کا مفہوم ہے
صحیح مسلم کی روایت ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ میراث تقسیم کرنا نہ رک جائے اور مال غنیمت پہ انسان نہ خوش ہو۔ وراثت علم الفرائض ہے۔ اﷲ نے فرض کیا ہے۔

لیکن لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ نماز ، زکواۃ، تہجد ، روزوں کی کثرت لیکن ایک طرف بہنوں کا حق قبضہ کر کے بیٹھا ہوا ہے۔

یاد رکھیں، عبادتوں کا تعلق اﷲ کی ذات سے ہے اور علم الفرائض کا تعلق انسان سے ہے۔ اﷲ کی فرائض میں خیانت شاید اﷲ معاف کر دے مگر انسان کا حق مارو گے تو اس کی بخشش نہ ہوگی۔

ایک اور حدیث ہے جس کا مفہوم ہے۔۔۔
صحیح بخاری سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ایک شخص ایسا ہوگا جسکا اﷲ کے ساتھ ہر معاملہ درست ہوگا، نماز، روزہ ، زکواۃ ، حج لیکن جب اﷲ کے ساتھ حساب کتاب ختم ہو جائے گا اس کا تو بندوں کے حقوق پہ سوال اٹھے گا ۔ ایک شخص اٹھے گا اور کہے گا کہ یا اﷲ اس نے مجھے گالی دی تھی، اﷲ فرشتوں سے کہے گا اس کی نیکیوں میں سے کچھ اس بندے کو دے دو جس کو اس نے گالی دی تھی۔ ایک شخص اٹھے گا اور کہے گا یا ااﷲ اس نے میرا حق مارا تھا۔ اﷲ کہے گا اسکی نیکیوں میں سے اس بندے کو دے دو جس کا اس نے حق مارا تھا ۔ آخر میں یہ حال ہو گا کہ فرشتے کہیں گے کہ یا اﷲ مانگنے والے آتے جا رہے ہیں اسکی نیکیاں ختم ہوگئیں جو اس نے تیری عبادت سے حاصل کیا تھا وہ سب دوسروں میں تقسیم ہوگئیں اب کیا کریں؟

پھر اﷲ کہے گا اب ان لوگوں کے گناہ اٹھا کر اس کے سر ڈال دو اور رسوا کر کے جہنم میں ڈال دو۔
اور حضور اکرم ﷺ نے ایسے شخص کو اپنی امت کا مفلس کہا ہے۔

یہاں بات وراثت میں سے عورتوں کے حق کی ہو رہی ہے۔

اس کام کی اسلام اجازت دیتا ہے ، اﷲ اجازت دیتا ہے مگر عالم تو یہ ہے کہ جب کوئی عورت اپنا حق مانگتی ہے تو اسکو یہ کہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے کہ اب تمہارے ماں باپ حیات نہیں ہیں تو کونسا حق اور کہاں کا حق؟ اور کچھ تو یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ آج تک ہماری برادری یا علاقے میں کسی بہن بیٹی کو بھائی سے باپ سے جائیداد میں سے حصہ مانگتے دیکھا ہے کسی نے۔ لوگ کیا کہیں گے کہ فلانے کی بہن نے اپنے بھائی سے حصہ مانگا ہے۔ تمہیں ہماری عزت کی پرواہ نہیں ہے؟ تم ہماری ناک کٹا دو گی۔۔۔ یہ لوگ یہ معاشرے کے عالم بردار لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جائیداد میں سے حصہ دینا بھی اسلامی تعلیمات کا ہی حصہ ہے۔ اﷲ اور ااﷲ کے رسول جب بندوں کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیتے ہیں تو یہ معاشرے کے عالم بردار ہوتے کون ہیں اﷲ کے احکامات پر انگلی اٹھانے والے ۔ کیا معاشرے کے یہ ہوش مند ، یہ خود کو مسلمان کہنے والے، یہ عورتوں پہ پردے کی پابندی کا کہنے والے، بات بات پہ غیرت دکھانے والے اﷲ کے اس حکم کے بھی منافی ہیں ؟ پھر ان دین اسلام، روزہ زکواۃ یہ سب کہاں گیا؟ کیا یہ منافقت کے زمرے میں نہیں آتا؟ افسوس ہوتا ہے ان لوگوں پر کس خدا اور مذہب کے پیروکار ہیں یہ؟ جب بات عورت کے گھریلو فرائض کی آجائے تو عورت کو اجر و ثواب ، سزا جزا کا پاٹ پڑھا دیا جایا جاتا ہے۔ اور بات عورت کے اپنے حق کی ہو اس کو ڈرا دھمکا کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔اگر عورت کو حصہ دینے پر راضی ہو بھی جائیں تو یہ شرط رکھ دیا جاتا ہے کہ ٹھیک ہے ہم حصّہ دے دیں گے میراث میں سے مگر آئیندہ ہم سے اور اس گھر سے کوئی تعلق مت رکھنا ، یا گھر کی چوکھٹ پر قدم مت رکھنا۔ لو اپنا حصہ مگر ہم سے تعلق ختم کر لو۔آئے روز ٹی وی اور اخبارات میں مختلف نوعیت کے فلاحی تنظیموں کے اشتہار دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں خواتین کے حقوق سے متعلق معلومات اور قانونی مشاورت کی پیشکش کی جاتی ہے اور انہیں تنظیموں سے رابطہ کرنے کو کہاجاتا ہے۔ آئے دن مختلف قانون بنتے ہیں عورتوں کے حقوق پہ۔ آئے دن کتنے بل پاس ہوتے ہیں۔ حکومت قانون تو بناتی ہے مگران پر نظرثانی کون اور کیسے کرے یہ اک سوالیہ نشان ہے۔ کسی دور دراز گاؤں میں کسی ناخواندہ عورت کا حق مارا جائے تو اسے قانون کا کیا فائدہ جب وہ عورت ہی اپنے حق کیلئے آواز اٹھانا نہ جانتی ہو۔

ہمارے ملک کا یہ سلسلہ ہے کہ خواتین کی تعداد 52% ہیں مگر ناخواندگی کی شرح مردوں سے زیادہ ہے۔ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کو یہ مجھ نہیں آتی کہ کیا صحیح ہے کیا غلط۔ اپنے حقوق کے متعلق معلومات کی اگاہی نہیں ہوتی ۔ اس لئے عورتوں کو ایموشنل بلیک میل کرکے یا ڈرا دھمکا کرخاموش کرادیا جاتاہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ وراثت کی تقسیم اور عورتوں کے حقوق سے متعلق جہاں جہاں عورتوں کو مسائل درپیش ہیں وہاں عورتوں کو معلومات فراہم کرنے سے متعلق کوئی پروگرام کا آغاز کریں جوکہ دین اور دنیا کے اصولوں کے مطابق معلومات فراہم کریں۔

جس طرح زچہ بچہ (گائنی) کے پیچیدہ مسائل کو عام فہم انداز میں کم تعلیم یافتہ اور ان پڑھ خواتین کا پہنچایا جاسکتا ہے بالکل اسی طرزکا کوئی خواتین ٹیم بنائی جائے جو گاؤں گاؤں جاکر عورتوں کو حقوق سے متعلق اگاہی فراہم کریں۔ مزید اگر کہیں کسی عورت کے حق میں حق تلفی ہوئی ہے تو اس کو جائز وراثت کے حق سے محروم رکھا گیا ہے تو اس کو قانونی مشاورت، کیس دائر کرنے کا طریقہ کار اور ذاتی حفاظت کے بندوبست کے بارے میں بتایا جائے اور اس کا بندوبست بھی کیا جائے۔

جن عورتوں کو اپنا حصہ مانگنے پر بے گھر کیا جاتا ہے ان کو دارالامان میں علیحدہ سپس بنایا جائے جہاں اسی خاتون کو پولیس کی حفاظت میں اس وقت تک رکھا جائے جب تک ان کے مقدمہ کا حتمی فیصلہ نہیں ہوتا اور سب سے اہم بات عورتوں کے حقوق سے متعلق مقدمات کا سماعت خواتین ججز کریں اورویمین پولیس کا استعما ل کیا جانا چاہیے۔ اگر اس کے ذہن میں کوئی حقوق نہ ہو تو۔ اور مزید یہ کہ سخت سے سخت قوانین بنائے جائیں اور خواتین کے حق میں حق تلفی کرنے والے افراد کو سزائیں دی جائیں۔
Zara Nasir
About the Author: Zara Nasir Read More Articles by Zara Nasir: 5 Articles with 7454 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.