جنوبی ایشیا کے 5ممالک جن کے ناموں کے آخر میں ـ’’ ن ‘‘ آتا ہے مگرپانچوں دنیاکے نمونے ہیں

پاکستان،افغانستان، ہندوستان ، ایران اور چین جن میں ’’ن ‘‘ توکومن ہے مگر اِنہیں کبھی آپسمیں ’’ نِباہنا‘‘نہیں آیاہے ،ہندوستان ایران اور افغانستان راہدری منصوبہ اور پاکستان...؟؟
کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے ؟؟ کہ جنوبی ایشیا اور دنیا کے پانچ ممالک جن میں بالخصوص پاکستان ، افغانستان ، ہندوستان، ایران اور چین شامل ہیں یہ پانچوں ایسے ممالک ہیں جن کے ناموں کے آخر میں ’’ن‘‘ آتاہے یہ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی ہے بلکہ اِن ممالک کے موجودہ صدور اور وزرائے اعظم کے ناموں میں بھی کہیں نہ کہیں یعنی کہ آگے پیچھے اُوپر نیچے اور دائیں بائیں سے ’’ ن ‘‘ ضرور آتاہے۔

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اِن میں آپس میں اُس ’’ نِباہنے ‘‘ والے ن کی شدیدکمی ہے آج اگر اِن ممالک کوکہیں سے نبہانے والے ن کی اہمیت اور افادیت کا لگ پتہ جائے توممکن ہے کہ یہ ممالک صرف خطے ہی میں کیا ؟؟بلکہ ساری دنیا میں بھی ایک ایسی طاقت بن کر اُبھریں گے کہ آج کی دنیا کی ساری سُپرطاقتیں بھی اِن کے سامنے زیرہوجائیں۔

مگرشائد ایسا نہ ہوجیساکہ میری سوچ ہے کیونکہ یہ ممالک اپنی اپنی ثقافتوں اور تہذیبوں کے لحاظ سے کبھی بھی ایک نہیں ہوسکتے ہیں اِس لئے کہ یہ پانچوں اپنے ناموں میں ’’ن ‘‘ توکومن رکھنے والے ممالک ضرور ہیں مگر ساتھ ہی یہ ممالک دنیا کے ایسے پانچ عجوبے اور نمونے بھی ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔

ابھی جب میں اپنا یہ کالم تحریر کررہاہوں تو مجھے اپنے سینیئرکالم نگار ساتھی اور دوست و بھائی قادرخان افغان(جو اپناکالم ’’ پیامبر‘‘ لکھتے ہیں‘)کی یہ بات یاد آگئی جن کا اِس حوالے سے کہناہے کہ حقیقت ہے کہ خطے کے اِن پانچوں ممالک کے ناموں میں’’ ن‘‘ تو ضرورمشترک ہے مگر ساتھ ہی یہ ممالک اپنی خصلت اور فن وثقافت اور تہذیب اور رکھ رکھاؤ اور سوچ وفکر کے اعتبار سے بہت مختلف ہیں بظاہر تو اِن کی آپس کی سرحدیں بھی بہت قریب قریب ہیں اور یہ ایک دوسرے سے ملی بھی ہوئیں ہیں مگر اِن میں سے کم و بیش سوائے دوتین کے دیگر کی سوچ اور رہن سہن کے طورطریقے ایک دوسرے سے لگّا نہیں کھاتے ہیں سو یہ کہناکہ اِن ممالک کے ناموں کے آخر میں’’ ن‘‘ آتاہے تو یہ اپنے معاملات بھی خوش اسلوبی سے حل کرنے والے ممالک ہیں تو ایسا ہرگزنہیں ہے اِن ممالک کی کل اور آج کی تاریخ اوراِن کے معاملات یہ بتاتے ہیں کہ یہ ممالک شائد کبھی بھی اپنے کسی بھی سیاسی و مذہبی اور دیگر معاملات کے حوالوں ایک سوچ اور فکر کے حامل نہیں رہے ہیں اور نہ ہی یہ ممالک آئندہ کبھی ایک ہوسکیں گے اِن میں یہی ایک کمی ہے جو بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے ورنہ تو واقعی یہ پانچوں نمونے پھر نمونے نہ کہلائے جائیں‘‘ بھائی قادرخان کی اچھی بات ہے جس سے بڑی حد تک ضرور متفق ہواجاسکتاہے ۔

آج اگراِن ممالک میں کسی چیز کی یا بہت ساری ایسی باتوں کی کمی ہے جو اِنہیں اپنی خصلت یا کسی اور وجہ سے محسوس نہیں ہوتی ہے تو اِس کا یہ بھی تو مطلب نہیں لیاجاسکتاہے کہ اِنہیں اِس کا بتایاہی نہ جائے؟؟اوراِنہیں اِن کی خامیوں اور غلطیوں کا احساس ہی نہ دلایاجائے ؟؟سومیرااور میرے دوست قادرخان افغان کا جو کام تھاوہ ہم نے کردیاہے اَب دیکھتے ہیں کہ اِس حوالے سے دنیا کیا کہتی ہے؟۔

بہرحال، ہاں تو میں بات کررہاہوں خطے میں پانچ ایسے ممالک کی جو اپنے ناموں کے آخر میں ’’ن ‘‘ مشترک رکھتے ہیں تو آئیں میں ایک بار پھر آ پ کو بتاچلوں اِن ممالک کے نام ’’ پاکستان، افغانستان ، ہندوستان، ایران اور چین ہیں اِسی طرح اِن کے صدور اور وزیراعظم کے ناموں میں یا دونوں میں سے کسی ایک کے نام میں بھی ن آتاہے جیسے کہ اتفاق سے پاکستان کے صدر اور وزیراعظم کے ناموں میں کہیں نہ کہیں ’’ ن ‘‘ آتاہے ممنون حُسین، اورنوازشریف، ہندوستان کے وزیراعظم نریندرمودی، ایران کے صدر حُسین روحانی، افغانستان کے صدراشرف غنی اور چین کے صدر ژی/ شی چنگ پنگ کے نام شامل ہیں بہرکیف ، اپنے قارئین کو میں نے غورکرنے اور سوچنے کے لئے ایک نقطہ دے دیاہے آپ سوچیں اور غورکریں اور سوال کریں کہ جیسامیں نے کہاہے وہ ٹھیک ہے ؟؟ یا غلط ہے ۔

اگرچہ گزشتہ دِنوں جس طرح ہندوستان کے بے حد اصرار اور خواہش پر ایران ، ہندوستان اور افغانستان کے درمیان چاہ بہاربندرگاہ پر تجارتی راہداری کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں اِس سے تو صاف ظاہر ہے کہ ایسا ہندوستان نے صرف اور صرف پاکستان اور چین کے درمیان پچھلے سال ہونے والے راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے( ایران ، ہندوستان اور افغانستان کے درمیان راہداری منصوبے کا معاہدہ) کیاہے،پاک چین راہداری منصوبے کو ناکام بنانے والے ہندوستان کی خواہش یہیں ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ حیرت انگیز طور پر ہندوستان نے دوقدم آگے بڑھ کر تین ملکی ایران ، ہندوستان اور افغانستان راہداری منصوبے کی تعمیری کے لئے 50کروڑ ڈالرسے چاہ بہاربندرگاہ اور زاہدان تک ریلوے لائن بنانے کا بھی اپنی نوعیت کا ایک ایسے انوکھے اور عجوبے معاہدے پر دستخط کردیئے ہیں اَب جس کے بعدہندوستان کودیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں بچاپائے گا۔

تاہم اِس پر ہندوستان کے وزیراعظم نریندرمودی کا یہ کہناہے کہ ’’ ہم نے اپنی خواہش پوری کردی ہے اَب چاہئے اِس کے بات ہندوستان کے دیوالیے کے بعدہندوستانی عوام کو زندہ رہنے کے لئے دنیامیں دھول ہی کیوں کہ چاٹنی پڑے تو ہندوستانی عوام دھول چاٹ کر ہندوستان، ایران اور افغانستان کے درمیان ہونے والے راہداری منصوبے کو کامیاب بنائے گی جبکہ ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی کا معاہدے پر دستخط کرنے کے ساتھ ہی یہ بھی کہناتھا کہ’’ نئی دہلی ایرانی بندرگاہ پر 20کروڑ ڈالر کی ابتدائی سرمایہ کاری کرے گا یوں تینوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کاآج تاریخی دن ہے‘‘ یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ ہندوستانی عوام عورت ، بچے مرد و جوان جن کے پاس تن ڈھانپنے کو کپڑے نہیں ، سرچھپانے کو گھر نہیں بیچارے گٹروں کے پائپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور کھانے کو روٹی نہیں ہے ایسے ہندوستان کا وزیراعظم نریندرمودی اپنے عوام کی حسرتوں کا خون کرکے کیسے کروڑوں اور اربوں اور کھربوں ڈالرز کی ایران اور افغانستان کے ساتھ مل کر کسی دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کررہاہے؟؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہندوستانی عوام صرف پاکستان کو نیچادکھانے والے اپنے جنونی وزیراعظم نریندرمودی سے ضرورلیں اور پوچھیں کہ یہ ایران میں کیسے سرمایہ کاری کرکے ہندوستانی سرمایہ داوپرلگارہاہے؟؟ہائے رے۔۔۔!! افسوس کہ ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی توکو اپنے غریب اور مفلوک الحال عوام سے بھی ’’ نِباہنا‘‘ نہیں آیاہے۔ ختم شُد۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 887425 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.