پانامہ ہی کیوں سوئز اکاؤنٹ کیوں نہیں!

سارے خفیہ اکاوئنس اور اثاثے افشا کریں اور اسکی واپسی کے انتظامات کریں۔

آج جب دنیا نے پانامہ پیپرز افشا کر دیے تو لوگ اور تمام سیاست دان اس پر ڈھول بجا کر اس کا چرچا کر رہے ہیں لیکن وہی سیاست دان اور حکمران ان کاوئنٹس کو کیوں بھول گئے جس میں تمام بڑے پرانے اور نئے سیاست دانوں کے خفیہ اکاوئٹس موجود ہیں جبکہ اس میں تو بینظیر اور زرداری کے ریڈ ورنٹ بھی جاری کیے گئے تھے، اور پھر بعد میں یوسف رضا گیلانی صاحب کی حکومت خط نہ لکھنے پر اقتدارچھو ڑنا منظور کر لیا لیکن سوئز اکاوئنٹ کے بارے میں خط نہیں لکھا۔ جب انکی حکومت ختم ہوگئی تو ان کرپٹ عناصر نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو یہ معاملہ ٹل گیا وار واقعی اس کسی نے ابھی تک نہیں اٹھایا ، اور سپریم کورٹ کے احکامات بھل گئے اور کورٹ خود بھی بھول کر دیگر معاملات کی طرف مصروف ہوگئی اور یوں یہ معاملہ مٹی تلے دبا دیا ، جبکہ انکے بعد والے حکمرانوں نے اس موقف پر کان اور آنکھیں بند کر لیں اور قوم کو صرف پانامہ کے مسئلے پر الجھا کر سویئز اکاوئنٹس کو بھول گئے، جبکہ ان اکاوئنٹس میں بہت بڑی رقم چھپائی ہے، اس بات سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ کرپٹ اشرافیہ ان اکاوئنٹس کو کسی صورت افشا کرنے کو تیار نہیں ہے یہ اس قوم کا لوٹا ہوا پیسہ ہے جو اگر اس ملک میں لگتا تو عوام کا یہ حال نہ ہوتا جو آج بھگت رہے ہیں آج اس ملک میں عالب اکثریت غربت کی خط لکیر سے نیچے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔

اس ملک میں احتساب کبھی نہیں ہوا بس ضرورت کے تحت ایک خاص ضرورت کے تحت اس کا رخ موڑ کر لوگوں کو فائدہ پہچایا گیا، غیر فعل لوگوں کو جو غیر ممالک کی شہریت رکھتے تھے انہیں بڑے اداروں میں سربراہ کے طور پر بڑے بھاری بھاری مشاہرے پر تعینات کر کے تمام بڑے بھاری بھاری بینکوں کے قرضے بیک جمبش قلم جانے کس اختیار کے تحت معاف کروا کر کرپٹ اشرافیہ کو فوائدہ پہچاگئے۔ یہ کیسی روایت ہے کہ سارے کرپشن میں ملوٹ سیاست دان اور بیروکریٹس مل کر اس ملک کو دیوالیہ کرنے کے لئے کافی سخت محنت عالمی اداروں سے مل کر کر رہے ہیں تا کہ ان کو وہ مقاصد حاصل کرنے میں کوئی جواز مل جائے کہ وہ آپ کے ادارے اپنے قبضہ میں لے لیں جس کے لئے اس قوم نے بڑی محنت اور قربانیاں دیں ۔

یہ ملک اور قوم سے غداری نہیں ہے کیا آئین پاکستان کرپٹ لوگوں کو اسمبلی میں آنے کی اجازت دیتی ہے اور ان اداروں میں متعین لوگ کیوں حدود سے تجاوز کر کے قوانین کی لاف ورزی کرتے ہیں انہیں بھی احتساب کا سامنا کر کے سزا دی جائے چونکہ اصل خرابی کے زمہداری ان پر عائد ہوتی ہے۔ تو اب آرٹیکل ۶۲۔۶۳ کو تبدیل کر کے اسے تبدیل کر کے آئینی تحفظ حاثل کر لیں ۔ اس طرح کرپشن کو بھی آیئنی طور پر جائز قرار دے کر اس بحث سے بھی نجات حاصل کر لیں جس کی بنیاد پر طالع آزما ان کی حکومتوں کوگراتے ہیں۔

اپنے اداروں میں ایماندار لوگوں کو لا کر اس قوم کے ساتھ احسان کیا جائے اور اداروں کو مضبوط کیا جائے جو قوانین کی خلاف ورزی پر ایک مربوط مزاہمت فراہم کریں اور قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔

وزیراعظم احتساب کے لئے خود کو تو پیش کرنے کا ڈھول بڑی شدت سے بجا رہے ہیں ، کیا ان میں یہ ہمت ہے کہ سوئیز اکاوئنٹس کے افشا کے لئے ایک خط لکھ کر وہاں موجود پاکستانیوں کے خفیہ اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کر کے قوم کے سامنے پیش کر یں، تو اس بات پر وہ قابل تعریف بھی ہونگے اور بھر اس کی واپسی کے اقدامات کر کے قوم کولوسٹی ہوئی دولت واپس اس ملک میں لا کر اس ملک پر ایک احسان عظیم فرمائیں گے۔

ان کا واحد مقصد صرف یہ ہے کہ حالات اس نہج تک پہنچا دیے جائیں کہ قوم ان کی کرپشن کے تمام کارنامے ان کا حق سمجھ کر معاف کر دیں۔ پاکستان بچانا ہے تو کرپٹ اشرافیہ کا کڑا احتساب کیا جائے یا پھر مجک کی سلامتی کی خیر منائیں۔ چونکہ ان کرپٹ عناصر نے اس ملک کے معاملات میں غیر ملکوں کے ہاتھ فروخت کر کے قوم کو ان کی غلامی کرنے پر مجبور کر دیاہے، ان ممالک کی اس ملک میں لگی تمام دولت ان لٹیروں سے حاصل کر کے انہیں اس ملک سے باہر نکالیں اور پاکستان جن مقاصد کے لئے بنا تھا جں کے لئے لوگوں نے قربانیاں دی تھیں وہ پورا کیا جائے۔ قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ اس سمت جہادی اقدامات اٹھائے جائیں جو لوگ ا نقلاب کی بات کرتے ہیں کرپشن کے خلاف انقلاب برپا کیا جائے۔
 
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75302 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More